اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔01-10-2010

کشمیر:درپیش چیلنجز
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ارشادمحمود

تین ماہ گزرچکے ہیں مگر کشمیر میں جاری تحریک کی شدت میں کوئی معتدبہ کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔دہلی میں کئی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے لیکن ابھی تک بھارت سرکار مسئلہ کے دیر پا حل کا کوئی راستہ تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی حکومت اور فوج ایک صدمے کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔انہیں کوئی راہ سوجھائی نہیں دے رہی ہے کہ وہ کس طرح موجودہ صورت حال سے نبردآزما ہوں۔پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے کسی حدتحریک کی شدت میں کمی آسکتی ہے لیکن اب اسلام آباد کا سری نگر میں پہلا والا اثر ورسوخ موجود نہیں ہے۔علاوہ ازیں پاکستان بھارت کو کشمیر میں کسی قسم کا ریلیف دینے کے موڈ میں بھی نظر نہیں آتاہے،بلکہ ماضی کے برعکس پاکستان کا رویہ رفتہ رفتہ غیر مصالحانہ ہوتاجارہاہے۔اسٹبلشمنٹ کے کئی ایک حلقے کشمیر میں جاری تحریک کوبھارت کو سزا دینے کا ایک نادرموقع بھی تصور کرتے ہیں۔اسی تناظر میںحالیہ ہفتوں میں پاکستانی پارلی منٹ سمیت ہر فورم پر کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کی گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں معمولات کی زندگی کی بحالی کی خاطر دہلی بھی کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے کے بجائے لیپاپوتی سے زیادہ کام لے رہاہے ۔بھارتی پارلیمانی وفد کا دورہ کشمیر اور بعد ازاں ان کی سفارشات پر دہلی کی طرف سے پیش کردہ آٹھ نکاتی فارمولے کو بھی کشمیر میں کوئی پذیرائی نہیں ملی ہے۔گمان کیا جاتاہے کہ موجودہ تحریک نومبر میں امریکی صدر بارک حسین اوباما کے دورہ دہلی تک جاری رہے گی۔بارک اوباما کے بابت کہاجاتاہے کہ وہ بھارت کے ساتھ دوٹوک انداز میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کریں گے تاکہ افغانستان میں سیاسی استحکام لایا جاسکے اور بھارت کو سلامتی کونسل کی رکنیت بھی پیش کی جاسکے۔
سفارتی حلقوں میں یہ کہا جارہاہے کہ بھارتی قیادت جن میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرشیوشنکر مینن ،ایس ایم کرشنا اور پرناب مکھر جی امریکا کے ساتھ خاموشی کے ساتھ اسی حوالے سے مذاکرات کررہے ہیں۔صدر اوباما بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو اپنے دورہ بھارت میں یہ پیشکش کریں گے کہ اگر بھارت امریکی مطالبات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائے تو واشنگٹن بتدریج بھارت کو ایک عالمی طاقت تسلیم کرانے کے اقدامات کرے گا۔کشمیری قیادت اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ میں بھی یہ نقطہ نظر پایاجاتاہے کہ اگر موجودہ تحریک اسی رفتار سے برقرار رہے تو بھارت پر بہتر سودے بازی کے لیے دباﺅ ڈالا جاسکتاہے اور خود بارک اوباما کو بھی اپنے نقطہ نظر کے حق میں موثر استدلال فراہم ہوسکے گا۔علاوہ ازیں بھارتی رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی کشمیر کی موجودہ تحریک معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
فطری طور پر امریکی مسئلہ کشمیر کے ایسے کسی حل میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں جو بھارت کی سبکی کا باعث ہو بلکہ وہ ایسا حل تلاش کرنے کے آزور مند ہیں جو دہلی،اسلام آباد اور سری نگر کے لیے یکسان طور پر قابل قبول ہو۔چنانچہ دونوں ممالک کو اسی فارمولے کو قبول کرنے کے لیے کہا جاسکتاہے جس کی بازگشت ممبئی حملوں سے پہلے سنائی دیتی تھی۔دوسری جانب کشمیر میں جاری تحریک کو متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے۔سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ نوجوانوں نے تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے جس کی بدولت تحریک میں ایک نیا جوش اورولولہ آگیا ہے لیکن کوئی نئی قیادت ابھر کر سامنے نہیں آئی ہے۔سید علی گیلانی نے گزشتہ عرصے میں تیزی سے اپنے سخت گیر موقف کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ پرامن سیاسی جدوجہد کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اب وہ اس کی افادیت کے علمبردار بھی بن چکے ہیں۔یوں ان کے اثر ورسوخ میں کئی گنا مزید اضافہ ہوا ہے۔حتیٰ کہ سفارتی حلقوں میں بھی ان کے نئے موقف کو خوشگوار تبدیلی قراردیا گیا ہے۔جناب یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق کے مابین ابھرنے والی مفاہمت کو بھی نیک شگون قراردیا جاتاہے کیونکہ اس طرح تحریک پر ان تینوں رہنماﺅں کی گرفت برقراررہے گی۔
جب جذبات کا موجودہ طوفان تھمے گا تو بالاخر ایک دن دہلی اور سری نگر کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہونا ہے۔اگر قیادت کا موجودہ فقدان برقرار رہا تو خدشہ ہے کہ جو بھی کشمیری رہنما مذاکراتی عمل کا آغاز کرے گا وہ کشمیریوں کے غیظ وغضب کا شکارہوسکتاہے۔ کشمیریوں کو ایک رفتہ رفتہ کسی ایک رہنما پر متفق ہونا پڑے گا تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ تحریک کو کسی انجام کی طرف لے جاسکے۔دہلی اور اسلام آباد کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کشمیریوں کی متفقہ قیادت نہ ابھری تو سنگ بازوں کی یہ ٹولیاں انتہاپسندگروہوں کے ہتھے بھی چڑھ سکتی ہیں جو خطے میں کسی کے حق میں نہ ہوگا۔
اس تحریک کی ایک بڑی داخلی کمزور ی یہ ہے کہ یہ تیزی سے اسلامی شناخت کی جانب جھکتی جارہی ہے۔بھارت کے کئی ایک ممتاز قلمکار بھی کوشش کرکے متحرمہ آسیہ اندرابی اور مسرت عالم کو موجودہ تحریک کا ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ بھارتی اور مغربی رائے عامہ کو بدگمان کیا جاسکے۔یہ شناخت مغرب کو یہ جواز فراہم کرتی ہے کہ وہ رواں تحریک کو شدت پسندی کے پس منظر میں دیکھتے ہوئے نظر انداز کردیں اور مطلوبہ حمایت فراہم نہ کریں۔ابھی تک انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی سول سوسائٹی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی کھل کرمذمت نہیں کی گئی ہے ۔ نہ ہی اوآئی سی کے علاوہ کسی مغربی یا اسلامی ملک نے انفرادی سطح ُپر بھارت کو تنبہہ کی ہے کہ وہ سیاسی کارکنوں اور احتجاجی مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرے۔تاہم اگر موجودہ تحریک اپنی عتدال پسندانہ شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئی تو یقینی طور پر اسے عالمی حمایت اور پشت پناہی دستیاب ہوجائے گی۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کے لیے پیدا ہونے والی عوامی ہمددری کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی غرض سے جماعت الدعوہٰ کی طرف سے غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ روان ہفتے میں آزادکشمیر کے متعدد مقامات پر عوامی اجتماعات منعقد کرنے کے بعد اسلام آباد کے قلب آبپارہ میں ایک جلسہ کیا گیا ۔جس سے عالمی برادری کا ماتھا ٹھنکا ہے یہ سوا ل پوچھا جارہاہے کہ حکومت جماعت لدعوہٰ کو ایک بار پھر کیوں کھلی چھٹی دے رہی ہے؟کیا اسلام آباد سری نگر کے مزاحمت کاروں کو جماعت الدعوہٰ کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہتاہے یا پھر بھارت پر دباﺅ بڑھانے کے لیے یہ حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔مقصد جو بھی ہولیکن جماعت لدعوہٰ کا کشمیر کے معاملا ت میں ازسرنو سرگرم ہونا خطرناک کھیل ہے جس کے تباہ کن اثرات تحریک آزادی کشمیر پر مرتب ہوں گے۔ان اقدامات سے دہلی اور اسلام آبادمیں تناﺅ مزید بڑھ جائے گا جبکہ عالمی برادری بھی تحریک آزادی کی داخلی شناخت کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے پاکستان کی شہ پر شروع کردہ تحریک تصور کرتے ہوئے نظرانداز کردیں گے۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ جماعت الدعوہٰ کی سرگرمیوں کو کشمیر کی سرحدوں سے دور ہی رکھے تو کشمیریوں اور خود اہل پاکستان پر بڑا احسان ہوگا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved