اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔15-12-2010

دہلی میں چند روز
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

قریب ڈھائی برس بعد ایک بار پھر دہلی میں چند روز گزارنے کا موقع ملا۔ائرپورٹ سے لے کر ہوٹل تک ہر کچھ بدلا بدلا سا لگا۔نئی نئی سڑکوں اور اوور ہیڈ برجز کا ایک جال تن دیا گیاہے۔غالباًاسی وجہ سے ٹریفک رواں دواں نظرآیا ۔بڑے بڑے مال دیکھ کر ایسا گمان گزرتاہے کہ بھارت میں دولت کی خوب ریل پیل ہوگئی ہے۔دہلی کے گرد ونواح میں نئی آبادیوں کا تیزی سے پھیلاﺅ جاری ہے ۔مغربی کلچر بھارتی پہناﺅ اور تمدن کو نگلتا جارہاہے۔ رفتہ رفتہ غیر ملکی سرمایاکاری کے ساتھ ساتھ بددیسی ثقافت اور تہذیب بھی اپنا رنگ جما رہی ہے۔امریکی صدر باراک حسین اوباما کے حالیہ دورے کے بعد بھارتیوں پر سرشاری کی سی کیفیت طاری ہے۔ ایک عظیم علاقائی نہیں بلکہ عالمی طاقت بننے کی دھن ہر کسی ذہن پر سوار نظر آتی ہے۔
حیرت انگیز اقتصادی ترقی اور عالمی پذیرائی نے بھارتی پالیسی سازی کے مراکز ، علمی اداروں اور ذرائع ابلاغ میں یہ مباحثہ چھیڑدیا ہے کہ کس طرح ایک بڑی عالمی طاقت بننے کے خواب کوجلدازجلد شرمندا تعبیر کیا جائے۔کہا جاتاہے کہ اوباماسمیت کئی ایک عالمی رہنما بھارت کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ علاقائی تنازعات سے اوپر اٹھ کراپنے آپ کو عالمی سطح پر کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرے۔اسی پس منظر میں درجنوںبھارتی ادارے اور شخصیات پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہموار بنانے اور کشمیر جیسے بنیادی تنازعہ کے حل کے لیے کوشاں نظر آتے ہیںبالخصوص سنٹر فار ڈائیلاگ اینڈ ری کنسیلی ایشن( دہلی) طویل عرصے سے پاک بھارت امور اور کشمیر پر مختلف اسٹیک ہولڈرز کے مابین مذاکرات کا اہتمام کرتاہے تاکہ براہ راست ایک دوسرے کے خیالات اور رجحانات سے آگئی حاصل کی جاسکے۔
گزشتہ ہفتے اسی ا دارے کی جانب سے منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔اگر چہ کانفرنس کا موضوع قانون اور سماج تھا لیکن شرکاءکی اکثریت نے پاک بھارت تعلقات اور بالخصوص کشمیر جیسے امور پر کھل کر اظہار خیال کیا۔سری نگر اور جموں سے بھی وکلاءکی موثر نمائندگی موجود تھی۔جنہوں نے اپنا مقدمہ بڑی خوبصورتی اور جرات کے ساتھ پیش کیا۔یہ تجربہ بڑا خوش کن تھا کہ کشمیری نوجوان وکلاءکسی خوف اور خطرے کی پروا کیے بنااپنا موقف پیش کرتے ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے سنیئر وکیل انیس جیلانی اس بے خوفی کی داد دئے بنا نہ رہ سکے اور انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کم ہی اس بے خوفی کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔
بھارت کی نمائندگی کرنے والے افراد بھی اب ماضی کے برعکس کشمیر پر بے لچک پالیسی اپنانے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔کشمیر میں حالیہ چند ماہ کے دوران چلنے والی عوامی تحریک نے بھارتیوں کے ایک بڑے طبقہ کو اپنے رٹارٹائے نظریات اور خیالات پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔کانفرنس کے ایک اجلاس میںباقائدہ بھارتی ایڈووکیٹ جنرل کی موجودگی میں غور کیا گیا کہ بھارت کے موجودہ آئین کی ایسی کیا تعبیر کی جاسکتی ہے جس سے کشمیریوں کی خواہشات کو جاناجاسکے۔اردن دھتی رائے جیسی معروف مصنفہ نے جس طرح اپنی ریاست کو چیلنج کیا اس نے بھی بائیں بازور کے طبقے میں اس سوچ کو ابھارہ ہے کہ کشمیر کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتاہے ۔ اردن دھتی رائے کو انتہاپسند بھارتیوں بالخصوص بی جے پی نے نہ صرف آڑے ہاتھوں لیا ہے بلکہ ان کے خلا ف غداری کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔لیکن اس گرما گرمی میں کشمیر کافی دنوں تک ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں موجود رہاہے۔
دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر شاید ملک بھی شرکاءکانفرنس سے ملاقات کے لیے شام کے کھانے پر تشریف لائے۔اس موقع پر ایک این جی او کے نمائندے نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایک وفد لے کر پاکستان جانا چاہتے ہیں۔شاید ملک نے دلچسپ جواب دیا ۔ ویزے اپلائی کردیں وہ کیس ا سلام آباد بھیجیں گے۔جواب آنے کے بعد وہ انہیں مطلع کردیں گے۔جواب سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار اپنے طور پر ویزے جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔یہی کیفیت اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کی بھی ہے۔
اب عالم یہ ہے کہ کانفرنس یاسیمی نار میں بھی شرکت کے لیے جانے والے افراد کو بجائے سہولت فراہم کرنے کے انہیں پیچیدہ بیوروکریٹک گھن چکرمیں الجھا دیا جاتاہے۔ ویزے فارم کو اس قدر دقت طلب بنادیا گیا ہے کہ عام شہری کے لیے اسے بھرنا ہی کاردارد ہے۔
دوسری جانب دونوں ممالک کی اسٹبلشمنٹ گدے اور گھوڑے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتی ہے۔یقیناناپسندیدہ عناصر کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنا اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس بہانے سے دونوں ممالک کے سماجی اور علمی اداروں کے مابین تعلقات کو منجمند کرادینا کوئی دانشمند ی نہیں ہے۔واہگہ سے گزرتے ہوئے کسٹم حکام سے پوچھا کہ دونوں ممالک میں اس روٹ پر آمد ورفت کی کیا سطح ہے ؟بتایا گیا ہے کہ لگ بھگ دس کے قریب افراد روزانہ یہاں سے گزرتے ہیں۔بس سروس ہر روزمعمول کے مطابق چلتی ہے لیکن اکثر اوقات ایک آدھ مسافر ہی لے جاتی ہے۔کیونکہ دونوں ممالک ممبئی حملوں کے بعد ایک دوسرے کے شہریوں کو کم ہی ویزے جاری کرتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے رہنما چودھری لطیف اکبر نے اجمیر شریف جانے کی حتی المقدور کوشش کی۔انہیں بتایا گیا کہ وہ کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں لہٰذا وہ زیارت کے لیے دہلی سے باہر تشریف نہیں لے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی جنوری میں دہلی مذاکرات کے لیے جانے والے ہیں انہیں جہاں دیگر مسائل پر گفتگو کرنی ہے وہاں انہیںعوامی رابطوں کی بحالی سے وابستہ مشکلات کو کم کرنے والے ایشوز پر بھی بات کرنی چاہیے۔یہی وہ رابطے ہیں جنہوں نے پرویزمشرف کے دور میں پاک بھارت مذاکرات کے لیے سازگار ماحول فراہم کیاتھا۔جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے مابین تنازعات کے حل کے لیے کافی تیزی سے پیش رفت ہوئی تھی۔کشمیر میںاٹھنے والے حالیہ احتجاجی تحریک نے بھارت میں مسئلہ کے حل کے لیے پیش رفت کی حامی لابی کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔یہ وقت ہے کہ پاکستانی حکومت ایسے اقدامات کرے کہ بھارتی نظام میں موجود یہ لابی اپنا موثر کردار ادا کرسکے۔ شاہ محمود قریشی اپنے دورے کو اس مقصد کے لیے جس قدر زیادہ استعمال کرسکیں انہیں کرناچاہیے۔




 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved