اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔28-08-2010

کشمیر پر اسلام آباد کی معنی خیز خاموشی
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود
 
کشمیر میں جاری زبردست عوامی تحریک نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ہزاروں مرد،عورتیں اور بچے کسی خوف کے بغیر گلیوں اور بازاروں میں امنڈ آتے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کوچیلنج کرتے ہیں۔ببانگ دہل اپنے مطالبات دہراتے ہیں ۔ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار نہیں ہے اور نہ ہی وہ بندوق کی زبان استعمال کرنا چاہتے ہیں،لیکن اس کے باوجود۲۶ کے لگ بھگ نوجوان فورسز کے ہاتھوں جاں بحق ہوچکے ہیںجبکہ فورسز کا ایک بھی جوان ہلاک نہیں ہوا۔
یہ سلسلہ گزشتہ تین ماہ سے جاری ہے ۔بھارتی ذرائع ابلاغ میں ان واقعات کی خوب چرچا ہو رہی ہے حتیٰ کہ واشنگٹن پوسٹ،نیویارک ٹائمز،اکانومسٹ سمیت کئی ایک برطانوی اخبارات میں مضامین چھپے اور ٹیلی وژن پر فلمیں اور خبریں چلیں مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ چپ سادھے ہوئے ہیں۔پاکستانی پارلی منٹ میں اس موضوع پر سرے سے کوئی آواز ہی نہیں اٹھائی گئی۔پاکستان میں وہ طبقات جو کشمیر کی تحریک سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ اس صورت حال پر سخت رنجیدہ نظر آتے ہیں اور کچھ کرگزرنے کے لیے بے چین ہیں۔
کشمیر سے عدم توجہ کی تشریح کرتے ہونے والے کئی ایک مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان رفتہ رفتہ کشمیر سے اپنا ہاتھ اٹھارہا ہے اور کشمیر میں جاری تحریک سے موجودہ لاتعلقی اسی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔اگرچہ اس موضوع پر شرح صدر سے دوٹوک نقطہ نظر کا اظہار ممکن نہیں ہے لیکن حالیہ مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میںپاکستانی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو ایک مختلف تصویر ابھرتی ہے۔پاکستانی ہیت مقتدرہ کا پختہ خیال ہے کہ بھارت مستقبل قریب میں کشمیری عوام کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت نہ کرپائے گا بالخصوص نئی نسل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کا معاہدہ طے پانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتاہے۔
شاہکار انفراسڑکچر کی تعمیر یا ملازمتوں کے بے تحاشا مواقع پیدا کرنے کے باوجود کشمیر کا الجھا ہوا مسئلہ اس وقت تک حل ہوتا نظر نہیں آتاہے جب تک کہ اس کے سیاسی پہلو کو حل نہ کیا جائے ۔اسلام آباد میں یہ بھی خیال پایا جاتاہے کہ دہلی اور سری نگر کے مابین مذاکرات کا دوطرفہ عمل اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔حریت کانفرنس کے جن رہنماﺅں نے میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں دہلی کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا وہ اپنے کیے پر کف افسوس ملتے ہیں جبکہ کشمیر میں کوئی دوسری سیاسی اکائی ایسی موجود نہیں ہے جو دہلی کے ساتھ کسی معاہدے کو عوام کے لیے قابل قبول بناکرپیش کرسکے۔
تحریک آزادی کی شمع اب کشمیریوں کی نئی نسل کے ہاتھ میں منتقل ہوچکی ہے ،جو بندوقوں کی گھن گرج میں پروان چڑھی ہے،لیکن اس کے باوجودجو پرتشدد طریقوں کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ یہ نوجوان پرامن طریقوں سے اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں جو پرتشدد کارروائیوں کے مقابلہ میں زیادہ کارگر ثابت ہوئے ہیں۔دی نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں اعتراف کیا ہے کہ کشمیر میں بھارت فورسزکے خلاف انتفادہ طرز پر مقبول عام بغاوت جاری ہے جو عسکریت سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس میں صرف پتھراﺅ کرنے والے نوجوان ہی شامل نہیں ہیں بلکہ ان کی بہنیں،مائیں ، دادا اوردادیاں بھی شریک ہیں۔
ٹائم میگزین کے ایک حالیہ تجزیئے کے مطابق سات لاکھ فوج کی موجودگی میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر قابو پانا ناممکن نظر آتاہے۔ موجودہ احتجاجی مظاہروں کے پس منظر میں بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کے رونما ہونے والے پے درپے واقعات کا زیادہ عمل دخل ہے۔یہی وہ واقعات ہیں جو ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔کشمیریوںکے غصے کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ چندہفتوں کے دوران پانچ مرتبہ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔دوسری جانب بھارتی فوج کشمیر سے فوجی انخلاءکے لیے بلکل تیار نہیں ہے ۔حتیٰ کہ اسے آرمڈفورسزاسپیشل پاور ایکٹ جسے کالے قانون کا خاتمہ تو درکنا ر اس میں ترمیم کرنا بھی گورا نہیں ہے۔اس سے قیاس کیا جاسکتاہے کہ طویل عرصے تک کشمیریوںاور بھارتی فورسز کے مابین جاری کشیدگی برقراررہے گی۔
بسااوقات شر کے بطن سے خیر بھی برآمد ہوجاتاہے۔موجودہ تحریک کے نتیجے میں ایک طویل عرصہ بعد کشمیری تحریک کی داخلی شناخت ابھری ہے۔عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ تحریک سے پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی عسکریت پسندوں کی شہ پر یہ احتجاج ہورہاہے۔چنانچہ بھارت کے اند ر سول سوسائٹی نے بھی کسی حد تک اس نئی حقیقت کو تسلیم کیا جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔گزشتہ دوتین ماہ کے دوران عالمی سطح پر کشمیر میں برپا احتجاج کی کوریج کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کسی بھی سطح پر کشمیر یوں کی جدوجہد کو منفی رنگ میں پیش نہیں کیا گیا ہے بلکہ بھارتی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کو قبول نہیں کیا گیاہے۔اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ عالمی رائے عامہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشددکارروائیوں کی حمایت نہیں کرتی ہے لیکن وہ پرامن سیاسی جدوجہد کے خلاف نہیں ہے۔اگر کشمیر یوں نے پرامن تحریک جاری رکھی اور پرتشددکارروائیوں کی طرف ازسرنو مائل نہ ہوئے تو امکان ہے کہ انہیں عالمی رائے عامہ کی حمایت دستیاب ہوجائے گی۔
کئی ایک حلقوں کی جانب سے پاکستان کو ڈرایا جاتاہے کہ اگروہ کشمیریوں کی حمایت میںکھل کر سامنے نہ آیا تو کشمیر ی عوام میں پاکستان کے بابت مایوسی پھیلے گی اور وہ خودمختار ریاست کی حمایت کی طرف مائل ہوجائیں گے جس کے اثرات پاکستان کے زیرانتظام جموں وکشمیر کے علاقوں بالخصوص آزادکشمیر پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔اگرچہ یہ امکان کم ہے کہ کشمیر ی پاکستان کے خلاف ہوجائیں اگر ایسا ہوبھی جائے تو یہ عارضی مرحلہ ہوگا۔پاکستان کو کسی بھی حالت میں اس وقت کشمیری تحریک کی داخلی شناخت کو پراگندہ نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ وہ خاموشی کے ساتھ کشمیر یوں کی اخلاقی اور مالی امداد جاری رکھے۔گزشتہ چندہفتوں سے حزب المجاہدین کے سربرہ سیدصلاح الدین اور حافظ محمد سعید کی خاموشی بھی ایک مثبت اقدام ہے۔ کشمیریوں کی عافیت اسی میں ہے کہ یہ دونوں حضرات اس مرحلے پر پس منظر ہی میں رہیں ۔
اس مضمون کایہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان کشمیر یوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔بلکہ اسے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کے ساتھ مسئلہ کے حل کی جانب قدم بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہ وقت بھارت کی بے بسی پر ہنسنے کا بھی نہیں ہے بلکہ پاکستان کو اپنے عالمی سفارتی رابطوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مسئلہ کے حل کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے ۔یہ وقت ہے کہ بھارت کو احساس دلایا جائے کہ حل طلب مسئلہ ایک ناسور کی ماند ہوتا ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوتاہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved