اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔11-11-2010

وسط مدتی انتخابات کیوں نہیں؟
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
پیپلزپارٹی کی حکومت اور مسلم لیگ ن کے مابین جاری دوستانہ کشمکش اب حقیقی تناﺅ میں متشکل ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس کھینچا تانی میں قومی سیاسی منظر نامے میں ایک بار پھر دائیں اور بائیں بازور کی سیاست کا ظہور ہوتا نظرآرہاہے۔مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں میں اتحاد کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے جبکہ کئی ایک مسلم لیگی انفرادی سطح پر بھی نون لیگ میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔نون لیگ کے حلقوں میں نواز شریف کے سوا لگ بھگ ساری قیادت زمینی حقائق کے نام پر پرویز مشرف کے وزیروں مشیروں کو اپنی سیاسی چھتری فراہم کرنے کے لیے رضامند نظر آتی ہے۔اگر نواز شریف آڑے نہ آتے تو ساری قاف لیگ کب کی مسلم لیگ نون میں ضم ہوچکی ہوتی۔اب ایسا محسوس ہوتاہے کہ میاں صاحب کے اعصاب جواب دے رہے ہیں اور رفتہ رفتہ تلخ سیاسی حقائق کا ادراک کررہے ہیں۔
غالباً اسی لیے میاں نواز شریف نے میثاق پاکستان کے عنوان سے 25برس کے لیے قومی ایجنڈا تشکیل دینے کی تجویز دی ہے جس میں فوج کے ساتھ مشاورت کو لازمی قراردیا گیا ہے جبکہ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان پہلے ہی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔دوسری جانب قومی اسمبلی کے ایک حالیہ اجلاس میں مسلم لیگ کے رہنماﺅں نے جب وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ کیا تووزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے دوٹوک انداز میں اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کریں گے اور نہ ہی فوج مارشل لا نہیں لگائے ۔
پیپلزپارٹی کی حکومت اور مسلم لیگ نون کے مابین جاری کشمکش میں دونوں سیاسی حریفوں کی نظر عدلیہ اور فوجی قیادت کی حمایت حاصل کرنے پر لگی ہوئی ہے۔عدلیہ اور حکومت کا پنگا جاری ہے ۔حکومت کو کوئی بڑا ریلیف ملتانظر نہیں آتاہے لہٰذا یوسف رضا گیلانی کی ساری توجہ فوج کے ساتھ تعلقات کو ہموار رکھنے پر ہے۔اب میاں نواز شریف نے بھی مقتدر قوتوں کو پچیس برسوں کا ملکی ایجنڈا مشترکہ طور پر مرتب کرنے کا عندیا دیا ہے تاکہ وہ ان کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کریں۔
اگرچہ پاکستان میں سیاسی بالادستی اور اداروں پر پارلی منٹ کے کنٹرول کی بہت چرچا کی جاتی ہے لیکن جب آزمائش کا کوئی موقع آتاہے تو سارے اسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اصولی اور نظریاتی موقف چھوڑ کر عملیت پسند بن جاتے ہیں۔اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کی خاطر بڑی سے بڑی مقدس روایت کو روندا لیاجاتاہے۔1990ءکی دہائی کا جمہوری تجربہ گواہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ دونوں نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سازباز کرکے ایک دوسرے کی حکومتیں گرائیں تھیں۔گزشتہ تین برسوں میں دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین بالخصوص نواز شریف اور آصف علی زرداری نے بڑے حوصلے کے ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کیااب نئے انتخابات میںمحض دوبرس رہ گے ہیں۔اسی دوران اگر بلدیاتی انتخابات کرالیے جائیں توان کی گھماگھمی میں چھ ماہ اور گزرجائیں گے اور ہر سیاسی جماعت کو اپنی مقبولیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔
حکومت کا مدت پوری کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس یہ عذر نہیں رہنا چاہیے کہ ان کی حکومت کو قبل از وقت سازش کے ذریعے ایک بار پھر ختم کردیا گیا۔سندھ میں خاص طور پر یہ پیغام نہیں جانا چاہیے کہ ہر بار سندھی وزیراعظم یا صدر کو کسی نہ کسی بہانے سے ایوان اقتدار سے قبل از وقت ہی نکال باہر کیا جاتاہے۔یہ حسن اتفاق ہے کہ اندون سندھ وفاقی حکومت یا قانون نافذکرنے والے اداروںکو امن ومان کے حوالے سے کسی قسم کاکوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔سندھی قوم پرست پیپلزپارٹی کی حکومت کے سبب کنٹرول میں ہیں۔انہیں پرتشدد تحریک چلانے کے لیے جس قسم کے ساز گار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ دستیا ب نہیںہے۔پنجاب اور اندون سندھ کے سوا پورا ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔سندھ میں بھی گہرا احساس محرومی پایاجاتاہے لیکن اسے پیپلزپارٹی کی صور ت میں ایک سیاسی چہرہ اور پہچان مل گئی ہے۔اس لیے وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ کرنے سے قبل اس کے اثرات ومضمرات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جاناچاہیے۔
علاوہ ازیں یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں پیپلزپارٹی کے سوا کوئی بھی جماعت ملک گیر سطح پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد وشمار کے مطابق2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو بلوچستان اور سندھ سے ایک بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست نہیں ملی۔خیبر پختون خوا ،جہاں مسلم لیگ ن کودومرتبہ حکومت کرنے کا موقع ملا ۔وہاں 124صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے مسلم لیگ ن کے صرف نو امیداور کامیاب ہوئے جبکہ اسے قومی اسمبلی کی43 میںسے صرف پانچ نشستیں حاصل ہوئیں۔پنجاب جہاں مسلم لیگ کی صوبائی حکومت بھی ہے اور جماعتی قیادت کو عوامی پذیرائی بھی حاصل ہے وہاں 16 صوبائی نشستوں پرضمنی انتخابات ہوئے جن میں چارپر پیپلزپارٹی اور دو پر آزادامیدوار کامیاب ہوئے۔ خیبر پختون خواہمیں سات صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے محض ایک پر مسلم لیگ ن کا امیدوار کامیاب ہوا۔سندھ اور بلوچستان میں صوبائی اسمبلیوں کی تین تین نشستوں پر انتخابات ہوئے جہاں مسلم لیگ ن کا کوئی بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔
گزشتہ ڈیڑھ سال سے مسلم لیگ نون کی تنظیم سازی کا سلسلہ جاری ہے جو ہنوز مکمل نہیں ہوا ہے۔اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتاہے ایک ایسی جماعت کس طرح وسط مدتی انتخابات میں دیگر جماعتوں کا مقابلہ کرسکتی ہے جس کا ابھی تک تنظیمی ڈھانچہ تک مکمل نہیں ہے۔صرف لاہوار یا راولپنڈی ہی تو پاکستان نہیں ہے جہاں مسلم لیگ کو دیگر جماعتوں پر واضح برتری حاصل ہے۔
دوسری جانب ملک زبردست اقتصادی بحران سے گزررہاہے جبکہ ملک کے دوصوبوں میں دہشت گردوں کی جانب سے برپا کردہ شورش بھی ابھی پوری طرح کنٹرول نہیں ہوسکی ہے۔ان حالات میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرنا حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی حکمت عملی تو ہوسکتی ہے لیکن کوئی سنجیدہ سیاسی چال نہیں ۔مسلم لیگ کو حکومت کا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے اور اس کے تمام اقدامات کا خوردبینی سے جائزہ لینا چاہیے کیونکہ حزب اختلاف کا یہی کردار ہوتاہے تاہم سیاسی درجہ حرارت اس سطح پر نہیں لے جاناچاہیے جہاں منتخب اداروں کا وجود ہی خطرے میں پڑجائے۔
جو قارئین گزشتہ کالموں کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ انہیں http://www.facebook.com/ershad.mahmudپر دیکھ سکتے ہیں۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved