اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔22-12-2010

الوداع حامد سعید کاظمی
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

وفاقی وزراءحامدسعید کاظمی اور اعظم سواتی کو کابینہ سے نکالنے سے وقتی طور پر حکومت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوئی ہے لیکن وزیراعظم کے اس جرات مندانہ اقدام نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ روایت ہے کہ عدالتوں میں طویل عرصے تک بدعنوانی کے مقدمات بھی چلتے رہتے ہیں اور سیاستدان اقتدار کے مزے بھی لوتے رہتے ہیں۔لیکن پہلی بار کسی حکومت نے عوامی دباﺅ کی پزیرائی کی اور ایک وفاقی وزیر کو کابینہ سے الگ کیا گیا۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں جاری کیس اور ذرائع ابلاغ میں ہونے والی تنقید نے بھی حکومت کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو کیفرکردار تک پہچائے اور نیک نامی کمائے۔
عدالتی تحقیقات کے نتیجے میں غالب امکان ہے کہ حقائق جلد عوام کے سامنے آجائیں گے لیکن بدعنوانی اور بدانتظامی کے اس بھیانک کھیل کو مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دیا جارہاہے۔بریلوی اور دیوبندی فرقوں کے کرتا دھرتا وزارت مذہبی امور کے حصول کے لیے نت نئے حربے استعمال کررہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان حکومت سے روٹھ گئے ہیں۔کہاجاتاہے کہ اگر جمعیت العلما اسلام کو وزارت مذہبی امور پیش کردی جائے تووہ ازسرنو حکومت کی حمایت شروع کرسکتے ہیں۔حامدسعید کاظمی بریلوی مکتب فکر کے پیروکار سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو اپنی کمک کے لیے پکار رہے ہیں۔جب کہ فضل الرحمان متحدہ مجلس عمل محرومہ کوزندہ کرنے کی مہم پر نکل پڑے ہیں۔کئی ایک سیاسی پنڈتوں کا نقطہ نظر ہے کہ مولانایہ سب کرتب اپنی قیمت بڑھانے کی خاطر کررہے ہوں۔وہ جلد ہی واپس حکومتی کیمپ میں براجماں ہوں گے۔
جمہوری روایات یہ ہیں کہ جب کسی وزیر یاسرکاری اہلکار پر کوئی الزام لگتاہے یا وہ کسی سیکنڈل میں ملوث پایاجاتاہے تو اسے اس وقت تک سرکاری ذمہ داریوں سے سبک دوش کردیاجاتاہے جب تک اس کے خلاف تحقیقات مکمل نہیں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی یہ روایت پختہ نہیں ہوئی ہے۔حامد کاظمی شاید ہی حکومت سے الگ ہوتے اگر آزاد عدلیہ اور ذرائع ابلاغ میں ان کے خلاف آوازیں نہ اٹھتیں۔ماضی قریب میں رینٹل پاور پلانٹس کے سودوں میں ہونے والے مبینہ گھپلوںپر جس طرح عدالتوں اور ذرائع ابلاغ میں بحث ہوئی اس نے پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر راجہ پرویزاشرف کی سیاسی ساکھ ہی مجروع نہیں کی بلکہ انہیں عوامی تضحیک کا نشانہ بھی بننا پڑا۔
وہ وقت گیا جب کروڑوں روپے ہضم کرلیے جاتے تھے لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔جدید ٹیکنالوجی نے اطلاعات تک رسائی کو حیرت انگیز طور پر سہل بنادیاہے۔دنیا میں کئی ایک ممالک میں ایسی قانون سازی بھی کی گئی ہے جہاں کچھ بھی چھپانا ممکن نہیں رہاہے۔پاکستان میں اطلاعات تک رسائی کا قانون موجود تو ہے لیکن اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہورہاہے۔ یہ قانون حکومت کو پابند کرتاہے کہ وہ شہریوں کو اطلاعات فراہم کرے۔پنجاب ،خیبرپختون خوا، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں سرے سے ایسا کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔پنجاب میں جہاں حکومت شفافیت کی علمبردار کہلانا پسند کرتی ہے۔وہاں بھی اطلاعات تک رسائی کا قانون موجود نہیں ہے۔تاہم اسلام آباد میں شہریوں اور این جی اوز نے ایسے کئی ایک کامیاب تجربات کیے ہیں جہاں حکومت نے مختلف ٹھیکوں کے بابت معلومات شہریوں کے ساتھ شئیر کیں۔
دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں اچھی حکمرانی کی فراہمی اور شفافیت کو قائم کرنے کے لیے حکومت فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ پارلی منٹ سے منظور کراتی ہے ۔جس کے بعد کوئی بھی شہری کسی بھی بڑے سے بڑے منصوبے کے بابت متعلقہ محکمے سے معلومات فراہم کرنے کا تقاضہ کرسکتاہے ۔محکمے قانونی طور پریہ معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوتے ہیں ۔یوں سرکاری اداروں کو ہر وقت محاسبے کا خطرہ رہتا ہے جس کے سبب وہ اپنی ذمہ دارویوں میں کوئی کوتائی نہیں کرتے ہیں۔
عدالتوں او رذرائع ابلاغ کی جانب سے بدعنوانی کوروکنے اور اچھی حکمرانی فراہم کرنے کی کاوشوں کو اسی صورت میں تقویت مل سکتی ہے جب ملکی قوانین بھی انہیں معاونت فراہم کریں۔ ممتاز مغربی مفکر پیٹرک ہنری نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جہاںحکمرانوں کے معاملات سے متعلق معلومات پوشیدہ ہوتی ہیںوہاں لوگوں کی آزادیاں کبھی محفوظ تھیں اور نہ ہوں گی۔رواج یہ ہے کہ سرکاری فائلوں پر خفیہ کی مہرین لگا کر انہیں بوسیدہ الماریوں میں دفن کرلیا جاتاہے۔جب کہ آزاد معاشروں میںسوائے حساس معلومات کے باقی تمام دستاویزات انٹرنٹ پر رکھ لی جاتی ہیں تاکہ تمام شہریوں کی ان تک یکسان رسائی ہو۔جب کہ ہمارے ملک میں آج تک بعض جامعات کے داخلہ فارم کے حصول کے لیے میلوں کا سفر طے کرنا پڑتاہے اور سرکاری محکموں کے چکر کاٹے جاتے ہیں تاکہ ایک معمولی سی عرضی داخل کرائی جاسکے۔
حامد سعید کاظمی کے انجام کے بعدحکومت اور سیاستدانوں کو ادراک ہوجاناچاہیے کہ شفافیت قائم کیے بنا اچھی حکمرانی کی فراہمی کا خواب شرمندہ تعبیرنہیں ہو سکتاہے ۔لہٰذا و ہ خود پہل قدمی کریںاور ایسی نظائر قائم کریں تاکہ ان کے بعد آنے والے افراد بدعنوانی کا قائدے کلیہ کو روندنے کا تصور بھی نہ کرسکیں۔وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی اگر اپنے چند ایک مزید رفقاءاور سرکاری افسروں کو بدعنوانی میںملوث پائے پانے کے الزام میں نکال سکیں تو پاکستان میں جہاں اس جرم کی حوصلہ شکنی ہوگی وہاں عالمی اداروں میں بھی پاکستان کی ساکھ بہتر ہوسکے گی۔بدقسمتی سے جج کے دوران جاجیوں پر جو قیامت ڈھائی گئی اس نے نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب کیا ہے بلکہ پاکستانیوں کی نفسیات پر بھی گہر ے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔پہلے ہی شہریوں کا اپنی ریاست پر اعتبار مجروع ہوچکے ہے ۔اب حاجیوں کے ساتھ کیے جانے والے برتاﺅ نے رہی سہی کسری بھی نکال دی ہے۔پوری قوم صدمے سے دوچار ہے۔اس صورت حال سے باہر نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آزادنہ عدالتی تحقیقات ہوں اور مجرموں کو قرارواقعی سزا ملے۔ چھوٹے بڑے کی تمیز روا نہیںرکھی جانی چاہیے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved