اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔18-02-2011

دہلی کیا سوچتاہے ؟
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
ہفتہ رفتہ میں پاک بھارت مذاکرات کی بحالی پر دہلی میں ملا جلا ردعمل دیکھنے میں ملا۔دونوں ممالک کی قیادت اور سول سوسائٹی میں ایک دوسرے کے بابت گہرے تحفظات اور خدشات پائے جاتے ہیںلیکن اس کے باوجود کسی بھی قابل ذکر شخصیت یا جماعت نے مذاکرات کی بحالی کی مخالفت نہیں کی جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے ۔ گزشتہ ایک برس میںپاکستان نے بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے حوالے سے دوٹوک موقف اپنایا ۔اسلام آباد نے ہر اس تجویز کو مسترد کیا جس میں کشمیر جیسے بنیادی موضوع کو زیربحث لائے بغیر دیگر ایشوز پر گفتگو کرنے کے لیے کہاجاتا تھا۔چنانچہ بھارت کو شدت سے احساس ہوا ہے کہ گزشتہ دوبرسوں میں ممبئی حملوں کو ایشو بنا کر وہ پاکستان کو عالمی سطح پر جس تنہائی کا شکار کرنا چاہتاتھا وہ مقصد پورا نہیں ہوسکا ۔علاوہ ازیں اسلام آباد اور دہلی کے مابین تناﺅ کے باعث پاکستان میں بھارت سے تعلقات کی بحالی میں دلچسپی دم توڑرہی تھی کیونکہ ہر کسی کا خیال تھا کہ یہ بیل منڈے چڑنے والی نہیں ہے۔ امریکہ بھی مسلسل بھارت پر دباﺅ ڈال رہا تھا کہ وہ مذاکرات بحال کر ے کیونکہ پاک بھارت کشیدگی افغانستان میں اس کے مفادات کو متاثر کررہی ہے۔
مذاکرات بحالی ہوچکے ہیں اور لگ بھگ وہی پیڑن اختیار کیا گیا ہے جو جامع مذاکرات کے دوران تھا یعنی پہلے سیکڑٹریز کے مابین مذاکرات ہونگے ۔پھر سیکرٹری خارجہ مکمل ہونے والے روانڈ زکا جائزہ لیں گے اور آخر میں دونوں ممالک کے وزراءخارجہ۔ ہفتہ رفتہ کے دوران دہلی میں ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض سے جانے کا موقع ملا۔جہاں درجنوں افراد سے ملاقاتوں اور گفتگوکے باوجود یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ بھارت جموں وکشمیر کا مدعا کیسے حل کرنا چاہتا ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دورحکومت میں کیے جانے والے اقدمات کی بھرپور ستائش کی جاتی ہے۔یہ تاثر بھی عام ہے کہ بھارت نے اس موقع سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔ تاہم وہ اب بھی انہیں بنیادوں پر مزید پیش رفت کا آزومند ہے جن پر ممبئی حملوں سے ماقبل اسلام آباد اور دہلی کے خفیہ مذاکرات کاروں کے مابین اتفاق رائے ہوا تھا۔
بھارتیوں کو احساس ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میںانہیں نہایت ہی خطرناک چیلنج درپیش ہے۔گزشتہ برس پورے چھ ماہ تک سری نگر میدان کارزار کا منظر پیش کرتارہا۔غالب امکان ہے کہ اگلے چند ماہ بعد یہ منظر دوبارہ دہرایا جانے والا ہے۔انٹراکشمیر ڈائیلاگ کے پہلے سیشن میں محبوبہ مفتی نے برملا کہا کہ ریاستی فورسز نے کشمیری نوجوانوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ہزاروں نوجوانوں کو معمولی نوعیت کے مقدمات میں سخت سزائیں دی جارہی ہیں۔سری نگر سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت نے عمر عبداللہ کے سینئر وزیر عبدالرحیم راتھر کی موجودگی میں کہا کہ سیکورٹی فورسز نوجوانوں کو دھڑادھڑا کالے قانون کے تحت دودو برس کے لیے جیل بھیجوارہی ہیںلیکن اگر انہیں پچاس ہزارروپے کا نذرانہ پیش کردیا جائے تو مقدمہ خارج ہوجاتاہے۔ا س پس منظر میں اکثر تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ کشمیر میںکسی بھی وقت احتجاج کی زبردست لہر اٹھ سکتی ہے جو مصر میں ہونے والے مظاہروں کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔
یہ سوال بڑی شدت سے پوچھا جاتاہے کہ کیا پاکستان جامع مذاکرات کے دوران کی جانے والی پیش رفت کو آگے بڑھانے چاہتاہے یا پھر نئے ایشوز اٹھانا چاہتاہے۔پاکستانی فوج یا آئی ایس آئی کشمیر کے معاملات پر کیا حکمت عملی اختیار کرنے جارہی ہے ؟یہ وہ سوال ہے جو دہلی میں عمومی طور پر ہر محفل میں زیربحث آتاہے۔جنرل اشفاق پروپزکیانی کے بابت خیال کیا جاتاہے کہ وہ پرویز مشرف کے برعکس سخت گیر سودے باز ہیں۔انہوں نے امریکیوں سے اپنی مرضی کی شرائط منوائی ہیں اور بے پناہ دباﺅ کے باوجود قبائلی علاقہ جات میں جاری فوجی آپریشن میں توسیع نہیں کی۔اسی طرح مثال دی جاتی ہے کہ انہوں نے کشمیر کے معاملات پر بھی صدر آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی کو کوئی پہل قدمی نہیں کرنے دی بلکہ ممبئی کے بعد بھارت کے تئیں نسبتاًسخت رویہ اختیار کیے رکھا ہے۔
اس پس منظر میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔انہیں مذاکرات کے پورے عمل میں شریک کیاجائے جس طرح پرویز مشرف نے جنرل کیانی کو بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی بیک چینل میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رکھا اور انہیں مشاورت کے عمل سے باہر نہیں کیا اسی طرح موجود ہ مذاکراتی عمل کی بحالی کے بعد فوج ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی اہم جماعتوں بالخصوص میاں محمد نواز شریف کو پورے عمل میں شریک رکھا جاناچاہیے۔کیونکہ جب تک بھارت اور پاکستان دونوں میں تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کے مابین اہم معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہوگا اس وقت تک مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
بھارتی دانشور اور پالیسی ساز افراد عمومی طور پر یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا خود شکار ہوا ہے اور افغانستان کے امور میں سنجیدگی سے طالبان کے خلاف کارروئیوں میں مصروف ہے لیکن وہ بھارت میں لشکر طیبہ سمیت دیگر گروپوں کی سرپرستی کرتاہے۔چنانچہ بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں جو بھی کوئی پرتشدد واقعہ ہوتا ہے یا مستقبل میں ہوگا اس سے پاکستان کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتاہے۔بھارتیوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ اہل پاکستان خود دہشت گردوں کے ہاتھوں کس قدر ستائے گئے ہیں ۔وہ پرامن سیاسی جدوجہد کی تو حمایت کرتے ہیں لیکن پرتشددکارروائیوں کی اب پاکستان میں سرکاری اور عوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ہے۔لیکن بھارتیوں کی سوئی ابھی تک 1990ءکی دہائی میں اٹکی ہوئی ہے جب ریاست اس طرح کے اقدامات کی سرپرستی کرتی تھی۔
بھارتیوں سے مکالمے کے بعد یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ انہیں پاکستان کے نئے زمینی حقائق کا کم ہی ادراک ہے۔آزاد پریس ،عدلیہ اور سول سوسائٹی نے پاکستان کے روایتی نظام کو تہہ بالا کردیاہے۔جس طرح امریکی شہری ریمیڈ ڈیوڈ کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے اور تمام تر امریکی دباﺅ نہ صرف غیر موثر ثابت ہوا ہے بلکہ وہ ریمیڈڈیوڈکی رہائی کو مزید مشکل بنا رہاہے۔ان نئے زمینی حقائق کو امریکا کی طرح بھارت بھی پوری طرح ہضم نہیں کررہاہے۔حقیقت یہ ہے کہ دہلی اور اسلام آباد نے مذاکرات کا عمل تو بحال کردیا ہے لیکن دونوں ممالک کی قیادت پوری واضح نہیں ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کو کیا سمت دے گی۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved