اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔04-03-2011

شہباز بھٹی کا قتل کیوں؟
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
شہباز بھٹی کو قتل کرکے یہ پیغام دیا گیاہے کہ مضبوط حفاطتی حصارکے باوجود دہشت گردوں کے ہاتھوں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اگرچہ دہشت گردوں کی سیکورٹی فورسز پر حملے کرنے اور کسی علاقے پر قبضہ کرنے کی صلاحیت غیر موثر بنائی جاچکی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے پاس یہ صلاحیت ضرور موجود ہے کہ وہ کسی بھی ہائی پروفائل ہدف کو نشانہ بنا کر پاکستان کا بہتر ہوتاہوا امیج خاک میں ملا سکتے ہیں ۔اس طرح وہ کامیابی سے پاکستان کو عالمی نقشے پر ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرتے ہیں جو نہ صرف بدامنی کا شکار ہے بلکہ مسلسل تباہی کی جانب لڑھک رہاہے۔دوسری جانب وہ پاکستانی سیکورٹی فورسز پر بھی اپنا دباﺅ برقراررکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مسلسل حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے مقابلے کی صلاحیت کھو دیں ۔ خزانے پر امن وامان برقرار رکھنے کے عنوان سے جو بے محابا اخراجات ہورہے ہیں ان میں بھی کوئی کمی نہ آئے تاکہ پاکستان کی ابتراقتصادی حالت مزید خراب ہوتی رہے۔
پاکستان میں دہشت گردوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے اب وہ کئی نظر نہیں آتے ہیں ۔وہ اجتماع کرتے ہیں اور نہ کھلے عام بیانات جاری کرتے ہیں۔بلکہ وہ ان حساس ایشوز پر اپنی سیاست چمکاتے ہیں جو عوامی جذبات سے قریب تر ہیں ۔مثال کے طور پر توہین رسالت کے نام پرگورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد احتجاج کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا حالانکہ وفاقی وزیرقانون بابراعوان سمیت پوری حکومت مسلسل یقین دہائیاں کرارہی تھی کہ وہ اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کررہے ہیں۔اب شہباز بھٹی کے قتل کا بھی مقصد عوامی جذبات کو بھڑکانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔شہباز بھٹی کے قتل کا ایک پہلو یہ بھی کہ پاکستان کی عیسائی آبادی کو خوف زدہ کیا جاسکے۔
سلمان تاثیر کے قتل کے بعد جس طرح حکمران جماعت اور دیگر سیاسی قیادت نے خاموشی اختیار کی اس نے شہباز بھٹی کے قتل کے لیے راستہ ہموار کیا۔اگر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد حکومت اور سیاسی قیادت دوٹوک موقف اختیار کرتی اور کہتی کہ سیاسی اور مذہبی اختلافات کو بندوق کے ذریعے نمٹانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے تو ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔آج اگر شہباز بھٹی کے قتل کو بھی خاموشی کے ساتھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا گیا تو کل مزید سیاسی قتل برداشت کرنا ہوںگے۔کیونکہ ہرسیاسی قتل دوسرے قتل کی راہ ہموار کرتاہے۔
مسئلہ شہباز بھٹی کی ذات کا ہے اور نہ ہی مسئلہ ان چند بندوق برداروں کاہے جو سرعام خون ناحق بہاتے ہیں۔اصل مسئلہ اس مائیڈ سیٹ کا ہے جو طاقت کے ذریعے اپنے مخالفین کو کچلنا چاہتاہے۔اس طرزعمل کا پرچار کرنے والے افراد اور جماعتوں کے خلاف اعتدال پسند سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں کو مشترکہ طور پرمعرکہ آراہونا ہوگا ۔ابھی تک ہمارے معاشرے نے ایسے افراد اور جماعتوں کا معاشرتی مقاطع نہیںکیا ہے جو شرانگیز تحریروں اور تقریروں کے ذریعے زمین پر فساد برپا کیے ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ایسی کوششوں کا اہتمام نہیں کیا جاسکا ہے جو انتہاپسندی کی لہر کا نظریاتی محاذ پر مقابلہ کرتی اور انہیں پسپا کرتی ۔لوگوں کو جہاد اور قتال میں موجود فرق سمجھایاجاتا۔ جہادکے تصور کو غلط طور پر متعارف کرایا گیا ہے اس نے پاکستانیوں کی ایک پوری نسل کے ذہنوں کو بری مسموم کردیا ہے ۔حتیٰ کہ وہ کسی بھی مسئلہ کا پرامن حل تلاش کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کے پاس ایسے مردان کار ہی نہیں ہیں جو طویل المعیاد حکمت عملی مرتب کرسکتے ہوں ۔ ایسے اقدامات تجویز کرتے جن پر عمل درآمد سے اگلے چند برسوں میں پاکستان ترکی کے طرز پرایک اعتدال پسند اسلامی اور فلاحی ریاست کی شکل میں ابھرتا۔موجودہ حکومت کو روزمرہ کے سیاسی چیلنجز سے نبردآزما ہونے سے ہی فرصت نہیں ملتی لہٰذا اس سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ پاکستان کوموجودہ بحران سے نکال سکے گی۔لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہم مایوس ہوں۔اپنی ذات اور کاروبار کے تحفظ کے لیے بیرون ملک ہجرت کرجائیں۔بلکہ ہمیں بیروکار آنا ہوگا اور دہشت گردی کے منہ روز گھوڑے کو نکیل ڈالناہوگی۔
شہباز بھٹی کے قتل کو معمول کا ایک حادثہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے ۔یہ محض پیپلزپارٹی کے ایک وفاقی وزیر یا کسی عیسائی رہنما کا قتل نہیں ہے بلکہ اعتدال پسنداور امن پسندپاکستانیوں کو روندنے اور ایسے نظریات کو بالادست کرنے کی ایک کوشش ہے جس کا اسلام اور پاکستان کی تاریخ اور روایات سے کوئی تال میل نہیں ہے۔لہٰذا ہرسطح پر اس قتل کی مذمت کی جانی چاہیے۔عیسائی برادری سے خصوصی طور پر اظہار یکجہتی کیاجانا چاہیے۔بالخصوص مذہبی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کی کارروائیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو کیونکہ وہ عناصر جو آج بندوق لے کر اقلیتوں یا سیاسی مخالفین کی جان کے درپے ہیں وہ اسلام کے مقدس نام پر یہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔لہٰذا اگرانہیں مذہبی قیادت مسترد کردے تو اس کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ ان عناصر نے نہ صرف پاکستان کو بدنام کیا ہے بلکہ نوجوان نسل میں اسلام کے تئیں بھی گہری بے یقینی پیدا کی ہے کیونکہ یہ بندوق بردار محافظین اسلام اور پاکستان کے طور پر اپنی شناخت کراتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کی نہ صرف مذہبی جماعتیں موجودہ بحران میں قائدانہ کر دار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ اعتدال پسند قیادت بھی بالخصوص میاں نوازشریف اور عمران خان بھی دائیں بازو کی امکانی حمایت کی خاطر کسی بھی قسم کی پوزیشن لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ان حالات میں یہ ذمہ داری صرف نوجوانوں کی ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف جرات کے ساتھ سامنے آئیںاور انہیں کھل کر چیلنج کریں۔بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب رائے عامہ کو کامیابی سے دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتاہے ۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ ایسے افراد کو معاشرے میں اچھوت بنایا جاسکے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved