اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔27-09-2010

سیاست
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

پیپلزپارٹی کی حکومت کی رخصتی کے دعوئے سنتے سنتے تین برس بیت گئے ہیںلیکن کوئی بھی سیاستدان یاتجزیہ کار یہ نہیں بتاپارہا ہے کہ حکومت کی رخصتی کا طریقہ کار کیا ہوگااور نئی حکومت کیسے قائم ہوگی۔جنرل اشفاق پرویز کیانی اور نوازشریف متبادل امیدوار ہوسکتے ہیں لیکن انہیں ایوان اقتدار کا راستہ دیکھانے والے کوئی آئینی طریقہ کار تجویز کرنے سے قاصر ہیں۔دوسری جانب پیپلزپارٹی کے تمام حلیف،عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماءاسلام صدر زرداری کے ساتھ کھڑے ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے حالیہ بیانات نے کافی ہلچل مچائی مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کے بنا گزرا نہیں ہے۔الطاف حسین کے لیے نوازشریف کے ساتھ ہموار تعلقات کار کا قیام باہم تلخی کے نتاظر میں بعید ازقیاس ہے۔
یہ تلخ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ فوجی قیادت اور نواز شریف کے مابین ابھی تک سرد مہری برقرار ہے۔شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کی جنرل کیانی کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے باوجود برف پگھلی نہیں ہے۔گلے شکوے پوری طرح موجود ہیں۔نواز شریف پرویز مشرف کی واپسی اور مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں میں اتحاد کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششوں کو اسٹبلشمنٹ کی جانب سے مسلم لیگ کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کی درپردہ کوششوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں جہاں جلداز جلد اقتدار حاصل کرنے اور صدر زرداری کو رخصت کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے وہاں یہ نقطہ نظر بھی پایا جاتاہے کہ اب پیپلزپارٹی کے پاس اقتدار میں رہنے کے لیے محض دو برس باقی رہ گئے ہیں۔اس کے بعد انتخابات ہوجائیں گے۔اسے قبل ازوقت اقتدار سے محروم کرکے سیاسی شہیدبننے کا موقع فراہم نہیں کیا جاناچاہیے۔تاہم ان دوبرسوں کے دوران پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف مسلم لیگ نواز زیادہ قوت سے میدان میں آئے گئی تاکہ وہ ایک متبادل سیاسی قیادت کے طور پر ابھر سکے۔
مسلم لیگ نواز کو اپنی داخلی تنظیم سازی مکمل کرنے اور پنجاب سے باہر نکل کر دیگر صوبوں میں سیاسی مقام حاصل کرنے کے لیے بھی وقت درکا رہے۔ اس وقت تک مسلم لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے۔تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک جماعت کے اندر انتخابات کا عمل شروع ہی نہیں ہواہے۔کمزور تنظیم ہی کا شاخسانہ ہے کہ پنجاب جہاں نوازشریف کو مقبولیت بھی حاصل ہے اور صوبائی حکومت بھی شریف برادران کی ہے وہاں بھی کئی ایک انتخابی حلقوں میں مسلم لیگ نواز کو ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔قاف لیگ کی پنجاب میں موجودگی کے باعث نوازشریف کوکسی بھی آئندہ کے انتخابی معرکے میںکئی ایک نشتوں سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں۔ہزارہ ڈویژن جو مسلم لیگ کا دوسرا بڑا گڑہ تھا وہاں بھی سیاسی حالات موافق نہیں ہیں۔سندھ اور بلوچستا ن میں تو مسلم لیگ نواز کوئی بڑی سیاسی قوت ہے ہی نہیں۔ق لیگ سندھ میں جاکر پیر صاحب پگاڑا کے ساتھ ضم ہوگئی ہے ۔یوںنواز شریف کے برعکس اسے سندھ میں بھی کچھ نہ کچھ اثرونفوذ حاصل ہوجائے گا۔اس تناظر میں یہ توقع کرنا کہ مسلم لیگ نواز حکومت گرانے کی کسی مہم جوئی کا حصہ بن سکتی ہے قرین قیاس نظر نہیں آتاہے۔البتہ وہ اگلے انتخابات کی تیاری کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرے گی اور حکومت کے خلا ف موثر سیاسی محاذ قائم کرنے کی کوشش کرتی نظر آئے گی۔
فوجی قیادت خود کئی ایک بحرانوں سے دوچار ہے۔قبائلی علاقوں ،سرحد،بلوچستان اور سیلاب کی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے اسے کافی وقت درکار ہے۔اس کے وسائل اور افرادی قوت کا اس قدر بے ہنگام پھیلاﺅ ہوچکا ہے کہ وہ کوئی بڑا قدم اٹھانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات ابھی پوری طرح معمول پر نہ آئے تھے کہ کشمیر میں ایک زبردست مزاحمت اٹھ کھڑی ہوگئی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کسی بھی صورت میں اس تحریک کو نظر انداز نہیں کرسکتی ہے کیونکہ اس تحریک نے بھارت پر غیرمعمولی دباﺅ ڈالا ہے۔وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوتا نظر آرہاہے۔کیونکہ اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بھی مذاکرات کا عمل شروع کرے۔اگر پاکستان کشمیر میں کوئی کامیابی حاصل کرنا چاہتاہے تو اسے داخلی استحکام برقرار رکھنا ہوگا۔
عالمی حالات بھی کسی قسم کی فوجی مہم جوئی کے لیے سازگار نہیں ہیں۔پاکستان کو ملنے والی اقتصادی اور فوجی امداد کی شرائط میں یہ شق شامل ہے کہ یہ امداد جمہوری حکومت ہی کو مل سکتی ہے۔اگر منتخب حکومت کے خلاف کوئی اقدام کیا گیا تو پاکستان کو فوری طور پر عالمی اور بالخصوص امریکا سے ملنے والی امداد سے محروم ہونا پڑے گا۔ بدترین معاشی حالات نے نہ صرف سول انتظامیہ کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں بلکہ عسکری قیادت کو بھی سخت دشوار حالات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔صرف سابق فوجیوں کی پنشن پر حکومت کو سالانہ ستر ارب خرچ کرنا پڑھ رہے ہیں ۔اگر عالمی مالیاتی اداروں اور امریکاسے ملنے والی مالی امداد رک گئی تو نہ صرف حکومت کنگال ہوسکتی ہے بلکہ فوج کے لیے بھی اپنے روزمرہ کے معاملات چلانا دشوار ہوسکتاہے۔ سیاسی جماعتیں ،ذرائع ابلاغ ہی نہیں بلکہ عدلیہ بھی اس قسم کے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرسکتی ہے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں فوج نے اپنا امیج بڑی حد بحال کیا ہے۔انہوں نے ملک کی بقا کے لیے دہشت گردو ں کے خلاف ڈٹ کر جنگ لڑی اور مسلسل لڑرہی ہے۔جس کی پورے ملک نے تحسین کی ہے۔جنرل کیانی نے حکومت کو عدم استحکام سے دوچارنہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ ایسے کسی موڈ میں نظر آتے ہیں۔
اگرحکومت سپریم کورٹ کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اسے مزید دوبرسوں تک اطمینان کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع مل سکتاہے۔لیکن اس کے لیے اسے موجودہ تذبذب کی کیفیت سے نکل کر دوٹوک انداز میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔جہاں تک ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے قیام کا تعلق ہے ۔سوال یہ ہے کہ اسے کہاں سے سیاسی حمایت دستیاب ہوگی۔موجودہ حکومت کے گرنے سے صرف پیپلزپارٹی اقتدار سے محروم نہیں ہوگی بلکہ مسلم لیگ ن،ایم کیوایم،اے این پی اور جمعیت علماءاسلام کو بھی وزارتوں سے ہاتھوں دھونے پڑیں گے۔ان حالات میں کوئی ایسا امکان نظر نہیں آتاہے کہ ٹینکوکریٹس کی حکومت قائم ہوسکے اور چند ماہ تک برقرار بھی سکے۔
ہمارے ملک کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ چند ایک افراد نے اپنے آپ کو جی ایچ کیو، سپریم کورٹ یا اسٹبلشمنٹ کا ترجمان باور کرانا شروع کردیا ہے۔وہ ٹی وی شوز میں چہک چہک کر اس طرح گفتگو کرتے ہیں کہ جیسے سیاست کے تمام مہرے ان کی مرضی سے حرکت کرتے ہیں۔اس غیر ذمہ داران گفتگو نے ملک میں شدید بحران پیدا کیا ہے۔جس نے ملکی اقتصادیات کو نقصان پہچانے کے علاوہ عوام میں بے پناہ مایوسی پیدا کی ہے۔اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے ذرائع ابلاغ کو زیادہ سنجید ہ کرداروں کی تلاش کرنی چاہیے جو ہمہ جہت نقطہ نظر رکھتے ہوںاور وسیع تناظر میں گفتگو کرسکتے ہوں۔ ذاتی پزیرائی یا انا کی تسکین کی خاطر پورے ملک ہی کو عدم استحکام سے دوچارکردینا بڑی ناانصافی کی بات ہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved