اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔09-10-2010

تبدیلی مگر کیسی؟
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

جب سے سرکار بدلنے کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں ہیں۔بے یقینی اور چینی نے ہر طرف ڈھیرے ڈال رکھے ہیں۔ عمومی طور پر اتفاق رائے پایا جاتاہے کہ تبدیلی ضرور آنی چاہیے لیکن بجا پر یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ مجوزہ تبدیلی کا عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟کیا موجودہ حکومت کی رخصتی سے مہنگائی کم ہوسکتی ہے یا امن وامان کی صورت حال بہتر ہوگی؟بدعنوان اور نااہل افسران اپنے مشاغل ترک کردیں گے؟سیاسی قیادت اور طبقہ اشرافیہ اپنی روایتی حرکتوں سے باز آجائے گا؟اگر یہ سب کچھ نہیں ہونا ہے تو پھرعام شہری کو اس تبدیلی سے کیا فائدہ ملنے جارہاہے جس کے لیے اسے سڑکوں پر نکلنے کے لیے کہا جارہاہے۔
کالم لکھنے سے قبل لگ بھگ دودرجن افراد سے ذاتی طور پر پوچھا کہ حکومت کی تبدیلی کی افواوں پر ان کا کیا تبصرہ ہے؟لگ بھگ ہر فرد کا جواب تھا کہ ہماری زندگی پر حکومتی تبدیلی کے کوئی مثبت اثرات مرتب ہونے والے نہیں ہیں کیونکہ نئی حکومت مہنگا ئی کے جن کو قابو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہی وہ امن وامان کی صورت حال میں کوئی ڈرامائی تبدیلی لانے کی اہل ہوسکتی ہے۔تو پھر عوام کائے کو حکومت کے خلاف اپنا پسینہ بہائیں۔ ماضی کے تلخ تجربات نے عا م شہریوں ہی کو نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں کو مایوس کردیا ہے۔وہ احتجاجی تحریکیوں کا ایندھن بننے کے لیے رضامند نظر نہیں آتے ہیں۔سیاسی مقاصد کے لیے قربانی دینا تودرکنارلوگ سیاسی جلسے جلوسوں میں شرکت تک کے لیے رضامند نہیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت کے خلاف برسنے والے سیاستدانوں کا سارا زور بیان اخبارات کے صفحات اور ٹیلی وژن چینلز پر ہی صرف ہوتا نظر آتاہے۔حتیٰ کہ میاں نوازشریف بھی کھل کر کسی تبدیلی کے حق میں اپنا وزن نہیں ڈالتے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے کہ موجودہ مرحلے پرحکومت کی ناکامی کو سیاستدانوں کی اجتماعی ناکامی تصور کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ اور حکومت کے مابین ٹھنی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود یہ گمان کرنا قرین قیاس ہوگا کہ سپریم کورٹ حکومت کو اس حد تک عدم استحکام سے دوچار نہیں کرے گا کہ پورا نظام ہی تلپٹ ہوجائے کیونکہ میاں نواز شریف یا فوج جنہیں موجودہ حکومت کا فطری متبادل قراردیا جاتاہے ان کے ساتھ بھی موجودہ سپریم کورٹ کے خوشگوار تعلقات کارکا استوار ہونا کافی دشوار نظرآتاہے۔
تما م تر منفی تجزیوں اور تبصروں کے باوجود حکومت کی رخصتی کا مرحلہ قریب نظر نہیں آتاہے تاہم اس مفروضے میں کافی صداقت دکھائی دیتی ہے کہ موجودہ حکومت کو سکون کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا جائے گاتاکہ اگلے انتخابات کے موقع پر اس کا نامہ عمال خالی ہو اور عوامی عدالت انہیں مسترد کردے۔سپریم کورٹ میںجاری مقدمات کو اسی تناظر میں پرکھا جارہاہے۔منصوبہ یہ بھی ہے کہ سیاسی حکومت کو یہ موقع ہی دستیاب نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اہم قومی امور پر کوئی فیصلہ کرسکے۔چنانچہ ہیت مقتدرہ خارجہ امور بالخصوص پاک امریکا تعلقات،افغانستان ،کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کو اپنی منشا کے مطابق چلارہی ہے حتیٰ کہ اب وزیرخزانہ بھی اسی کی مرضی سے تعینات کیا گیا ہے۔دیگر امور پر بھی اس کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے ۔علاوہ ازیں نواز شریف کے لیے بھی یہ منظر نامہ خوش کن ہے کیونکہ ان کا سیاسی حریف اگلے چناﺅ میں پٹتا ہوا نظر آرہاہے لیکن اس کی ناکامی کا الزام ان پر نہیں دھرا جاسکے گا۔
حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ موجودہ کیفیت سے باہر نکلے ۔ رفتہ رفتہ ریاست کے تمام اداروں پر اپنی گرفت بحال کرے اور اپنی صفیں درست کرے۔اس وقت تو پورا نظام چوں چوں کا مربہ بن چکا ہے۔پنجاب کی پیپلزپارٹی مسلم لیگ نواز کے ساتھ مل کر پنجاب اسمبلی سے کالاباغ ڈیم کے حق میں قرارداد منظور کراتی ہے جبکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی برملا شکوہ کرتے ہیں کہ اسلام آبادمیں ان کی شنوائی نہیںہوتی ہے۔قبل ازیں وہ انکشاف کرچکے ہیں فرنٹیر کانسٹیبلری کے افسران قانونی طور پر ان کے ماتحت ہیں لیکن وہ ان کے احکامات کی چنداں پروا نہیں کرتے ہیں۔سندھ میں ایم کیوایم حکومتی فیصلوں کو سرعام چیلنج کرتی ہے جبکہ صوبہ سرحد میں اتحادی عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماءاسلام بھی باہم متحارب رہتے ہیں۔کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں حکومت کے اتحادی بھی ہیں اور صوبائی حکومت کا حصہ بھی لیکن اس کے باوجود باہم سربگریباں رہتے ہیں۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اس صورت حال سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہیے تاکہ ملک میںسیاسی استحکام پیدا ہوسکے۔سیاسی استحکام کے بنا معاشی سدھار کی توقع بھی عبث ہے۔کم ہی پاکستانی شہریوں کو اس مقدمے سے کوئی دلچسپی ہے کہ موجودہ حکومت کو رخصت کیا جائے لیکن بجا طور عوام ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے یقینی اور اقتصادی بدلی حالی پر متفکر ہیں۔جس ہوش ربا رفتار سے بجلی ، گیس ، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میںاضافہ ہورہاہے وہ ناقابل برداشت ہوتاجارہاہے۔بھیک مانگنے والے ہمیشہ پائے جاتے تھے لیکن اب بازاروں میں چلنا پھرنا بھی محال ہو رہاہے کیونکہ گروہ کہ گروہ شہریوں کو گھیرلیتے ہیں اور مالی مددکی درخواستیں کرتے ہیں۔ ایسے اقدمات کیے جانے ناگیز ہوچکے ہیں جن کے معاشی فوائد عام خاندانوں تک بھی پہنچ سکیں۔محض بے نظیر انکم سپوٹ پروگرام سے سے ملنے والے چند ہزارروپے غربت اور بے روزگاری کے سیلاب کے آگے بندھ نہ باندھ سکیں گے۔
دوسری جانب حکومت کو بدعنوانی روکنے کا کوئی نہ کوئی نظام کار وضع کرنا ہوگا۔اس ضمن میںقومی احتساب بیورو تشکیل نو کے بعد کلیدی کردار ادا کرسکتاہے لیکن اس کے لیے حکومت کو کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اگر اس کی تشکیل نو میثاق جمہوریت کی عین روح کے مطابق کردی جائے تواحتساب بیورو کے کردار پر حزب اختلاف سمیت کوئی بھی انگلی نہیں اٹھائے گا۔بدعنوان وزراءہوں یا اعلیٰ سرکاری عہدے دار ان پر ہاتھ ڈالنے سے حکومت کو کترانا نہیں چاہیے۔اس ایک اقدام سے جہاںاس کی ساکھ بہتر ہوگی وہاں ملک میں سرمایا کاری کا ماحول بھی بننے گا۔
وقت آگیا ہے کہ حکومت اپنے وقتی مفادات سے بالاتر ہو کرسوچے ۔اب تووہ اپنی آدھی سے زائد مدت پوری کرچکی ہے ۔اگر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی موثر اقدامات کرنے کا تہیہ کرلیں تو فوری طور پر ان کا ذاتی تاثر بھی بہتر ہوسکتاہے اور پوری حکومت کا بھی۔پاکستانی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن وہ چہروں کی تبدیلی دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں ۔اب جو بھی حکمران نظام کی تبدیلی کے لیے خلوص کے ساتھ پیش رفت کرے گااسے پزیرائی بھی ملے گی اور ووٹ بھی۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved