اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔24-01-2011

اعتدال پسند قیادت کہاں ہے؟
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

ملک کو تیزی سے ناموس رسالت کے نام پر رجعت پسند ، اعتدال پسند،لبرل اور سیکولر کے عنوانات کے تحت تقسیم کرنے کا ایک خطرناک کھیل کھیلا جارہاہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مذہبی جماعتوں کے ایک جلسوںمیں شرکت کررہے ہیں۔ان جلسوں میں تحفظ ناموس رسالت کی قسم کھائی جاتی ہے۔شرکاءسے یہ عہد لیا جاتا ہے کہ وہ تحفظ ناموس رسالت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے تیار رہیں گے۔ حکومت کی جانب سے مسلسل یہ کہا جارہاہے کہ وہ اس قانون میں کسی قسم کی ترامیم کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے علما اور مشائح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ وہ قانون میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
ان یقین دہانیوںکے باوجود مظاہروں کا ایک لامتناعی سلسلہ جاری ہے۔بریلوی مکتب فکر کے پیروکاروںکو جنہیں ہمیشہ پرامن اور اعتدال پسند اسلام کے علمبردار کہا جاتارہاہے ۔ ان کی زبانیں شعلے اگل رہی ہیں۔وہ ممتاز قادری کی باعزت رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسے ایک ہیرو کے طور پر متعارف کررہے ہیں۔کئی ایک جلسوں اورمظاہروں میں ذاتی طور پر شرکت کرنے ،مقررین کی تقاریر اور شرکاءکے لب ولہجے اور رجحانات کو دیکھنے بعد یہ تجزیہ کرنا آسان ہوجاتاہے کہ ملک کی سب بڑی خاموش اور پرامن مذہبی قوت تیری سے پرتشدد انداز سیاست اختیار کرتی جارہی ہے۔
بریلوی مکتب فکر کی حامل مختلف جماعتیں تحفظ ناموس رسالت کے نازک معاملے کو اپنی سیاسی قوت کے اظہار کے طور استعمال کرنا چاہتی ہیں۔علاوہ ازیں وہ رفتہ رفتہ اپناعسکری بازو بھی منظم کرنے کی طرف مائل ہیں تاکہ اپنے مخالفین کا مقابلہ کرسکیں۔سنی تحریک اور دعوت اسلامی کے جلسوں میں مقررین کھل کر اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔بریلوی نوجوان پہلے ہی دیگر مذہبی جماعتوں کے عسکری بازوں سے کافی کا فی مرغوب تھے۔ دوسری جانب اعتدال پسند پاکستان کی علمبردار جماعتیں خاموشی کی لمبی چادر تان کر جذبات کے موجودہ طوفان کے گزرجانے کا انتظار کررہی ہیں۔
صاف نظر آتاہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں اس مسئلہ کو آسانی کے ساتھ ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گی۔وہ ممتاز قادری کے خلاف جاری عدالتی کارروائی اور اسے ملنے والی امکانی سزا کو روکنے کے لیے جمع ہوچکے ہیں۔عدالتوں پربھی دباﺅ ڈالا جانے والا ہے۔وکلاءبرادری کی ایک خاصی بڑی تعداد نے ممتاز قادری کے مقدمے کی پیروی کا اعلان کیا ہے۔رفتہ رفتہ ایک ایسا ماحول پیدا ہورہاہے جس میں انتہاپسند سیاسی منظر پر چھاتے چلے جارہے ہیں۔کئی ایک سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مذہبی جماعتیں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد کا منظرنامہ پیدا کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اس جذباتی ماحول کو اپنی سیاسی حمایت میں بدل سکیں۔
دوسری جانب اعتدال پسند سیاسی قیادت منہ میں گھنگیاں ڈالے زمینی حقائق سے بے خبر ریت میں سر چھپا ئے اچھے وقتوں کا انتظار کررہی ہے ۔وہ کھل کر کسی بھی ایسے موضوع پر اظہار خیال سے کتراتے ہیںتاکہ ان کے ووٹ بینک کو کوئی گزند نہ پہنچے۔مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ناموس رسالت جیسے مسئلہ کو سیاست کے لیے استعمال کیا جارہاہے بلکہ اس بنیاد پر معاشرے کو تقسیم کیا جارہاہے۔افغان کلچر سے مستعار لی گئی اسلام کی ایک بے لچک اور سخت گیر تعبیر متعارف کرائی جارہی ہے جو پاکستانی روایات اور اقدار سے میل نہیں کھاتی ہے ۔اگر یہ سلسلہ بلاروک ٹوک جاری رہا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں درجنوں گروہ باہم دست وگریباں ہوں گے۔
میاں نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو شاید ادراک ہوا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔اسی لیے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پہل قدمی کی اور میاں نواز شریف کے جارہانہ سیاسی حملوں کے باوجود ان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔اب دونوں بڑی جماعتوں کے مابین کئی ایک قومی ایشوزپر مفاہمت ہوتی نظر آتی ہے۔غالباًاسی لیے پنجاب کے نئے گورنر سردار لطیف کھوسہ نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی غیر معمولی کوششیں کیں ہیں۔میاں نواز شریف نے بھی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایسا نہیں اٹھایا ہے جو جمہوریت کی بساط ہی
لپیٹ دیتا۔
لیکن جب دونوں بڑی قومی جماعتوں کے مابین داخلی سلامتی ، دہشت گردی اور خارجہ پالیسی کے چند ایک نکات پر وسیع البنیاد اتفاق رائے نہیں ہوجاتاہے اس وقت تک ملک میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ سیاسی معاملات میں جو بھی عناصر تشدد کا استعمال کرتے ہیں وہ ان کے فطری اتحادی نہیں ہوسکتے ہیں ۔کیونکہ وہ قومی سیاست میں زہر گھولنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔سیاسی مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے ایک اگر قتل کو روا سمجھا گیا تو یہ سلسلہ کبھی رک نہیں سکے گا۔لیاقت علی خان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاتاتوآج ضیاءالحق اور متحرمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل محفوظ نہ ہوتے۔چنانچہ اس امر کی ضرورت ہے کہ دونوں بڑی قومی جماعتیں انتہاپسندی کے خلاف مشترکہ محاذ بنائیں۔وہ مل جل دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ وہ دن دور نہیں جب یہ انتہاپسند عناصر ان کی جانوں کے بھی دشمن ہوجائیں گے اور کسی کو بھی سیاست یا نظریاتی لڑائی نہیں لڑنے دیں گے۔
مسلم لیگ (ن ) کی یہ زیادہ ذ مہ داری ہے کہ وہ کھل کر میدان میں اترے اور ایسے عناصر کو چیلنج کر ے جو طاقت کے بل بوتے پر معاشرے پر اپنا مخصوص ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں۔پیپلزپارٹی چونکہ ایک لبرل جماعت ہے اس لیے قدامت پسند اور متوسط کاروباری طبقہ میں اس کی آواز پر مسلم لیگ کے مقابلے میں کم دھیان دیا جاتاہے۔مسلم لیگ اورمیاں نواز شریف کو اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک اعتدال پسند ملک میں تبدیل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔اس حوالے سے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اشتراک کی رائیں بھی تلاش کی جانی چاہیں۔انتہاپسندوں کا مقابلہ استدلال سے ہی کیا جاسکتاہے اس ضمن میں مسلم لیگی ذہن کے حامل دانشور اور صحافی مرکزی کردار ادار کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں معاشرے میں زیادہ توجہ سے سنا جاتاہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved