اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔05-09-2010

جمہوریت ایک صبرآزما کھیل ہے
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود


پاکستان میں منتخب جمہوری نظام قائم ہوئے ہنوز تین برس بھی نہیں گزرے ہیں کہ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ کہا گیا کہ سیاستدان بدعنوان اور شفاف انتظامیہ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں لہٰذا مارشل لاءجیساانتہائی قدم بھی جائز ہوچکاہے۔بدقسمتی سے یہ مطالبہ ایک مقبول سیاسی جماعت متحدہ قوم موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی جانب سے سامنے آیا ہے۔اگرچہ اس مطالبے کو شدت سے مسترد کردیاگیا لیکن یہ طرزعمل اس امرکی غمازی کرتاہے کہ ملک میں ماوراءآئین اقدامات کی حمایت کرنے والا ایک گروہ پایا جاتاہے۔یہ ضروری نہیں کہ یہ جماعتیں یا افراد کسی نادہیدہ قوت کی شہ پر ہی فوجی مداخلت کی دہائی دے رہے ہوں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نیک نیتی سے یہ سمجھتے ہوں کہ بحرانوں میں گھرے ہوئے اس ملک کی نجات کا یہ واحد راستہ ہے۔
گزشتہ چھ دہائیوں سے پاکستان کے ساتھ یہی ناٹک کھیلاجارہاہے ۔منتخب حکومت ابھی چند قدم بھی چل نہیں پاتی ہے کہ تمام دیدہ ونادہیدہ قوتیں مل کر اسے ناکام اور نااہل ثابت کرنے پر تل جاتی ہیں۔ارکان اسمبلی کو جائل ،کور دماغ اور قومی امور سے نابلد قراردیا جاتاہے۔اس نوع کے مباحثوں کے نتیجے میں رفتہ رفتہ رائے عامہ اس حد تک ہموارہوجاتی ہے کہ وہ جمہوری نظام کے خاتمے میں ملک کی نجات تصور کرنے لگتی ہے۔کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھتا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بدعنوانی ہوتی ہے۔وہاں کی اسمبلیوں میں بھی فرشتے نہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بسا اوقات قتل کے مقدمات میں پولیس کو مطلوب افراد بھی ایوانوں میں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ہر ملک کی سیاسی تاریخ میںمالیاتی بدعنونیاں ،اختیارات کا ناجائزاستعمال اور جنسی سیکنڈل جیسے واقعات پائے جاتے ہیں۔
برطانیہ جس کے بطن سے جمہوری نظام نے جنم لیا ہے ۔ صدیوں پر محیط ریازت اور مسلسل جدوجہد کے باوجود ابھی تک مثالی جمہوری نظام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکاہے ۔1890ءسے سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کے قصے کہانیاں زباں زدعام ہیں اورتادم تحریر یہ سلسلہ جاری ہے۔زیادہ پرانے واقعات دہرانا وقت کا زیاں ہے لیکن حال ہی میں رونما ہونے والے چند واقعات ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔اس سال مئی میں برطانوی کابینہ کے وزیرخزانہ ڈیوڈلائرز کو مستعفی ہونا پڑا کیونکہ وہ غیر قانونی طور پر اپنے ہی گھر کا 40,000پونڈ تک کرایہ وصول کرچکے تھے ۔چند ماہ قبل برطانوی ٹیلی وژن چینل فور نے ایک جعلی لابنگ کمپنی کے نام سے چند ایک ارکان پارلی منٹ کے ساتھ رابطہ کیا کہ اگر وہ اپنا سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرکے سرکاری پالیسی کو ان کے حق میں بنوانے میں کامیاب ہوجائیں تو انہیں اس کے عوض بھاری مالی معاوضہ ادا کیا جائے گا ۔چند ایک ارکان نے بخوشی یہ پیشکش قبول کرلی ۔جسے ٹیلی وژن چینل نے خفیہ کیمروں سے فلما لیا۔چنانچہ طویل بحث ومباحثہ اور تحقیقات کے بعد مارچ میں لیبر پارٹی نے اپنے چار ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کردی۔
گزشتہ برس مئی میں برطانوی اخبار دی ڈیلی ٹیلی گراف نے اپنی ایک تہلکہ خیز رپورٹ میں لکھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلی منٹ نے جھوٹے بلوں پر ہزاروں پونڈ کی رقم ہتھیا لی ہے۔بحران اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ سپیکر کو مستعفی ہونا پڑا اور کئی ایک ارکان پارلی منٹ کے خلاف کارروائی کی گئی۔بدعنوانی کے ان واقعات کے باوجود ایک بھی ایسی آواز نہیں اٹھی کہ پورے نظام کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے۔عوام سے حق حکمرانی چھن کر فوج کے حوالے کردیا جائے۔ازسرنو انتخابات کا مطالبہ کیاگیا تاکہ زیادہ بہتر انداز میں انتظامی امور چلانے کے لیے عوام کو دوبارہ نمائندے منتخب کرنے کا موقع مل سکے۔
امریکا کے سابق نائب صدر ڈک چینی کو عراق میں جنگ کے دوران مختلف کمپنیوں کو من مانے انداز میں ٹھیکے دینے اور بعد ازاں ان سے نہایت مہنگے داموں تیل اور دیگر اشیا خریدنے پر سخت تنقیدکا ہدف بنایا گیا۔امریکا کے اندر تاجروںاور کاروباری طبقات کا سیاسی جماعتوں اور افراد کے ساتھ گہرا تال میل ہے ۔دونوں ایک دوسرے کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں۔جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں چار برسوں میں تین وزرا ءعظم کو بدعنوان کے الزامات پر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوناپڑا۔یہی نہیں ناروے جیسے مہذب ملک میں سیاستدانوںکی بدعنونیوں اور جنسی سیکنڈلز زباں زد عام ہیں۔ دنیا کی متعدد معروف عوامی شخصیات مالی منفعت حاصل کرنے یا معاشقوں کے چکروں میں پھنس منظر نامے سے محو ہوگئی۔
بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی پارلی مانی جمہوریت قراردیا جاتاہے ۔وہاں بھی دودھ اورشہید کی نہریں نہیں بہتی ہیں۔443 ارکان پارلی منٹ میں سے 128پر سنگین نوعیت کے مقدمات درجہ ہیں۔84ارکان لوک سبھا پر قتل کے مقدمات درج ہیں۔17چوری کے الزمات میں مطلوب ہیں۔28ارکان پر بھتہ خوری کے مقدمات عدالتوں میں زیرالتواہیں۔ایک رکن پارلی منٹ پرقتل کے 17مقدمات چل رہے ہیںجبکہ حال ہی میں 11ارکان اسمبلی کی رکنیت محض اس لیے منسوخ کی گئی کہ ان پر رشوت لینے کا الزام ثابت ہوگیا تھا۔
یہ مثالیں پیش کرنے کا مقصد ہرگز بدعنوان سیاستدانوں کی حرکتوں کو جوازفراہم کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک یا معاشرہ ایسا پایاجاتاہو جہاں قوائد وضوابط کی سوفیصدپابندی کی جاتی ہو۔ ہرمعاشرے میں کالی بھیڑیں ہوتی ہیں لیکن ان کے انفرادی جرائم کی بدولت پورے نظام ہی کو تلپٹ نہیں کیا جاتاہے بلکہ اصلاح کے لیے مزید موثر اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ احتساب کا ایک ایسا نظام قائم کیا جاتاہے جس پر سب کا اطمینان ہو اور جو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر قانون اور اصول کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتاہو۔اس پس منظر یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ مارشل لاءیا خونی انقلاب میں مضمر نہیں ہے بلکہ نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ یہاں ایک منتخب نظام حکومت برقراررہے۔ جس کا عوام انتخابات میں کڑا محاسبہ کریں اور اگر کسی سیاستدان سے کوئی جرم سرزد ہو تو اسے انصاف کے کھڑے میں کھڑا کیا جاسکے۔
جمہوریت کا پودا راتوں رات تناور درخت نہیں بن سکتاہے۔ اسے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے وقت درکار ہوتاہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جلد نتائج چاہتے ہیں۔صبر کے ساتھ منتخب حکومت کو کام کا موقع دینے کا حوصلہ نہیں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت تبدیل کرنے کے قانونی اور آئینی راستوں کے سوا کسی دوسرے امکان پر بحث تو درکار اس کا کاتذکرہ تک نہ کیا جائے۔


 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved