اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔05-12-2010

غیر ملکیوں سے شکایتیں
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

وکی لیکس کے انکشافات سے یہ حقیقت مزیدکھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست حتیٰ کہ حکومتوں کے بناﺅ وبگاڑ میں امریکاکلیدی کردار ادا کرتاہے۔پاکستانی سیاست کے تمام جغادری اس غیر ملکی کردار کو ایک زمینی حقیقت کے طور پر قبول کرچکے ہیں۔اسی لیے مذہبی سیاست کے علمبردار مولانا فضل الرحمان سمیت تمام سیاستدان اس حمام میں ننگے ہیں۔وہ ہر وقت واشنگٹن کی اعانت کے طلبگار رہتے ہیں۔دوسری جانب سیاستدان اب ایک دوسرے ہی کی نہیں بلکہ عسکری قیادت کی بھی امریکیوں سے شکایتیں لگاتے ہیں جبکہ عسکری قیادت بھی امریکیوں سے سیاستدانوں کی کارکردگی پر گفتگو رکرتی ہے۔وکی لیکس کے انکشافات کے مطالعے کے سے احساس ہوتاہے کہ پاکستان میں حصول اقتدار کا ہر راستہ واشنگٹن سے ہوکر گزرتاہے۔
غالباً اسی پس منظر میں گزشتہ انتخابات سے قبل اسفندیار ولی طویل عرصہ تک واشنگٹن میں امریکیوں کو اپنے تعاون کا یقین دلاتے رہے۔ میاں شہباز شریف 1999ءمیں پرویز مشرف کی امکانی فوجی مداخلت کے خلاف امریکی حمایت حاصل کرنے کی خاطر واشنگٹن گئے جہاں انہوں نے اپنی فوجی کے خلاف شکایات کے انبار لگادیئے۔یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے ۔کہاجاتاہے کہ لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران کراچی میں امریکی سفارت خانے کے تھرڈ سیکرٹری بھی وزیراعظم سے ملاقات کرلیا کرتے تھے۔بعدازاں پاکستانی فوج کے امریکی فوج کے ساتھ گہرے تعلقات استوار ہوئے جو سفارتی تلخیوں اور تعلقات میں ابھرنے والے تمام نشیب وفراز کے باوجود برقرار رہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں رابرٹ اوکلے پاکستان میں امریکا کے سفیر تھے۔جب فوج اور غلام اسحاق خان محترمہ کواقتدار منتقل کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہے تھے تو انہوں نے جنرل اسلم بیگ اور اسحاق خان کو آمادہ کیاکہ وہ انہیں اقتدار منتقل کریں۔
پاکستان کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ نے امریکا کو اقتدار میں ایک جائز شراکت دارکے طور پر تسلیم کررکھا ہے۔وکی لیکس نے صر ف اتنا کیا ہے کہ ماضی میں جو کچھ پس منظر میں ہوتاتھا وہ اسے منظر عام پر لے آئی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیاتھا کہ جب وہ وزیراعظم منتخب ہوئی توان کے پاس کوئی فائل نہیں آتی تھی۔کافی دنوں بعدانہوں نے رابرٹ اوکلے کو اس صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے جنرل اسلم بیگ سے بات کی۔جس کے بعد انہیں فائلیں ملنے لگی۔میاں نواز شریف کی پرویز مشرف کے دور میں جیل سے رہائی اور بعدا زاں جلاوطنی ممکن نہ ہوتی اگر ان کے صدر بل کلنٹن کے ساتھ ذاتی تعلقات استوار نہ ہوئے ہوتے۔میاں نواز شریف کی اجازت سے سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے مشترکہ آپریشن میں رمزی یوسف کو ڈیرہ غازی خان سے گرفتارکیا تھا جنہیں بعدازاں ایک امریکی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی کیونکہ وہ امریکا میں سی آئی اے کے ایک دفتر پر حملے میں ملوث تھا۔میاں نواز شریف کے دور میں بھرپور کوشش کی گئی کہ کسی طرح اسامہ بن لادن کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا جاسکے۔
ایک اور دلچسپ کہانی اسلام آباد میں سنائی جاتی ہے کہ این آراو کی تیاری اور بعد ازاں اس معاہدے پر عمل دارآمد کے مغربی ضامن پاکستان میں برطانیہ کے سابق ہائی کمشنر مارک لائل گرائٹ تھے۔وہ طویل عرصہ تک بیرسڑاعتزاز احسن کے لیے لابی کرتے رہے کہ انہیں بے نظیر بھٹو کی جگہ پارٹی کا لیڈر مقرر کیاجائے۔لیکن یہ بیل منڈے نہ چڑھ سکی۔صدر آصف علی زرداری نے صدر منتخب ہونے سے قبل دو مرتبہ امریکی سفارت خانے کا دورہ کیا جہاں انہوں نے امریکی سفیر کے ساتھ ملاقات کی۔یہ ملاقات امریکی سفارت خانے میں محض اس لیے کی گئی تاکہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو اس بھنک نہ پڑے۔ایسے درجنوں واقعات کے حوالے دیئے جاسکتے ہیں جہاں پاکستانی سیاستدانوں اور امریکیوں کے مابین سیاسی سودے بازی کی گئی۔
ان دنوں اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ سیکورٹی کے پیش نظر زیادہ پارٹیاں نہیں کرتاہے لیکن ماضی میں کوئی دن جاتا نہیں تھا کہ جب کوئی نہ کوئی پارٹی برپانہ ہو۔بسا اوقات بڑے تماشے دیکھے گئے ہیں۔امریکی سفارت خانے کے جونیئر افسروں کی آمد یا تبادلے پر بھی تعارف یا رخصتی کے لیے پارٹیاں برپا ہوتیںہیں۔ان پارٹیوں میں پاکستانی سیاست کے نہایت ہی سرکردہ شخصیات شرکت کرتی رہی ہیں۔حتیٰ کہ وفاقی وزراءبھی بغیر کسی تکلف کے تشریف لے جاتے۔جب کہ دنیا کے دیگر ممالک میں پروٹوکول کا ایک پورا ضابطہ ہے جس کی پابندی کی جاتی ہے۔کئی ممالک نے اپنے بیرونی دورے محض اس لیے بھی منسوخ کیے ہیں کہ ملاقات کے لیے ان کے ہم منصب دستیاب نہ تھے ۔پاکستان میں اس طرح کے ضابطے موجود تو ہیں لیکن دیگر قوانین کی طرح ان پر بھی عمل درآمد کرانے کا کوئی میکانزم موجودنہیں ہے۔
اسلام آباد میں مقیم سفارت کار یہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستانی بے باک گفتگو کرتے ہیں۔وہ بلا کسی تامل کے ہر موضوع پر بے تکان بولتے ہیں۔حتیٰ کہ ان سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتاہے۔جو جواب چند الفاظ میں دیاجاسکتاہے پاکستانی پورا پس منظر اور پیش منظر بیان کردیتے ہیں۔ہر سیاستدان اور صحافی تمام ایشوز پر گفتگو کرتاہے حتیٰ بعض اوقات تکنیکی موضوعات پر بھی شرح صدر سے رائے زنی کی جاتی ہے۔غیر ذمہ دارانہ گفتگو اور طرزعمل نے پاکستان اور اس کے امیج کو بری طرح مسخ کیا ہے۔بدقسمتی کے ساتھ یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے جسے بدلنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
امریکا کے ساتھ خوشگوار سفارتی ، سیاسی اور تجارتی تعلقات کا برقرار رہنا پاکستان کے قومی مفاد میں ہے لیکن ان تعلقات میں توازن پیدا کرنا دونوں ممالک کے لیے ناگیزیر ہوچکا ہے۔ماضی میںجس طرح ان تعلقات کو برتا گیا اس نے پاکستانی عوام میں امریکا کے بابت تحفظات اور خدشات جنم دیئے ہیں جو بعض اوقات انتہائی منفی ردعمل میں بھی متشکل ہوئے ہیں۔ چونکہ امریکا ایک بڑی عسکری اور معاشی قوت ہے لہٰذا وہ دنیا کو اپنے من مانے طریقوں سے چلانے کی کوشش کرتاہے۔اس صورت حال کو بغیر کوئی خطرہ مول لیے بھی کنٹرول کیا جاسکتاہے اگر پاکستان کاحکمران اور طبقہ اشرافیہ داخلی سیاست میں غیر ملکی اور عسکری اداروں کی مداخلت کے عمل کو محدود کرنے کے عمل کا آغاز کرے۔یہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد ہے جو فوری طور پر مثبت نتائج پیدا نہیں کرسکتی ہے لیکن اگرایک مرتبہ یہ عمل شروع ہوجائے تو رفتہ رفتہ ان تعلقات میں توازن اور وقار پیداکیاجاسکتاہے۔پاکستانی سیاست کے تمام کھیلاڑیوں کو اس ضمن میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ورنہ شب وروزان کا تماشا ہوتا رہے گا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved