اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-03-2011

اچھی ا ور بری خبریں
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

دوپاکستانیوں کے قتل میں ملوث امریکی شہری ریمنڈیوڈس کو جس طرح آنافاناًرہا کیا گیا اس نے تمام پاکستانیوں کو دکھی کردیا ہے۔احتجاج ،مظاہرے اور مایوسی کا اظہار ہورہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی بار عوام کی نظر میں سیاسی اور عسکری قیادت بیک وقت گندی ہوئی ہے۔پنجاب کی حکومت بھی پوری طرح اپنا دامن نہیں بچا پائی ہے۔ ورثا کے وکیل کو پورے معاملے سے باہر رکھا گیا ۔ریمنڈ کی رہائی کے بعد ورثاجس طرح منظر سے غائب ہوگئے اس نے بھی کئی ایک شکوک وشہبات کو جنم دیا ہے۔مختصر یہ کہا جاسکتاہے کہ اس سارے معاملے کئی بھی شفافیت کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ ریمنڈ کوئی عام امریکی شہری نہیں ہے بلکہ سی آئی اسے کا ملازم ہے ۔اس کی رہائی کے لیے امریکی حکومت کی بیتابی کا یہ عالم تھاکہ امریکی صدر بارک حسین اوباما بھی میدان میں کودپڑے اور ریمنڈ کو سفارت کار قراردے کر اس کی رہائی کا مطالبہ داغ دیا ۔بعدازاں خود مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ بھانڈا پھوڑا کہ وہ سفارت کار نہیں بلکہ ایک سراغ رساں ادارے کا اہلکار ہے جو لاہور میں جماعت الدعوہٰ اور لشکرطیبہ کے بابت ¿ معلومات جمع کرنے کرنے پر معمور تھا۔
ایک غیر ملکی سفارت سے ایک مجلس میں گفتگو ہوئی تو عرض کیا کہ وہ کیوں توقع کرتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو انصاف کے تقاضے پورے کیے بنا رہا کردیا جائے۔اس نے بڑی چونکا دینے ولاجواب دیا۔کہنے لگا کہ اگر پاکستان کے بالادست طبقات کی ماورقانون حرکات پر کوئی گرفت نہیں کی جاتی ہے تو ریمنڈ کو کس جرم کی سزا دی جائے۔ پاکستان کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے اور یہ معلوم ہے کہ بھکاریوں کو اپنی منشا کے مطابق فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔اس لیے ریمنڈ کی رہائی پر کوئی حیر ت نہیں ہوئی ہے۔لیکن اگر حکومت اس واقعے سے سبق سیکھے اور آئندہ اس طرح کے واقعات کو رونماہونے سے روکنے کا انتظام کرلے تو یہ بھی غنیمت ہوگا۔
پاکستان سے ملنے والی خبریں اور تجزیئے کم ہی خوشگوار ہوتے ہیں تاہم حالیہ چند ماہ کے دوران مسلسل ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو امید کا دیا روشن کردیتے ہیں۔سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کی احاطہ عدالت سے گرفتاری اور اخبارات میں چھپنے والی ان کی بے بسی کی تصویر نے یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میںانصاف کا نظام مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہونا شروع ہوچکا ہے اور اب بڑی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اسی نوعیت کے دواور مقدمات بھی عوامی دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں۔چودھری پرویز الہٰی کے فرزند چودھری مونس الہٰی بدعنوانی کے ایک مقدمے میں پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔انہیں جس طرح عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا رہاہے اس نے چودھری شجاعت حسین اور پرویزالہٰی کی سیاست کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔احتساب سے خوفزدہ چودھری اپنی کھال بچانے کی خاطر اپنے روایتی حریف پیپلزپارٹی سے تعاون کرنے پر مجبور چکے ہیں۔دوسری جانب جج کرپشن کیس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے فرزند عبدالقادر گیلانی کے گرد بھی گھیرا تنگ ہورہاہے۔علاوہ ازیں ایف آئی اے یہ تحقیق بھی کررہی ہے کہ انہوں نے کس طرح دوبئی سے بلٹ پروف چیپ درآمد کی جبکہ ان کے اکاونٹس میں اتنی رقم موجود نہیں تھی۔
ایک زمانہ تھا جب خفیہ ایجنسیوں کے نام سے لوگ خوف کھاتے تھے اور ان کے ماوراءقانون اقدامات کے خلاف کارروائی کرنا درکنار ان پر انگلی اٹھانا کا تصور پر بھی محال تھا لیکن جس طرح سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمات میں ۔سراغ رساں اداروں کو رگڑا لگا یا۔اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ آج کل ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیںکیونکہ انہوں نے نیشنل انشورنش کمپنی میں ہونے والی بدعنوانی میں ملوث ایک ملزم کو پناہ دی تھی جبکہ نیب کے سربراہ دیدار حسین شاہ کی محض اس لیے چھٹی کردی گئی کہ ان کی بھرتی میں قوائد وضوبطہ نذرانداز کردیئے گئے تھے۔سپریم کورٹ نے سرکاری خرچ پر حج کرنے والے افراد جن میں صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے کو تمام اخراجات واپس سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
جو ایک خوشگوار پیش رفت ہے جسے ہر سطح پر سراہایا جانا چاہیے کیونکہ صحافی کوئی آسمانی مخلوق نہیں جو قانون سے بالاتر ہوں۔
ذرائع ابلاغ نے یہ عوام کو کم ہی یہ بتانے کی زحمت گوارہ کی کہ میثاق جمہوریت کے مطابق پارلی منٹ نے قائدحزب اختلاف چودھری نثار علی خان کی سربراہی میں پبلک اکاونٹس کمیٹی قائم کی گئی جس نے حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔گزشتہ تین برسوں میں اس کمیٹی نے نہ صرف بدعنوانی کے مختلف مقدمات میں ملوث افراد کی نشاندہی کی بلکہ ان سے68ارب روپے کی خطیر رقم بھی واپس حاصل کی۔یاد رہے کہ چودھری نثار علی خان نیب کے سربراہ ہیں اور نہ ہی اس کمیٹی نے انٹی کرپشن ڈیپارئمنٹ کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔لیکن اس کے باوجود چند افراد کی کوششوں سے قومی خزانے میں لوٹی ہوئی بہت بڑی رقم واپس آگئی۔چودھری نثار علی اور کمیٹی کے دیگر ارکان بھی سیاستدانوں کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بابت صبح وشام نت نئے قصے سامنے آتے رہتے ہیں۔
پاکستانیوں میں پائی جانے والی مایوسی کے اسباب تلاش کیے جائیں تو سرکارکی سرپرستی میں ہونے والی بدعنوانیوں ، کمزور عدالتی نظام کے باعث احتساب کا نہ ہونااور داخلی معاملات میں حد سے بڑی ہوئی غیر ملکی مداخلت سرفہرست نظرآتی ہے۔ان عوامل نے عام شہریوں کو ملک کے مستقبل سے مایوس کردیا ہے۔انہیں ملک ڈوبٹا ہوا نظر آتاہے۔لیکن اگر حامدسعید کاظمی، مونس الہٰی اور عبدالقادر گیلانی مجرم ثابت ہوجاتے ہیں اور عدالتوں انہیںسزا سناتیں ہیں تو نہ صرف عام پاکستانیوں کا اپنی ریاست پر اعتماد بحال ہوناشروع ہوگا بلکہ یہ مقدمات پاکستان کا امیج بھی بدل سکتے ہیں۔
امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن پید ا کرکے قومی وقار کو بھی بحال کیا جاسکتاہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ رفتہ رفتہ بیرون ملک سیاستدانوں، سابق فوجیوں اور سرکاری افسروں کے اثاثوںاور بینک اکاﺅنٹس پر بھی ہاتھ ڈالا جائے۔بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت کی لوٹی ہوئی دولت کو دوسرے ممالک سے واپس لانے کے اقدامات کریں گے۔پاکستانی سپریم کورٹ کو چاہیے کہ بھارت کی جانب سے اس ضمن میں اٹھانے جانے والے اقدامات کا مشاہدہ کرے تاکہ انہیں نظیر بناکر وہ بھی پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لاسکے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved