اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔25-02-2011

بھارت نئے پاکستان سے بے خبر ہے؟
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
بھارت میں عام شہریوں سے بات کریں یا پھر اسٹرٹیجک کمیونٹی سے یہ تاثر یقین میں بدل جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی رجحانات اور ابھرتے ہوئے نئے زمینی حقائق سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔پاکستان کے تئیں بھارتی رائے عامہ بنانے اور بگاڑنے میں ذرائع ابلاغ بنیادی کردار ادا کرتے ہیںچونکہ اسلام آباد اور دہلی براہ راست خبریں اور تجزیئے حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خبرنگاروںکو رسائی نہیں دیتے ہیں اس لیے ان کا زیادہ تر انحصار سرکاری سچ پر ہی ہوتاہے۔ بھارتی ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات پاکستان کو ایک کمزور اور ڈوبتے ہوئے ملک کے طور پر پیش کرتے ہیں۔وہ مغربی ممالک میں چھپنے والے تجزیوں کوہی نمک مرچ لگا کر مقامی ٹکسال میں ڈھال کر پیش کردیتے ہیں۔
کم ہی لوگوں کو ادراک ہے کہ آج کا پاکستان درجنوںخطرناک بحرانوںکے باوجود اپناسفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستانی محض گزشتہ ایک عشرے میں کئی ایک تباہ کن قدرتی آفات کا مردانہ وارمقابلہ کرچکے ہے۔زلزلہ،سیلاب ،محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ، دہشت گردی کے خلاف جنگ،بھارت کے ساتھ مسلسل محاذآرائی اور امریکا کے ساتھ ناہموار تعلقات جو بسا اوقات کشیدگی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، کے باوجود پاکستان نہ صرف قائم رہا ہے بلکہ اس نے گزشتہ کچھ عرصے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ کامیابیاں بھی حاصل کیں ہیں۔ علاوہ ازیں سیاسی منظر نامہ میں کشیدگی اور تناﺅ کی فضا بھی حیرت انگیر حد تک قابل برداشت رہی ہے جو سیاسی قیادت کی بلوغت کی عکاسی کرتی ہے۔سیاسی اور معاشی بحرانوں کے شکار پاکستانیوں نے حیرت انگیز طور پر اس ماحول میں جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔
بھارت میں مغرب کی طرح پاکستانی قدامت پسندوں،اعتدال پسندوں اور لبرلز کے مابین جاری نظریاتی اور سیاسی کشمکش کو غیر معروضی انداز میں دیکھاجاتاہے بالخصوص جماعت الدعوہٰ کی سرگرمیوں اور بڑتے ہوئے اثرونفوذ کو نمایاں کرکے بیان کیا جاتاہے ۔ حافظ محمد سعید اور جماعت کے دیگر مرکزی رہنماﺅں کی ہر سرگرمی کو نہایت سنجیدگی سے لیاجاتاہے۔کئی موقعوں پر عرض کیا کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی حافظ سعید ترجمانی نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ ایک چھوٹی سی جماعت کے سربراہ ہیں جس کا دائرہ کار اس قدر محدود ہے کہ شاید وہ انتخابات میں ایک نشست بھی حاصل نہ کرپائے۔
علاوہ ازیں حالیہ برسوں میں پاکستانی سوسائٹی میں دہشت گردی اور بالخصوص سیاسی مقاصد کے لیے تشدد کے بطور ہتھیار استعمال کے خلاف ایک وسیع البنیاد اتفاق رائے جنم لے چکا ہے اب کیفیت یہ ہے کہ طالبان کے مربی اور حمایتی بھی ان کا نام لینا گوارہ نہیں کرتے ہیں ۔دہشت گردی کے حوالے سے تبدیل شدہ عوامی سوچ کے گہرے اثرات جماعت الدعوہٰ پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔اسی پس منظر میں اب جماعت الدعوہٰ تیزی سے سماجی اور مذہبی سیاسی تنظیم کی شکل اختیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔پاکستان نے کشمیر میں گزشتہ برس چلنے والی پرامن سیاسی تحریک کو نہ صرف خوشگوار قراردیا ہے بلکہ اس تحریک کی ہر سطح پر پذیرائی بھی کی گئی ہے۔جو اس امر کا اظہار ہے کہ پاکستان تنازعات کے حل کے لیے سیاسی رائیں تلاش کرنے کی جانب گامز ن ہے۔پاکستان میں اختلاف فکر ونظر اس کی کمزوری نہیں رفتہ رفتہ اس کی طاقت بنتا جارہاہے۔اس پہلو کو غیر ملکی تجزیہ کار اکثر نظرانداز کردیتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستانی عدالتوں نے بے مثال آزادی حاصل کی ہے ۔اب ملک کے طاقتور ترین افراد بھی جرائم کرتے ہوئے دس مرتبہ سوچتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کی آزادی اور سول سوسائٹی کی مشترکہ جدوجہد نے پاکستان میں کئی ایک روایات کو بدل دیا ہے۔بھارت کی سیاسی قیادت اور پالیسی ساز حلقوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ آج کے پاکستان میں حکومت کے لیے رائے عامہ کی خواہشات کے برعکس کوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہا ہے ۔پاکستانی اقتدار کی تکون کا ہر ستون رائے عامہ کی طاقت سے گھبراتاہے ۔اقتدار پر فائز کوئی بھی فریق ا یسا قدم نہیں اٹھانا چاہتاہے جس کی اسے بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑے۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات اقتدار کی اس تکون کا ایک ستو ن دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جنہیں بھارتی پالیسی ساز تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ہیں بلکہ وہ اب بھی اقتدار کا منبع جنرل ہینڈکواٹرزراولپنڈی اور آئی ایس آئی ہی کو تصور کرتے ہیں۔یہی وہ پس منظر ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت اور اسٹبلشمنٹ پاکستان کی منتخب حکومت کے ساتھ مذاکرات میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی ہے بلکہ وہ وہ فوج اور آئی ایس آئی کے رجحانات جاننے اور ان پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنے کی رائیں تلاش کرتی ہے۔اسی لیے ٹریک ٹو میں گزشتہ کچھ عرصے سے یہ تجاویز پیش کی جارہی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی فوجی قیادت اور سراغ رساں ایجنسیوں کے مابین مذاکرات کی رائیں تلاش کی جائیں۔بظاہر اس تجویز میں کوئی قباعت نہیں ہے لیکن یہ پاکستانی رائے عامہ میں ابھرتی ہوئے اس خواہش سے متصادم ہے کہ جمہوری اور منتخب حکومت کو تمام داخلی اور خارجی امور پر بالادستی حاصل ہونی چاہیے۔علاوہ ازیں بھارتی فوج اور سراغ رساں ادارے تو اپنے ہر اقدام کے لیے اپنی حکومت اور پارلی منٹ کوجواب دہ ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں ابھی یہ روایت پختہ ہونے میں وقت لگے گا۔اس تناظر میں شاید ہی یہ تجویز اسلام آباد میں پذیرائی حاصل کرسکے۔
پاکستانی اور بھارتی شہریوں کے مابین براہ راست مکالمے اور تبادلہ خیال کے سارے راستے بند ہیں اس لیے میڈیا اور سرکار باہم مل کر جو بھی پاکستانی امیج کھڑتے ہیں وہی پاکستان کی تصویر بن جاتی ہے۔جہاں تک پاکستان کا دورہ کرنے والے بھارتی شہریوں کا تعلق ہے وہ پاکستانیوں کی مہمان نوازی اور دوستانہ رویہ کی ہر محفل میں تحسین کرتے ہیں۔مروجہ تاثر کے برعکس ایک مختلف اور مثبت تصور لے کر بھارت جاتے ہیں۔
اگر سیاسی اختلافات اور تنازعات کو برقراررکھتے ہوئے دونوں ممالک کے عوام کو غیر سرکاری سطح پر باہم مکالمے اور سیاخت کے موقع دستیاب ہوں تو ایک دوسرے کے تئیں بہتر تفہیم پیدا ہوسکتی ہے یہ عمل بعد ازاں سیاسی مسائل کے حل میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر دونوں ممالک کے سفارت کاراخبارات کی کلپنگ اور ٹی وی ٹاک شوز کے تبصروں میں بھگاری جانے والی دانش کو بنیاد بنا کر پالیسی بنانے کا موجودہ عمل جاری رکھیں گے۔جو شاید ہی دونوں ممالک کے تعلقات کو نیا رخ اختیار کرنے دے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved