اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔17-10-2010

پاک چین تعلقات میں حالیہ گرمجوشی کا پس منظر
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

پاکستان اور چین کے مابین ہزار میگا واٹ نیوکلیئر پاورپلائٹ کی خرید وفروخت کا معائدہ طے پانے کی خبر کے ساتھ ہی مغربی ذرائع ابلاغ اور علمی مراکز میںپاک چین تعلقات ایک بار پھر بڑی شدت کے ساتھ زیر بحث آئے ہیں۔چشمہ نیوکلیئر انرجی پلائٹ ٹوپر جاری تعمیراتی سرگرمیوں کے تناظر میںپہلے ہی پروپیگنڈے کی یلغار تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی کہ اس نئی خبر نے اسے مہمیز لگا دی ہے۔دوسری جانب بارک اومابا اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدہ کرچکے ہیں کہ وہ عالمی سطح پرایٹمی پھیلاﺅ کے خلاف موثر اقدامات کریں گے۔چنانچہ امریکی انتظامیہ پاک چین سول توانائی کے بڑھتے ہوئے تعاون پر سخت تناﺅ کا شکارہے جبکہ بھارت بھی سیخ پا ہے، حالانکہ گزشتہ برس امریکااور بھارت کے مابین سول نیوکلیئر معائدہ طے پاچکاہے۔ اس معائدے کے بعد امریکا اور بھارت اخلاقی طور پر چین یا پاکستان پر قابل ذکر سفارتی دباﺅ ڈالنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
علاوہ ازیںدیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی تیزی سے فروغ پزیر پاک چین تعلقات نے مغرب کے کان کھڑے کردےئے ہیں۔امریکا کے معروف دفاعی ادارے ایشیاپیسیفک سنٹر فار سیکورٹی اسٹیڈیزکی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق قراقرم ہائی وے کی توسیع،پن بجلی گھروں،ریلوے اور گیس پائپ لائنوں کی تعمیر میں چین آئندہ چند برسوں بیس ارب ڈالر کی سرمایا کاری کررہاہے۔پاکستان کی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایاکاری کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مظفرآباد میں بھی پن بجلی کے منصوبے اور سٹی ڈولپمنٹ پراجیکٹ پر چینی کمپنیاں کام کررہی ہیں۔جہاں وہ جانے سے ہمیشہ کتراتی تھیں کہ کئی دہلی ناراض نہ ہوجائے۔
پاک چین تعلقات میں پیدا ہونے والی موجودہ گرم جوشی کی جڑیں جہاں تاریخی رشتوں میں تلاش کی جاسکتی ہیں وہاں خطے کے بدلتے ہوئے سیاسی اور تزویراتی منظرنامے نے بھی اس پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔امریکا اور بھارت کے مابین ابھرنے والے اتحاد نے جہاں بھارت کو عالمی سطح پر ایک اہم مقام دلایا ہے وہاںمغربی دنیا اور جاپان جیسے ممالک میں بھی بھارت کے لیے بے پناہ گرمجوشی پیداکرنے کا موجب بنا ہے ۔جس کے نتیجے میں ان ممالک کے ساتھ بھارت کو تجارتی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے کا موقع دستیاب ہوا ہے۔چونکہ چین اقتصادی میدان میں جاپان کو بچھاڑ چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق وہ دن دور نہیں جب وہ معاشی طور پر امریکا سے زیادہ مستحکم ہوجائے گا ۔معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2020میں دنیا کے اکثر ممالک کا چین سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہوگا۔
کئی ایک چینی حکمت کاروں کا خیال ہے کہ اگر امریکااور بھارت کی خطے میں سرگرمیوں کا سدباب نہ کیا گیا تو یہ دونوں ممالک جاپان اور مغربی ممالک کے اشتراک سے
چین کی ابھرتی ہوئی ا قتصادی اور سفارتی قوت کے خلاف کوئی سازش کرسکتے ہیں۔اسی حوالے سے چینی سفارت کار امریکا،جاپان، تائیوان ،آسٹریلیا اور بھارت کی بحریہ کی مشترکہ مشقوں اورجاری منصوبوں کا حوالے دیتے ہیں جو چین کی سمندری ناکہ بندی کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔اس طرح کے امکانات سے بچاﺅ کے لیے چین کئی ایک منصوبوں پر سرگرمی سے کام کرتانظرآتاہے۔ چین افغانستان، سری لنکا،برما، نیپال اور خاص کر برما میں متعدد میگا پروجیکٹس پر کام کررہا ہے تاکہ ان ممالک میں زیادہ سے زیادہ اپنا اثر ورسوخ قائم کیا جاسکے۔محض افغانستان میں معدنیات کی تلاش اور فروخت کے ایک منصوبے میں ایک چینی کمپنی نے ساڑھے تین ارب ڈالر کی سرمایاکاری شروع کردی ہے۔
چین گزشتہ چند دہائیوں میں باوجوہ سردمہری کارجحان رہالیکن اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ پاکستان میں بھاری سرمایاکاری کرنے کا مقصد اسلام آباد کا واشنگٹن پر انحصار کم کراناہے۔علاوہ ازیں چین نے حالیہ چند ماہ میںکشمیر پر ڈرامائی سفارت کاری شروع کردی ہے۔2008ءتک چینی سفارت کار کشمیر پر زیادہ گفتگو کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے لیکن اب وہ کشمیر پر ہونے والے مذاکروں اور سمیناروں میں شرکت کرتے ہیں اور کشمیر ی سیاسی قیادت کے ساتھ بھی راوبط استوار کرنا شروع ہوگئے ہیں۔انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو بھارتی پاسپوٹ کے بجائے علیحدہ کاغذ پر ویزے جاری کیے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی کمانڈ کرنے والے ایک فوجی جنرل کو محض اس وجہ سے ویزہ جاری نہیں کیا کہ وہ متنازعہ خطے کا فوجی کمانڈر ہے۔چین کے اس طرزعمل نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ میں جہاں امید کی ایک نئی کرن پیدا کی ہے وہاںعالمی طاقتوں کو بھی حیرت زدہ کردیا ہے۔
پاکستانی رائے عامہ کے رہنمااور اسٹبلشمنٹ امریکا اور مغربی دنیا میں پاکستان کے امیج سازی کے عمل سے بھی یکساں طور پر سخت سیخ پا ہیں۔ان کے خیال میں امریکی یہودی اور بھارتی لابی نے مشترکہ طور پر پاکستان کو ایک دہشت گرد اور انتہاپسند اسلامی ملک کے طور پر متعارف کرایا ہے جس کے جوہری اثاثے کسی بھی وقت طالبان یا انتہاپسند عناصر کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔بدقسمتی سے اس تاثرکو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے پے درپے بیانات نے مزید گہرا کیا ہے۔جس طرح عراق کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرکے فوجی کارروائی کا جواز تلاش کیا گیا تھا ۔پاکستان کے لیے بھی عالمی ماحول اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔اس کے پہلو بہ پہلو بھارت کو ایک عالمی طاقت اور شراکت دار کے طور پر متعارف کرایا جاتاہے۔صدر بارک اوباما نومبر میں جب دہلی تشریف لے جائیں گے تو بھارت کا مثبت امیج مزید ابھرے گا لیکن وہ خطے میں ہونے کے باوجود پاکستان کا دورہ نہیں کررہے ہیں۔فطری طور پر پاکستا ن کے سیاسی نظام میں جو عناصر امریکا سے گہرے تزویراتی اور معاشی تعلقات کے علمبردار ہیں وہ کمزور ہوں گے اور چین نواز حلقے مضبوط۔
سوال یہ ہے کہ اگر مستقبل قریب میں امریکا اورچین کے مابین کوئی سرد جنگ شروع ہوتی ہے تو پاکستان کے لیے کیا امکانات ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ چین کی امریکا اور بھارت کے ساتھ جاری مخاصمت کے گہرے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہونے ہیں کیونکہ واشنگٹن اور بیجنگ دونوں کی خواہش ہوگی کہ وہ اسلام آباد پر اپنا زیادہ سے زیادہ اثر ورسوخ قائم کریں۔آج تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس نے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چین اور امریکا دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھاہے۔یہی حکمت عملی آئندہ بھی جاری رہنی چاہیے۔چین کی طر ف پاکستان کا جھکاﺅ نسبتاًزیادہ رہا ہے اور رہے گا بھی کیونکہ چین محض ایک پڑوسی ہی نہیں بلکہ حلیف ملک ہے ۔دوسری جانب تلخ زی حقائق کا تقاضہ یہ ہے کہ امریکا کے ساتھ ہموار تعلقات کا قیام پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ہدف رہنا چاہیے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved