اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔06-01-2011

آہ ۔سلمان تاثیر
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

سلمان تاثیر کے قتل نے پورے ملک کو سوگوار کردیا ہے۔ جس طرح دن دیہاڑے انہیں ہلاک کیا گیااس نے پاکستانی معاشرہ میں پائی جانے والی انتہاپسندی اور جنونیت کو بے نقاب کردیا ہے۔ قانون اپنے ہاتھ لینے اور اپنی مرضی کی سزا سنانے کا رجحان پہلے کے مقابلے میں کئی زیادہ تقویت پکڑ چکا ہے۔سلمان تاثیر کے قتل پر سامنے آنے والے ردعمل نے بھی چونکا دیا ہے۔ان کے قاتل کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا جارہاہے ۔علمااور مذہبی سکالر ز کا ایک بڑا طبقہ اس قتل کی مذمت پر بھی آمادہ نہیں ہے۔
سلمان تاثیر کا قتل محض ایک فرد ممتاز قادری کی کارستانی نہیں ہے ۔اگر اس مفروضے کوحقیقت تسلیم کرلیا جائے کہ حملہ آور کسی کا آلہ کار نہیں تھا اور اس قتل کے پس منظر میں کوئی سازش کارفرما نہیں ہے ۔اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ بہت سارے افراد اورتنظیموں کی دانستہ یا نادانستہ کوششوں سے ایک ایسا سازگارماحول تیار ہوا ۔جس میں ممتاز قادری کو یہ شہ ملی کہ وہ سلمان تاثیر کو قتل کردے۔اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ سے بھی یہ ظاہر ہوتاتھا کہ وہ اپنے کیے پر مطمئن ہے۔ دراصل یہ ماحول پیدا کرنے والے افراد اور گروہ ممتاز قادری سے بڑے مجرم ہیں۔
اسی ماحول کا ہی نتیجہ ہے کہ معاشرے میں ایسے عناصر کی تعداد روز بہ روز بڑتی جارہی ہے جو قتل کے اس فعل کی مذمت کرنے کے بجائے اس کی ستائش کررہے ہیں۔حکومت کی جانب سے مسلسل یہ کہا گیا ہے کہ وہ توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔وزیرقانون بابر اعوان نے خود ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت توہین رسالت کے موجودہ قانون کو تبدیل کرنا دور کی بات اس کے حوالے سے کوئی بحث ومباحثہ بھی شروع کرانے کی روادار نہیں ہے۔اس کے باوجود ملک میں ہرٹال کی گئی ۔کئی ایک کانفرنسیں ،سمی نارز اور جلسے جلوسوں کے ذریعے ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس کا سلمان تاثیر شکار ہوگئے۔
اس نوعیت کی اشتعال انگیز سیاسی سرگرمی کا مقصدگروہی اور ذاتی سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کے سوا کچھ نہیں۔مولانا فضل الرحمان جو طویل عرصے تک کبھی ایک حکومت اور دوسری سے لطف اندازہوتے رہے ہیں۔ نہ صرف ان کانفرنسوں میں پیش پیش رہے ہیں بلکہ انہوں نے حکومت سے اپنی ذاتی ناراضگی کا بدلہ اتارنے کے لیے بھی ان فورمز کا بھرپور استعمال کیا۔چودھری شجاعت حسین جیسا سیاستدان بھی اس طرح کی مجالس میں نمایا ں رہنا ضرور پسندکرتاہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائدین بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے ہیں بلکہ وہ مذہبی ووٹ بینک کو اپیل کرنے کے لیے اس طرح کی مجالس میں اپنی شرکت یقینی بناتے ہیں۔حالانکہ یہ سیاستدان بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں ایسی دفعات موجود ہیں جن کی موجودگی میں قرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات کے منافی قانون سازی کرنا ممکن نہیں ہے۔
بسا اوقات ایسا محسوس ہوتاہے کہ پوری قوم کو ہیجان پیدا کرنے والے ایک جذباتی گروہ کے حوالے کردیا گیاہے۔جو قوم کے جذبا ت کا خوب استحصال کرتاہے۔اشتعال انگیز مواد کی اشاعت کے لیے جدید ذرائع مواصلات استعمال کیے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر گزشتہ کئی دنوں سے موبائلز مونز اور فیس بک پر خطرناک قسم کی مہم جاری تھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ توہین رسالت کے موجود ہ قانون میں تبدیلی کی بات کرنے والا ہرفرد قابل گردن زنی ہے لیکن کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔بلاشبہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آزادانہ اطلاعات کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پیداکی جائے ۔لیکن اس طرح کے منفی پیغامات کی ترسیل روکنے کے لیے قانون حرکت میں آناچاہیے تھا۔مساجد کے سامنے تقسیم ہونے والے لڑیچر پر سرسری نظر ڈالی جائے تو درجنوں کتابین اور رسائل ایسے مل جاتے ہیں جو دوسرے فرقوں اور مذاہت کے پروکاروں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے پر مشتمل ہیں۔شہروں اور بڑے قصبات کی دیواروں پر لکھی ہوئی تحریریں بھی مخالف سیاسی یا مذہبی نظریات کی تکذیب کرتیں ہیں۔
سعودی عرب سمیت تمام بڑے اسلامی ممالک میں ریاست کسی بھی مذہبی یا سیاسی پلیٹ فارم کو دوسرے گروہوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ ایسی کتابیں شائع کرنے کی ممانعت ہے جو کسی بھی شہری کے جذبات مجروع کرنے کا سبب بن سکتی ہوں۔لیکن پاکستان میں ایسے قوانین یا تو موجود ہی نہیں ہیں یا پھر ان پر عمل درآمد کا کوئی نظام کار موجود نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ممتاز مذہبی اسکالر جاوید احمد خامدی پاکستان سے ترک سکونت کرگئے۔سوات یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق خان کوسرعام قتل کردیا گیا۔لاہور میں پنجاب اسمبلی کی رکن ظلہ ھما کو ایک جنونی شخص نے محض اس وجہ سے موت کے گھاٹ اتاردیا کہ اسے خواتین کا سیاست میں حصہ لیناگوارا نہ تھا۔ایسے درجنوں واقعات بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ چند ایک سرپھروں کے خوف سے اچھے خاصے پاکستانی بیرون ملک آباد ہورہے ہیں تاکہ اپنی جان بچاسکیںجبکہ باقی خوف کے مارے اپنے علمی اختلاف کے اظہار میں بھی احتیاط کرتے ہیں۔
اس صورت حال کو بدلنے کے لیے تمام سیاسی اور سماجی تنظیموں کو سرکار کے ساتھ مل کر مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی۔ایک ایسا سیاسی کلچر پیدا کرنا ہوگا کہ جہاں متنوع سیاسی اور مذہبی نقطہ نظر کے پیروکار لوگ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی ایسے ہی ماحول میں آزادی کے ساتھ اپنے نظریات کی ترویج کے مواقع دستیاب ہوں گے۔بصورت دیگر تمام مذہبی فرقوں کے لوگ ایک دوسرے کی گردنیں ناپتے پھریں گے جیسے کہ وہ آج کل کررہے ہیں۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved