اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔30-01-2011

کب سدھریں گے؟
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

جاوید سرور دوعشروں سے یورپی پارلی منٹ کے دارالحکومت برسلز میں مقیم ہیں۔پاکستان میں سیلاب آیا تو دیگر پاکستانیوں کی طرح وہ بھی مضطرب ہوئے ۔ اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ برسلز میں اپنے طویل قیام کے دوران انہوں نے نہ صرف اپنی کمیونٹی بلکہ مقامی جماعتوں اور بااثر سیاستدانوں کے ساتھ بھی گہرے مراسم استوار کیے۔ سرگرمی سے برسلز کی سیاست میں حصہ لیا اور کاروبار پر توجہ مرکوز رکھی۔رفتہ رفتہ بلجیم کی سیاست میںنفوذ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ کر انہوں نے جہاں اپنے پاکستانی دوستوں کو سیلاب زدگان کی مدد پر آمادہ کرنے کی کوشش کی وہاں انہوں نے بلجیم کی سیاسی جماعتوں اور ارکان پارلی منٹ سے بھی مدد کی درخواست کی۔
برسلز پارلی منٹ کی چیئرمیں مادام فرانسوازدی پونی بھی ان کے بے لوث جذبے سے متاثر ہوئی اور ان کے ساتھ برسلز کی سڑکوں اور بازاروں میں تباہ حال پاکستانیوں کی مدد کے لیے امداد جمع کرنے کے لیے چل پڑی۔جاوید سرور کا کہنا ہے کہ درجنوں افراد نے مادام فرانسواز کو نہ صرف امداد دینے سے انکار کردیا ہے بلکہ انہیں نفرت انگیز نعرے اور طعنوں سے نوازا گیا۔کئی لوگوں نے انہیں روک کر کہا کہ تم دہشت گردوں کی مدد کرنا چاہتی ہو۔تم ایسے پاکستان کی حمایت کررہی ہو جو ہمارا دشمن ہے۔لیکن اس کے باوجود لاکھوں یورو جمع ہوئے اور پاکستانیوں کی بحالی اور بہبود پر خرچ ہورہے ہیں۔
چند ہفتے قبل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تیس کے لگ بھگ یورپی اور عرب ممالک کے سفراءکے ساتھ ایوان وزیراعظم میں ایک نشست کا اہتمام کیا ۔اس تقریب ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ ان سفراءکو آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے دارالحکومتوں میں پاکستان کی اقتصادی مدد کے لیے لابی کریں۔یوسف رضاگیلانی بھرپور تیاری کے ساتھ آئے اور جم کر گفتگو فرمائی لیکن بات بن نہ سکی۔پورپی ہی نہیں بلکہ عرب ممالک کے نمائندوں نے بھی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیںپاکستان کی مشکلات کا احساس ہے اور وہ ان کی مدد بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ کہ ان کے ملک کی رائے عامہ پاکستان کے بابت اچھا تاثر نہیں رکھتی ہے۔ایک سفیر نے سفارتی آداب کو بالاطاق رکھتے ہوئے تبصرے فرمایا کہ ہمارے شہری حیران ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جن کے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سربراہ کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا ۔لوگوں نے سوگ منانے کے بجائے اس پر جشن منایا ۔ہمارے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ ایک ایسے ملک کی مدد کیوں کریں۔
دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پاکستان میں رونما ہونے والے عام سے واقعات کو غیر معمول کوریج دی جاتی ہے۔جس دن اسلام آباد میں سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا ۔اسی شام مجھے ممتاز کشمیری رہنما غلام نبی فائی کا واشنگٹن سے فون آیا ہے کہ وہ گھر سے ائرپورٹ کی طرف روانہ ہوچکے ہیں لیکن ابھی ابھی انہیں انقرا سے پیغام ملا ہے کہ اسلام آباد میںترکی کے ایک غیر سرکاری ادارے کے زیراہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس ملتوی کردی گئی ہے لہٰذا وہ پاکستان نہیں آرہے ہیں۔میں نے عرض کیا کہ وہ ترک منتظمین سے درخواست کریں کہ وہ کانفرنس ملتوی نہ کریں۔کانفرنس اسلام آباد میں ہونی ہے جب کہ سلمان تاثیر کا سوگ لاہوری منائیں گے۔
عرض کیا کہ چند دنوں میں لوگ سلمان تاثیر کو بھول جائیں گے ۔نئے ایشوز ہوں گے اور زندگی پھر سے معمول کے مطابق رواں دواں ہوگئی ۔ میرے جواب پرڈکٹر فائی چونک گئے اور کافی دیر بعد بولے کہ بھائی بہت بڑی شخصیت ماری گئی ہے ۔کہاجاتاہے کہ رات گئی بات گئی۔ پاکستان میں ہر روز نئے ایشوز ہوتے ہیں اور سرشام ٹیلی وژن کی سکرینوں پر وہی بیس سے پچیس تجزیہ کار اور اینکر پرسن روایتی نوک جھوک میں مصروف ہوجاتے ہیں۔گزرے ہوئے کل کو بڑی آسانی سے فراموش کردیا جاتاہے۔
پاکستان میں جس رفتار سے حادثات رونما ہورہے ہیںانہوں نے ہمیں اجتماعی طور پر بے حس کردیا ہے۔ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اگر وہ محفوظ ہے تو اسے کسی اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہی سبب ہے کہ پاکستانیوں کو دہشت گردی کا احساس بھی اس وقت ہوا جب طالبان نے اسلام آباد،کراچی اور لاہور جیسے بڑے تجارتی مراکزکو اپنا ہدف بنایا۔ پھر جاکر رائے عامہ بیدار ہوئی کیونکہ سارامیڈیا ، اس کے مالکان اور بااثر پاکستانی انہی شہروں میں مقیم ہیںاور اب زک ان کے مفادات اور ذات پر پڑرہی تھی۔
کرپشن کی ہوش ربا کہانیاں زباں زد عام ہیں۔حتیٰ کہ نیٹو کے زیراہتمام جو اشیا ءافغانستان کے لیے منگوائی جاتی تھیں وہ بھی راستہ میں غائب کی جاتی رہی ہیں۔پیپلزپارٹی کی حکومت کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی ادارے میں ایسے شخص کا تقرر نہیں کرنا چاہتی ہے جو نیک نام ہو یا جس کی معاشرے میں کوئی ساکھ ہو۔بسااوقات گمان گزرتاہے کہ ملک قحط رجال کا شکار ہے یا پیپلزپارٹی کی قیادت کو کوئی دیانت دار شخض دستیاب ہی نہیں ہوتاہے۔اسی لیے اسے ہر روز بلاناغہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔سیاسی دیولیہ پن کا یہ عالم ہے کہ حکومت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی محض اس لیے دشمن بن گئی کہ وہ حکومت کی غیر شفاف پالیسیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس قابل رحم حالت کے باوجود ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دنیا پاکستانیوں کی قدر کرے ، انہیںعزت واحترام سے نوازے ۔بڑی بڑی طاقتیں اسلام آباد کے سامنے جھکی جھکی رہیں۔تمام تر نالائقیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہمارے اوپر امریکا بہادر ڈالروں، برطانیہ پونڈوں، یورپی یونین یورو اور سعودی عر ب ریالوں کی بارش جاری رکھے۔ کوئی ہمیں آئینہ دیکھانے کی جسارت نہ کرے کیونکہ اس سے ہماری مملکت خداداد کی حاکمیت اعلیٰ متاثر ہوجاتی ہے۔کوئی یہ سوال نہیں اٹھتاہے کہ اگر ہم اپنی عادات واطوار بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر دنیاسے مدد مانگنے کی کیا منطق ہے؟
ہمیں دنیا میں اپنے امیج کی کوئی فکر نہیں ہے اس لیے حکومت ،حزب اختلاف اور مذہبی جماعتیں سب مل جل کر پاکستان کے مفادات اور ساکھ کے ساتھ کھیل کھیل رہی ہیں۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے طرزعمل کو تبدیل کرلیں ۔زمینی حقائق کو تسلیم کریں ۔اپنے نظام کی اصلاح کریں اور کاسہ گدائی لے کر دربدر گھومنے کا کاروبار چھوڑ دیں۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved