اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔10-09-2010

چین کی گلگت میں موجودگی کا شوشاکیوں؟
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

سلیگ ہیریسن نے نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کرکے خطے میں تہلکہ مچادیاکہ چین نے گلگت بلتستان میں ۱۱ہزارفوجی تعینات کررکھے ہیں بلکہ موصوف نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان نے عملاًاس علاقے کو چین کے حوالے کردیا تھا۔اگرچہ پاکستان اور چین دونوں نے سرکاری سطح پراس رپورٹ کو غیر مصدقہ اور مضحکہ خیز قرارد دے کر مسترد کرد یا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت نے چین سے سرکاری سطح پر احتجاج کیا ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں مداخلت سے باز رہے۔دنیا بھر کے سفارت کار اور ذرائع ابلاغ درست حقائق جاننے کی کھوج میں ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ آخر پاکستان چین کی ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر آمد رفت کا خیر مقدم کیوں کرتاہے۔
523کلو میٹر طویل پاک چین سرحد پر چند سو فوجی یا نیم فوجی دستے تک تعینات نہیں ہیںکیونکہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے کبھی بھی کوئی خطرہ نہیں رہاہے۔لیکن اب 11000چینی فوجیوں کی موجودگی کے انکشاف نے ہر کسی کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ہیریسن کے دعویٰ کے برعکس گلگت بلتستان میںبارہ کے لگ بھگ پراجیکٹس پر مختلف چینی کمپنیاں تعمیراتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔مثال کے طو رپر چین کے تعاون سے پاکستان پا نچ تا سات ہزار کلوواٹ پن بجلی پیدا کرنے کے بونجی ڈیم پر ابتدائی نوعیت کا کام شروع کرچکا ہے جس پرپانچ ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ جبکہ دیامر بھاشا ڈیم پر کام جاری ہے جس پر بارہ ارب ڈالر اخراجات آنے کا امکان ہے جس میں گیارہ ارب ڈالر چینی سرمایاکاری ہوگی۔شاہراہ قراقرم کا توسیع منصوبہ بھی جاری ہے۔اس پر ہونے والی سرمایا کاری کا بڑا حصہ چینی ادارے فراہم کررہے ہیں۔جو بعدازاں گوادر بندرگاہ کو چین کے مشرقی صوبے سنکیانگ سے مربوط کردے گا ۔750کلومیڑ ریلوے ٹریک کے منصوبے پر بھی ابتدائی مطالعاتی کام شروع ہوچکاہے۔علاوہ ازیں معدنیات کی تلاش سمیت ، گلگت سکردو روڈ اور چار بڑے پن بجلی کے منصوبوں پر چینی کمپنیاں کام کررہی ہیں۔ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد جہاں پاکستان اقتصادی طورپر ایک مضبوط ملک کے طور پر ابھرے گا وہاں پاک چین دوستی بھی مزید گہری اور پائیدار ہوجائے گی۔
اس پس منظر میں نہ صرف بھارت نالاں ہے بلکہ دیگر عالمی طاقتیں بھی ان منصوبوں سے نا خوش ہیں۔ اس کے باوجود نہ صرف تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں بلکہ اس خطے کے عوام کی جانب سے چینی کمپنیوں کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کیا جارہاہے۔اسٹرٹیجک محل وقوع کی بدولت گلگت بلتستان ہمیشہ سے پڑوسی اور عالمی ممالک کی آنکھوں میں کھٹکتا رہاہے۔دوسری جانب اس خطے میں پائی جانے والی آبادی بھی کثیر المذاہب ہے جو جہاں تنوع پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے وہاں نسلی اور مذہبی تفریق تقسیم اور بسااوقات فسادات کا موجب بن جاتی ہے۔جس کئی ایک ممالک فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ہیریسن کا مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس ضمن میں درج ذیل حقائق مدنظر رہنے چاہیں۔ ان علاقوں مےں دنےا کی طاقت ور اسماعےلی کمیونٹی آباد ہے جس کا مالیاتی اور سیاسی اثر ونفوذ کسی تبصرے کامحتاج نہےں ہے ۔ چےن کو کنٹرول کرنے اور اس کی اقتصادی ترقی کو روکنے کے لےے اس کے حرےف ممالک اےسے مواقعوں کی تلاش مےں رہتے ہےں جن کے ذرےعے چےن کو عدم استحکام کا شکار کیا جاسکے۔ شمالی علاقہ جات اس ضمن میں اےک پوائنٹ بننے کی صلاحیت رکھتے ہےں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میںاہل تشےع کی سلامتی کا پاک ایران تعلقات کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے ۔اس لےے ان کی سلامتی اور تحفظ کو ےقےنی بنانا جہاں رےاست کی اپنی ذمہ داری ہے وہاں اس کے خارجی پہلو کو بھی مدنظر رکھنا پڑتاہے۔
دوسری جانب کارگل کی جنگ کے بعدسے گلگت بلتستان کو بھارتی ادارے خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب دونوں ممالک ریاست جموں و کشمیر کے دونوں حصوں کو حق خود حکمرانی (سلف گورننس) دینے کی تجاویز پر غور کر رہے تھے،اس موقع پر بھارتی حکومت اور دانشوروں کی کوشش تھی کہ وہ گلگت بلتستان کو بھی وہی حق دلوانے میں کامیاب ہو جائیں جس کا مطالبہ اسلام آباد، سری نگر اور جموں کے علاقوں کے لیے کر تاہے۔ علاوہ ازیںبھارتیوں کو بخوبی احساس ہے کہ گلگت بلتستان کے داخلی معاملات کو اچھالنا اسلام آباد کو کس قدر ناگوار گزرتا ہے اور وہ اس کے اسٹیٹس میں تبدیلی کے لیے کبھی رضامند نہ ہو گا۔ لہٰذا ان علاقوں کے عوام کے حقوق اور محرمیوں کا اکثر تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ پاکستان کو زچ کیا جاسکے۔
دہلی کے پالیسی ساز حلقوںمیں ایسے افراد کی بھی ایک تعداد پائی جاتی ہے جن کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اسلام آبادکے طرز عمل اور رویئے سے اس قدر نالاں ہیں کہ اگر انہیں ضروری لاجسٹکس سہولیات فراہم ہوں تو وہ اسلام آباد کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے تیار ہوسکتے ہےں ۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ شیعہ اور اسماعیلی مسالک کی پیروکارآبادی میں پاکستان کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔کیونکہ ان دونوں کمیونیٹز کو خطرہ ہے کہ انہیں گلگت بلتستان میں اقلیت میں بدلنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اس پس منظر میں بھارتی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے اپنی ۳۲ جنوری ۶۰۰۲ءکی اشاعت میں ایک دفاعی ماہر کے حوالے سے اپنی حکومت کو مشورہ دیا تھاکہ وہ تجارت اور توانائی کے متبادل راستوں کی تلاش کے لیے گلگت بلتستان پر توجہ مرکوز کرے۔ تجزیہ نگار کے مطابق وہاں پانے جانے والی سیاسی بے چینی سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں چین کے ساتھ بھی مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔

سےاسی ، سفارتی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر ان علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اب ہر سطح پر بھی اس خطے کے بارے مےں معلومات جمع کرنے علمی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر متحرک افراد کے ساتھ رابطے استوار کرنے کی غرض سے جموں ےونےورسٹی کے سنٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ ریجنل اسٹیڈیز نے بھارتی وزارت خارجہ کی مالی معاونت سے PoK Focus کے عنوان سے اےک رےسرچ پروگرام شروع کےا ہے ۔ ا س پروگرام مےں آزادکشمےر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے چھپنے والے مضامےن، اخباری تراشوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ےونےورسٹی کے تحقےق کاروں کے مضامےن اور تبصرے بھی شامل ہوتے ہےں۔ جوعمومی طور پر ےہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہےں کہ ان دونوں خطوں مےں جمہورےت ہے اورنہ ہی عوام کو بنےادی انسانی حقوق تک رسائی دستےاب ہے۔
اپنے محل وقوع اور توانائی کے بے پناہ ذرائع کی بدولت یہ خطہ پاکستان کے لیے سونے کی چڑیا بن سکتاہے جو دنیا کی نظروں میں آچکا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ گلگت بلتستان میں حال ہی میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے اور ضروری سرکاری اداروں کی تشکیل میں حائل مشکلات کا ازالہ کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام امکانی اقتصادی ترقی کے ثمرات سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکیں اور کوئی طالع آزما ان کی محرومیوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرسکے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved