اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-09-2010

سری نگر:مزاحمت کا نیا مرحلہ
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

کشمیرمیں رواں تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔90 سے زائد افراد سیاسی مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔کہا جاتاہے کہ ہر ایک ہلاکت احتجاج کی شدت میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔دہلی کے کئی ایک سیاسی حکمت کاروں کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پرامن مزاحمتی تحریک دب جائے گی کیونکہ زیادہ دیر تک لوگ کرفیو کی سختیاں، کاروبار اور تعلیمی اداروںکی بندش برداشت نہ کرسکیں گے ۔لیکن یہ تجزیہ غلط ثابت ہوا۔رفتہ رفتہ احتجاج ہمہ گیر عوامی تحریک کی شکل اختیار کرچکاہے۔۔بظاہرایسا نظر آتاہے کہ طویل عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
بھارت کی جانب سے موجودہ تحریک سے نبردآزما ہونے کے لیے روایتی طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔مثال کے طورپر آزادی نواز رہنماﺅں اور سرکردہ افراد کو پابندسلاسل کردیا گیا۔شہروں اور قصبوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔مظاہرین کومنتشر کرنے کے لیے گولیاں چلائی گئیں۔لیکن کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس سے احتجاج کو کم کرنے میں مدد ملتی بلکہ مسلسل ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو اس تحریک کو مزیدبڑکانے کا سبب بن رہے ہیں۔بعض مبصرین کی رائے ہے کہ بھارتی حکومت جان بوجھ کرایسا کررہی ہے تا کہ نوجوانوں کو ایک بار پھر بندوق اٹھانے پر مجبور کیا جائے کیونکہ ایک پرامن تحریک مسلح جدوجہد کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتی ہے اور عالمی رائے عامہ کو بھی متاثرکرتی ہے۔
گزشتہ کئی عشروں سے بھارتی ہیت مقتدرہ نے اپنے عوام کو یہ باور کرارکھا تھاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں پائے جانے والے بھارت مخالف جذبات اور تحریک کا ذمہ دارپاکستان ہے بالخصوص گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی رائے عامہ نے اپنی حکومت کی آنکھیں بند کرکے حمایت کی۔انسانی حقوق کی پامالیوں کے بڑے سے بڑے واقعات کو بھی بغیر کسی چوں وچراں کے نظراندازکرلیا گیا ۔اس کا جواز یہ رہاہے کہ چونکہ پاکستان کی شہ پر مسلمان شدت پسند بالخصوص لشکرطیبہ بھارتی وحدت کے خلاف سرگرم ہے اس لیے بھارتی فورسزکو جوابی کارروائی میں تمام تر حربے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس پالیسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ بھارتی نظام کے اندر کشمیریوں کو کسی قسم کی رعایت دینا غداری کے مترادف بن گیا۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی کشمیر پر بے لچک موقف اختیار کرکے کانگریس کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔حالانکہ اٹل بہاری واجپائی نے پرویز مشرف کے ساتھ کارگل اور بھارتی پارلی منٹ پر حملے کے بعد کے مشکل حالات میں بھی مذاکرات کیے تھے۔لیکن چونکہ اب بی جے پی حزب اختلاف میں ہے اس لیے وہ کانگریس کو کشمیر کے حوالے سے پیش رفت نہیں کرنے دے رہی ہے۔دوسری جانب یہ چونکا دینے والی حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ بھارتی فوجی قیادت ماضی کے برعکس اب اہم داخلی اور خارجی امور بالخصوص کشمیر اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملات میں ایک اہم کردار ادا کرنا شروع ہوگئی ہے۔حالیہ مہینوں میں بھارتی جنرلوں نے بڑی شد ومد کے ساتھ اپنی سیاسی قیادت کو کشمیر پر کوئی ایسا اقدام کرنے سے روکا جو حالات میںبہتری پیداکرسکتاتھا۔جب کہ ماضی قریب میں یہ بھارتی فوجی قیادت ہی تھی جس نے سیاچن پر معاہدہ کو آخری مرحلے میں سبوثاژ کردیا تھا۔
دہلی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے پرویز مشرف کے ساتھ کشمیر پر سمجھوتا کرنے کا تاریخی موقع کھو دیا ۔اب عالم یہ ہے کہ کشمیری آزادی سے کم کوئی حل قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ہیں۔میرواعظ عمر فاروق جو ایک اعتدال پسند کشمیری رہنما ہیں اور بھارت کے ساتھ مذاکرات بھی کرتے رہے ہیں اب لگ بھگ سید علی گیلانی کے سیاسی نقطہ نظر کے قریب تر آچکے ہیں۔ان کے ماضی کے ساتھی پروفیسر عبدالغنی بٹ ،مولانا عباس انصاری اور بلال غنی لون پس منظر میں چلے گئے ہیں۔جبکہ نوجوان نے تحریک کی کمان سنبھال لی ہے۔وہ کسی بھی لچک دار رویہ کے حامل رہنما کو پسند نہیں کرتے ہیں۔اسی لیے میرواعظ کالب ولہجہ بھی سخت گیر ہوتا گیاہے۔موجودہ تحریک میں سیدعلی گیلانی ایک مرکزی کردار کے طور پر ابھرے ہیں اگر وہ میرواعظ اوریاسین ملک مشترکہ طور پر کسی لائحہ عمل پر متفق ہوسکیں تو ایک بڑی قوت بن سکتے ہیں۔
پاکستان نے اس وقت تک رواں تحریک کی اندورنی شناخت کو پروان چڑھانے کی خاطر زیادہ بیان بازی سے پرہیز کی ہے۔لیکن اب ایسانظر آرہاہے کہ زیادہ دیر تک یہ سلسلہ جاری نہ رکھا جاسکے گا۔ملک کے اندر سے دباﺅ بڑھ رہاہے کہ حکومت پاکستان زیادہ جرات مندانہ کردار ادا کرے۔اسی طرح یہ بھی امکان ہے کہ پاکستان میں سرگرم شدت پسند گروپ کشمیر کا رخ کرنا شروع ہوجائیں کیونکہ وہاںجس طرح بے گناہ کشمیری مارے گئے ہیں وہ انہیں ایک کاز ضرور فراہم کرتاہے کہ وہ ان کی مدد کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔دوسری جانب خود کشمیر کے اندر جو لاﺅ پک رہا ہے اگر اسے عالمی برادری نے پذیرائی نہ بخشی تو سیاسی تحریکیں چلانے کے علمبرداروں کا موقف کمزور ہوجائے گا۔غالباًاسی اندیشے کے پیش نظر جناب یاسین ملک نے یہ کہا ہے کہ اگر موجودہ پرامن تحریک کو طاقت کے بل بوتے پر کچلا گیا تو نوجوانوں ایک بار پھر عسکریت کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ جو پورے خطے میں تباہی لانے کا موجب بن سکتاہے کیونکہ آج کے دور میں کسی بھی مسلح تحریک کو اسی قسم کی دوسری تحریکوں سے تادیر جدا نہیں رکھا جاسکتاہے۔ایک اور بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر اس مرتبہ کشمیری مزاحمت کاروں نے پرتشدد راستہ اختیار کیا تو وہ زیادہ انتہاپسند گروپوں کی طرف مائل ہوں گے کیونکہ وہ جان چکے ہوں گے کہ سیاست اور پرامن طریقوں سے تنازعات حل نہیں پاتے ہیں۔
موجودہ بحران کا کوئی آبرو مندانہ حل تلاش کرنے کی غرض سے بھارت کو کچھ زمینی حقائق تسلیم کرلینے چاہیں۔پہلی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں اس وقت تک امن بحال نہیں کیا جاسکتاہے جب تک کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب حقیقی پیش رفت نہیں کی جاتی ہے دوسری تلخ حقیقت یہ کہ گزشتہ دوعشروں سے سری نگر کی سیاست کا رخ متعین کرنے میں اسلام آباد اہم کردار ادا کرتاہے ۔لہٰذابھارت تنہا اس مسئلہ کو حل کرنے کی پوزیشن میں نہیںہے۔اسے اسلام آباد کی مدد سے ایک ایسا حل تلاش کرنا ہوگا جو کشمیریوں کو قابل قبول ہو۔تیسری حقیقت یہ ہے کہ وہ وقت لد چکا ہے جب بھارتی فورسز طاقت کے زور پر کشمیریوں کو کنٹرول کر لیتی تھیں۔طاقت کا استعمال اب بے معنی ہوچکاہے۔چنانچہ معمول کی زندگی کی بحالی کے لیے فوری طور پر کالے قوانین کی منسوخی، انسانی حقوق کی پامالیاںروکنے اورآبادی والے علاقوں سے فوجی انخلاءسے شروعات کی جاسکتی ہیں۔کشمیری قیادت کو مذاکراتی عمل کا حصہ بناتے ہوئے دہلی اوراسلام آباد کے مابین کشمیر پر مذاکرات کی بحالی بھی ضروری ہے تاکہ کشمیریوں کو اطمینان ہوکہ کوئی پیش رفت ہورہی ہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved