اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔28-12-2010

چین دوسروں سے مختلف کیوں؟
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

ارشادمحمود
چینی وزیراعظم جناب وین جیا باﺅکے دورے پاکستان کوایک ملکی سربراہ کے معمول کے دورے کے برعکس حیران کن شان وشوکت کے ساتھ ایک تہوار کی طرح برتا گیا ۔حکومت اور حزب اختلاف سمیت عسکری قیادت سب کے سب پاک چین دوستی کو مضبوط اور موثر بنانے ایک چھت تلے جمع تھے۔ چین کے دوستی اور محبت کے تعلق پر جو قومی اتفاق رائے ایک بار پھر ابھرا اس نے دنیا بھر کے مبصرین کو حیران کردیا ہے۔
مغربی دانشور اور سفارت کار اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کی چین سے بڑھ کر مدد کی۔پاکستان کے لاکھوں شہری امریکا ،برطانیہ اور پورپی ممالک میں مستقل آباد ہوچکے ہیں۔وہاں وہ بڑے بڑے سیاسی اور سفارتی عہدوں پر فائز ہیں۔ ہربرس ہزاروں پاکستانی نوجوان اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مغربی جامعات کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں کشادہ دلی کے ساتھ قبول کیا جاتاہے۔لاکھوں پاکستانی انگریزی بولتے ہیںجبکہ چینی عوام کے ساتھ پاکستانیوں کا اس قدر گہر ا تعلق نہیں ہے ۔
وین جیاباﺅ کے دورے کے موقع پر اسلام آباد میں سیرینا ہوٹل کی لابی میں ایک امریکی صحافی سے سرراہے ملاقات ہوئی۔ پوچھا کہ جناب چینی وزیراعظم کے دورے کو کیسے دیکھتے ہیں ۔بیزاری سے مخصوص امریکی اسٹائل میں کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔گزشتہ دس برس میں امریکا نے پاکستان کو اٹھارہ ارب ڈالر کی امداد دی ہے لیکن جس پاکستانی سے پوچھو وہ چین کے گن گاتا آتاہے۔اسی صحافی نے بتایا کہ ایک امریکی سروے ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آدھے سے زائد پاکستانی یہ تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں کہ امریکاپاکستان کو کوئی امداد دیتاہے۔میں نے عرض کیا کہ اس وقت پاکستان میں ایک سو بیس منصوبوں پر ہزاروں چینی ماہرین پاکستانیوں کے ساتھ مل کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔لیکن مغربی باشندے پاکستان کا سفر کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے حتیٰ کہ سفارت کار بھی ایک برس سے زائد قیام نہیں کرتے ہیں۔
چینی کمپنیوں نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پن بجلی سمیت پندرہ بڑے منصوبوں پر نہ صرف سرمایاکاری کی ہے بلکہ ان کی تعمیر بھی کررہی ہیں۔کہاجاتا ہے کہ ان منصوبوں کی تعمیر کے بعد پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔کیونکہ سستی بجلی ملنے کے بعد پاکستانی صنعت کا پہیہ رواں دواں ہوجائے گا اور پاکستانی برآمدات عالمی منڈی میں جاری مسابقت میں اپنا جائز حصہ حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں گی۔ان منصوبوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بھارت نے چین کو سفارتی ذرائع سمیت ہر سطح سے یہ پیغام دیا کہ وہ ان علاقوں کی متنازعہ حیثیت کے پیش نظر وہاں تعمیراتی منصوبوں میں شرکت نہ کرے۔لیکن اس باوجود چینی کمپنیاں نہ صرف علاقوں میں موجود ہیںبلکہ سرگرمی کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
جنرل جاوید اشرف قاضی پرویز مشرف کے زمانے میں وزیرتعلیم رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ میرا خیال تھا کہ امریکی اور دیگر مغربی حلیف ممالک تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ان کی وزارت کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیں گے۔وزیرتعلیم بننے کے بعدانہوں نے تعلیمی اصلاحات کے لیے اس مفروضے پر ایک بڑا منصوبہ بنایا کہ مالی وسائل کوئی بڑا ایشو نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی ہے جب تک پاکستانی بچوں کو معیاری تعلیمی سہولتیں دستیاب نہیں ہوں گی۔
جاوید اشرف قاضی اپنے تجربے کو بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ جان کر حیر ت ہوئی کہ اسلام آباد میں مغربی ممالک کے سفارت خانوں نے اپنے اپنے ملکوں کی وزارت تعلیم کو خبر تک نہ ہونے دی کہ پاکستانی وزارت تعلیم وسائل کی تلاش میں ہے اور وہ کئی ایک ایسے منصوبے شروع کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جو دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے ناگیزیر ہیں۔وہ کہتے ہیں ایک مرتبہ اسٹیٹ ڈیپارمنٹ کی ایک میٹنگ میں انہوں نے تنگ آکر کہا کہ آپ نہیں جانتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہیے اور ہمیںکس طرح کام کرنا ہے لیکن اس باوجود آپ ساری منصوبہ بندی اور کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک حکومت کے ذریعے ایک پیسہ خرچ کرنے پر تیار نہیںہوتے ہیں۔این جی اوز یا برائے راست منصوبے چلانے کے نتیجے میں امداد رقم کا بڑا حصہ انتظامی مدادی ادارے واپس لے جاتے ہیں۔یوں وسائل کا ضائع ہوجاتاہے۔
چینی سفارت کاری کی خوبی یہ ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ مل جل کر منصوبہ بناتی ہے۔اکثر اوقات تعمیراتی کاموں کے لیے مزدور سے لے کر منصوبے کے سربراہ تک چینی شہریوں کو تعینات کیا جاتاہے۔لیکن پاکستان کے مخصوص پس منظر میں جب چین سے درخواست کی گئی کہ وہ شاہراہ قرارقرم کی تعمیر میں پاکستانی ماہرین اور مزدورں کو روزگار فراہم کرے تو بلا کسی ہل وحجت کے تجویزمان لی گئی،یوں ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار کا موقع ملا۔
سرکار ہی نہیں بلکہ مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی چین کے قریبی تعلقات ہیں۔قاضی حسین احمد کئی مرتبہ چین کا دورہ کرچکے ہیں۔مولانا فضل الرحمان نہ صرف چین گئے ہیں بلکہ ان کی جماعت اور حکمران کیمونسٹ پارٹی کے مابین مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔یوں جمعیت العلما اسلام اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا برادر تنظیموں کے رشتے میں بھی بند ھ چکی ہیں۔چینی قیادت عملیت پسند ہے انہیں خدشہ تھا کہ کئی یہ مذہبی جماعتیں سنکیانگ میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک کی پشت پناہی نہ شروع کردیں لہٰذا انہوں نے بجائے ان جماعتوں کے سربراہوں کے ویزے بند کرنے اور سے قطع تعلق کرنے کے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرلیے۔ یہ یہی وہ فرق ہے جو چین پاکستان کے دوسرے حلیف ممالک سے مختلف بناتاہے۔
امریکا اوربھارت کے مابین بڑھتے ہوئے تزویراتی تعلقات کے تناظر میں قدرت نے پاکستان کو ایک سنہری موقع عنایت کیا ہے کہ وہ چین کی ابھرتی ہوئی معیشت سے استفادہ کرے اور مغربی دنیا سے تعلقات بگارٹے بغیر اپنی تعمیر اور ترقی پر توجہ مرکوز کرے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس نے امریکا اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقراررکھا ہے۔یہ توازن ہر صورت میں قائم رہنا چاہیے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved