اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔04-01-2011

نواز شریف مظفرآباد میں
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

طویل مشاورت اور ردوکد کے بعدمیاں محمد نواز شریف نے مظفرآباد جاکر آزادکشمیر میں باقائدہ مسلم لیگ (ن) کی تنظیم کے قیام کا اعلان کردیاہے۔یوں 1931ءمیں مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کے مابین قائم ہونے والے تاریخی تعلق کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا ہے۔نواز شریف کے اس اعلان کے خطے کی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہونے ہیں۔آزادکشمیر میں انتخابات جولائی 2011سے قبل متوقع ہیں۔مسلم لیگ کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی علاقائی سیاست میں نئی صف بندی شروع ہوچکی ہے۔پیپلزپارٹی مظفرآباد کی کرسی حاصل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی مدد سے خالص انتخابی نقطہ نظرسے صف آرائی میں مصروف ہے۔سابق وزرائے اعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری اور سردار یعقوب خان کی شمولیت سے پیپلزپارٹی اپنے تمام حریفوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط جماعت کے طور پرابھرآئی ہے۔
نواز شریف کی آزادکشمیر کی سیاست میں براہ راست دلچسپی اور مظفرآباد میں ان کے بھرپور استقبال نے یہ امکان پیدا کردیا ہے کہ اگلے چند ماہ میں آزادکشمیر کی سیاست میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے مابین زبردست انتخابی معرکہ آرائی ہوگی۔گزشتہ چند دہائیوں میںمسلم لیگ نے ہمیشہ علاقائی سیاست میں مسلم کانفرنس کی تائید اور حمایت کی ہے لیکن اب وہ براہ راست راجہ فاروق حیدر خان اور کشمیر ی نژاد شاہ غلام قادر کی قیادت میںانتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔
ابھرتے ہوئے سیاسی منظرنامے میںسردار عتیق احمد خان کی مسلم کانفرنس کے پاس محدود آپشننز رہ گئے ہیں۔سردار عتیق کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ آئندہ کچھ برس تک پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔انہیں ہمیشہ کی طرح عسکری حلقوں کی آشیرباددستیاب رہے گی ۔علاوہ ازیںسردارعتیق ایک متحرک سیاسی رہنما ہیں جو مشکل حالات میں بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔
کئی ایک مبصرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مسلم لیگ آزادکشمیر کی سیاست میں کوئی مقام بنا پائے گی ؟مسلم لیگ آزادکشمیر کے نام سے جو تنظیم قائم ہوئی ہے اس میں راجہ فاروق حیدر اور شاہ غلام قادر دونمایاں شخصیات کے طور پر ابھرے ہیں۔فاروق حیدر ایک آزادمنش اور خطرات سے کھیلنے والے سیاستدان کی شناخت رکھتے ہیں۔ محض نو ماہ کے مختصر دورحکومت میں انہوں نے ایشوز کی سیاست کرنے کی بدولت ممتاز سیاسی مقام حاصل کیا ہے۔فاروق حیدر نے آزادکشمیر کے آئین میں بنیادی ترامیم تجویز کیں تھیں تاکہ مقامی حکومت کو زیادہ بااختیار بنایاجاسکے۔اسی طرح انہوں نے اپنے دور حکومت میں کوشش کی کہ تمام کشمیری جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرکے مرکزی حکومت کے پاس موجود ان اختیارات کا خاتمہ کیا جائے جن کی بدولت آزادکشمیر کی حکومت عضومعطل بن چکی ہے۔انہوں نے منگلا ڈیم اور پن بجلی جیسے ایشوز پر بھی آزادکشمیر کا مقدمہ بہادری کے لڑا۔
راجہ فاروق حیدر نے آزادکشمیر کے سیاسی تشخص کو ابھارنے اور اسے ایک باعزت مقام دلوانے کی کوشش بھی کی ۔وہ آزادکشمیر کے روایتی سیاستدانوں کے برعکس کھرے اور دوٹوک ہیں۔اگر چہ ان کی شناخت ایک اچھے منتظم کی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بدعنوانی اور کرپشن کے آگے بند باندھنے کی کو شش کی حتیٰ کہ وزارت امور کشمیر کے طاقت ور وزیرمنظور وٹو اور صدر آزادکشمیر راجہ ذوالقرنین اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق خان کے ناجائز مطالبات کو درخوداعتنا نہیں جانا۔فاروق حیدر کے جرات مندانہ انداز سیاست نے انہیں ہر مکتب فکر میں یکساں مقبولیت سے نوازا بالخصوص اسٹلشمنٹ سے ناراض نوجوان طبقہ انہیں پسند کرتاہے۔
اگر وہ اپنا موجودہ غیر روایتی انداز سیاست برقرار رکھ سکیں اور نئے چہروں کو اپنے جماعت میں جگہ دیں۔صاف ستھری اور بااصول سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کریں تو وہ جلد ہی میدان سیاست کے کئی مدارج طے کرسکتے ہیں۔شرط یہ ہے کہ وہ آزادکشمیر کے دیگر سیاستدانوں کے برعکس اسلام آباد سے اپنا ڈیرہ اٹھائیں۔دوردراز دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے قصبات میں عام لوگوں کو وقت دیں۔ پھر جاکر مسلم لیگ (ن) کی تنظیم کا دائرہ پورے خطے میں پھیل سکتاہے۔آزادکشمیر کے سیاستدانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے خاندانوں سمیت اسلام آباد یا راولپنڈی میں مستقل قیام پذیر ہیں۔ان کے بچے اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بیگمات کا علاج معالجہ مہنگے ہسپتالوں ہوتا ہے۔انہوں نے آزادکشمیر میں سیاست کرنے کے لیے مقامی سطح پر ایک انفراسڑکچر بنارکھا ہے جس کے ذریعے وہ انتخابات جیتے ہیں۔عوام کے دکھ درد سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔راجہ فاروق حیدر اگر سیاسی کلچر کو بدلنے کی کوشش کریں تو انہیں عوام میں زیادہ تیزی سے پزیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔
نوازشریف باقی ملک کی طرح آزادکشمیر کے طول وعرض میں بھی مقبول ہیں۔ان کی مقبولیت ،ذاتی اثر ورسوخ اور پنجاب کی سیاست کے آزادکشمیر پر مرتب ہونے والے سیاسی اثرات سے فائدہ اٹھا کر فاروق حیدر آزادکشمیر کے قدامت پسنداور روایتی سیاسی نظام میں انقلابی تبدیلی لاسکتے ہیں۔یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ مسلم لیگ نے آزادکشمیر کی سیاست میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے اس لیے آئندہ چند ماہ میں برپا ہونے والے انتخابی معرکے میں معجزیاتی نتائج کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔اس کے باوجود کئی ایک سیاسی پنڈتوں کا تجزیہ ہے کہ مسلم لیگ دوسری بڑی پارلی مانی قوت بن کر ابھر سکتی ہے۔مسلم لیگ (ن) کو انتخابی مجبوریوں کی خاطر سیاسی لوٹوں کو قبول نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے گزشتہ چند سالوں میں چار چار مرتبہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کر نے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں مسلم لیگ آزادکشمیر کے رہنماﺅں کے اجلاس سے خطاب میں یہ واضح کیا ہے کہ انہیں ماضی کی فرسودہ سیاست کو دفن کرتے ہوئے عسکری اور نادیدہ قوتوں کے ساتھ اپنے رابطوںکو منقطع کرنا ہوگا تاکہ اسٹبلشمنٹ اور مسلم کانفرنس کے چھ عشروں پر محیط گٹھ جوڑ سے بیزار کشمیری تبدیلی محسوس کرسکیں۔نوازشریف کی اس تقریر کوہرسیاسی اور سماجی مکاتب فکر نے سراہا ہے ۔ آزادکشمیر کی سیاست کو اسٹبلشمنٹ کے چنگل سے آزادکرانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نبردآزماہونا تنہا راجہ فاروق حیدر کے بس کی بات نہیں ہے۔میاں نواز شریف کو ہر مرحلے پر انہیں غیر مشروط تعاون فراہم کرنا ہوگا تاکہ وہ آزادکشمیر میں شفاف سیاسی نظام قائم کرانے میں کامیاب ہوسکیں۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved