اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔23-08-2010

دیوہیکل چیلنج
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

ارشادمحمود
پاکستان ایک بحران سے نکلتا نہیں کہ دوسرا طوفان سراٹھالیتاہے۔چند برس قبل آنے والے زلزلے کے اثرات ابھی پوری طرح زائل نہ ہوپائے تھے کہ دہشت گردوں نے پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں ایک قیامت صغرا برپا کردی ۔عسکری اور سول ادارے ابھی پوری طرح اس سے نبردآزما نہ ہوپائے تھے کہ سیلاب نے کروڑںافراد کو بے یار ومددگار کرکے کھلے آسمان تلے ڈال دیا۔محدود وسائل ،مشتبہ بین الاقوامی ساکھ اور داخلی طور پر جاری سیاسی کشیدگی نے متاثرین کی مدد اور بحالی کو ایک دیوہیکل چیلنج بنادیا ہے۔سیلاب آتے ہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن باہم الجھنا شروع ہوگئی تھیں لیکن مقام اطمینان ہے کہ جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ اگر انہوں نے سیلاب پر سیاسی دوکان چمکانے کی کوشش کی تو عوام کے ساتھ ساتھ اپنا بھی بھیڑا غرق کردیں گی ۔اسی احساس نے انہیں ایک بار پھر متحد ہوکر سیلابی طوفان کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف کی حالیہ ملاقات اور مشترکہ پریس کانفرنس نے قومی سطح پر پائی جانے والی مایوسی کو رفع کردیا ہے۔
سیاسی قیادت تمام تر کمزوریوں کے باوجود جس طرح میدان عمل میں نکلی اور عوامی دکھوں کوکم کرنے کے لیے دوڑدھوپ کرتی نظر آئی اس نے قوم میں امید کی ایک کرن پیداکردی ہے کہ پاکستانیوں میں قدرتی آفات اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا عزم اور دم ہے۔قوم اس وقت حوصلہ ہارجاتی ہے جب اس کی قیادت اسے بیچ چوراہے میں تنہا چھوڑدیتی ہے لیکن اس مرتبہ حکمران اتحاد ،فوج ،شریف برادران ،مذہبی جماعتیں اور سول سوسائٹی جس طرح بروئے کار آئی ہے اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ہے۔زلزلے میں اگرچہ اموات زیادہ ہوئیں تھیں مگر وہ ایک محدود علاقے میں آیا ہے لہذا مقابلہ کرنا بھی نسبتاً آسان تھا مگر اس مرتبہ تو آدھا پاکستان ہی بہ گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ نے قریہ قریہ جاکر مسائل کی نشان دہی کی جس کی بدولت مقامی اور عالمی سطح پرعطیات جمع کرنے میں سہولت پیدا ہوئی۔علاوہ ازیںمقامی اور عالمی خیراتی اداے اور افراد بھی اطلاعات کی فراہمی کے بعد متحرک ہوئے ہیں۔لیکن میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی توجہ چند ہفتوں سے زیادہ کسی بڑ ے سے بڑے مسئلہ پر بھی ٹکٹی نہیں ہے۔زلزلے کے لرزا خیر واقعات کو چند ہفتوں کے بعد فراموش کردیا گیا تھا۔بعد ازاں کسی نے پلٹ کر پوچھا بھی نہیں کہ متاثرین زلزلہ کس حال میں ہیں۔ان کے نام پر ملنے والی امداد کس طرح خرچ ہوئی اور جو وعدے کیے گئے تھے وہ کس حد تک پورے ہوئے۔خدشہ ہے کہ یہی حال متاثرین سیلاب کا بھی ہوگا۔اسی طرح سیاسی جماعتیں اور شخصیت بھی جلد ہی دوسرے محاذوں کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرلیتی ہیں۔اس صورت حال سے بچنے کے لیے اس مرتبہ زیادہ جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی درکار ہے۔
ہر بحران کی کوکھ سے امکانات کی ایک دنیا جنم لیتی ہے۔ قدرتی آفات سے آنے والی تباہی عمومی طور پر بہترین انفراسڑکچر تعمیر کرنے اور غیر معمولی اقتصادی موقع پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ زلزلے سے قبل مظفرآباد، باغ اور راولاکوٹ میں ٹیلی فون کنکشن حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔موبائل فون کا تذکرہ ہی کیا۔لیکن آج ہر پہاڑ کی جوٹی پر درجنوں موبائل کمپنیوں کے ٹاور نصب ہیں۔بوسیدہ فوجی ہسپتالوں اور لرزتی ہوئی سکولوں کی عمارتیں کی جگہ عالمی معیار کی عمارتیں اور سہولتیں فراہم ہوچکی ہیں۔عالمی برادری یا امدادی ایجنسیوں نے اپنے وعدوں کے عین مطابق سکولوں، کالجوںاور ہسپتالوں کی تعمیر کے بعد انہیں مقامی انتظامیہ کے حوالے کردیا ہے۔ایسی اعلیٰ شان عمارتوں اور اداروں کا تصور شہروں میں بھی محال جو ان علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔لیکن ایک تلخ حقیقت کا تذکرہ کیے بنا بھی چارہ نہیں کہ جو منصوبے مقامی حکومتوں یا وفاقی اداروں کے زیر اہتمام مکمل کیے جانے تھے ان میں سے اکثر ابھی تک زیر تکمیل ہیں یا بعض پر کام ہی شروع نہیں ہوسکا ہے۔تمام تر کوتیائیوں کے باوجودیہ ایک حقیقت ہے کہ زلزلے کے بعد یہ خطہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہوچکا ہے۔
یہ مثال پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سیلاب کی تباہی اپنی جگہ لیکن اس کے نتیجے میں ان علاقوں میں بہترین انفراسٹرکچر ابھرسکتاہے۔لوگوں کو معیاری تعلیمی اور صحت کے ادارے فراہم کیے جاسکتے ہیں۔نشرطیکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ طور کوششیں کریں۔ریلیف ،بحالی اور تعمیر نو کے کاموں میں دنیا پاکستان کی مدد کرنا چاہتی ہے۔جب سے سیلاب آیا ہے محض امریکہ کی جانب سے آنے والی امداد اور اظہار ہمددری کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔درجنوں ہیلی کاپٹر متاثرین سیلاب کی مدد کررہے ہیں۔ایک دوست نے بتایا ہے کہ امریکی سفارت خانے میں ہر روز صبح دس بجے اجلاس ہوتا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں آنے والی تباہی سے کیسے مقابلہ کیا جائے۔اسی طرح عرب ممالک ،ترکی اور کئی ایک دیگر عالمی ادارے پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں۔لیکن شرط یہ ہے کہ پاکستان امداد کو خرچ کرنے اور منصوبوں کو پایا تکمیل تک پہچانے میں شفافیت کو یقینی بناسکے۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے جو قربانی دی ہے اس کا دنیا کو ادراک ہے ۔اگرچہ وہ مزید مطالبات کرتے رہتے ہیں۔قدرت نے انہیں یہ بہترین موقع عطا کیا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ آزمائش کی اس گھڑی میں پاکستان تنہا نہیں ہے بلکہ پوری دنیا پاکستانیوں کے مصائب اور مشکلات کو کم کرنے میں ان کی معاونت کررہی ہے۔اس تناظر میں نواز شریف کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز صائب ہے کہ تمام مالی وسائل ایک کمیشن کے سپرد کردئے جائیں جو پوری دیانت داری کے ساتھ انہیں خرچ کرے اور بحالی سے لے کر تعمیر نو تک کے تمام کاموں کی نگرانی کرے۔
زلزلے کے دوران آنے والی بیرونی امداد اوراس کو خرچ کرنے کا حالیہ تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔بے شمار افسروں نے اپنے لیے نہایت مہنگی گاڑیاں خریدیں،دفاتر کی آرئش پر کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا گئے۔عزیرواقارب اور دوست وحباب کو نوازنے کے لیے بڑے بھاری معاوضوں پر مشیر بھرتی کےے گئے۔یوں وسائل کا بے محابا زیاں ہوا۔اس مرتبہ جو بھی ادارے قائم ہوا اس میں مالیاتی نظم وضبط کا کڑا نظام قائم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایمان دار ،خدا ترس اور خدمت کے جذبے سے سرشاز افرادکا انتخاب کیا جائے ۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved