اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔01-04-2011

کرکٹ اور میڈیا کا غیرذمہ دارانہ طرزعمل
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
اگرچہ پاکستانی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن تمام تر کمزوریوں کے باوجود پاکستانی کھیلاڑیوں نے حریف ٹیم کا جم کر مقابلہ کیا۔قطع نظر فتح اور شکست کے یہ تلخ حقیقت بھی ہمارے سامنے آئی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے غیر ذمہ داران طرزعمل کے سبب کرکٹ میچ کو دونوں ممالک کے مابین دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکا۔انڈین ایکسپریس جیسے موقر اخبارنے اپنی ایک رپورٹ میں اس کرکٹ میچ کو جنگوں کی ماں قراردیا۔جذبات کو بھڑکایا گیاحتیٰ کہ کئی ایک عرب ممالک میں پاکستانی اور بھارتی شہریوں کو الگ تھلگ کردیا گیا تاکہ کسی بھی ممکنہ تصادم سے بچا جاسکے۔جموں اور سری نگرکے کئی علاقوں میں دفعہ 144کا نفاذ کیا گیا ۔ جذبات بھڑکانے کے اس کھیل میںدانستہ اور نادانستہ ہر ادارہ اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالتا رہا۔مثال کے طور پرجب یہ طے ہوگیا کہ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین سیمی فائنل کھیلا جانا ہے تو امن کی آشا کے علمبردار اخباری گروپ نے سرخی جمائی ©''سیمی فائنل میں پاک بھارت جنگ ہوگی'' حالانکہ یہ مقابلہ گیارہ پاکستانی اور گیارہ بھارتی کھیلاڑیوں کے مابین تھا نہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر کھیل کو سیاست کی عینک سے نہ دکھاجاتا اور نہ ہی اسے ہندو مسلم تنازعہ یا قومی وقار اور عزت کے سوال میں تبدیل کیا جاتا۔ کھیل کو عداوت کے بجائے دوستی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے۔
بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی غرض سے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو میچ دینے کی دعوت دی ۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات کے مطابق من موہن سنگھ بھارت میں ایک ایسی شخصیت ہیں جو پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے مثبت انداز فکر رکھتے ہیں ۔انہیں اپنے لچک دار رویئے کی بدولت کانگریس کے اندر بھی سخت مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔دو برس قبل امریکی سفیر نے اپنے خفیہ مراسلے میں اپنی حکومت کو آگاہ کیاتھا کہ بھارتی وزیراعظم کو پاکستان کے معاملے میں اپنے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر تک کی بھی حمایت دستیاب نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود من موہن سنگھ نے گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور کشمیر کے الجھے ہوئے مسئلہ کے حل کے لیے راستہ نکالنے کی کوشش کی۔
یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ بھارتی نظام حکومت ہی نہیں بلکہ کسی بھی جمہوری ملک میں اکیلا وزیراعظم یا چند ایک بااثر شخصیات کوئی فیصلہ نہیں سکتی ہیں بلکہ انہیں دیگر اسٹیک ہولڈر کو بھی شریک فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ من موہن سنگھ مقبول عوامی رہنما نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کانگریس پر مکمل گرفت رکھتے ہیں ۔اس لیے ان کی مجبوریاں زیادہ اورمسائل طے کرانے کی استعداد کارکم ہے۔اگر دونوں ممالک کی قیادت ایک دوسرے کی مجبوریوں کو مدنظر رکھے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے تو مسائل اور تنازعات کو طے کر نا آسان ہو سکتاہے۔اس سلسلے میں پرویزمشرف کے وقت میں بیک چینل نے مذاکرتی عمل کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اب دوبرس چار ماہ بعد جب اعلیٰ سطحی رابطے بحال ہوئے ہیں تو بیک چینل کا کردار پہلے کے مقابلے میں گنا بڑھ گیا ہے ۔
پاک امریکا تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی پاکستان کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار کررہی ہے۔ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے نتیجے میں ہونے والے انکشافات سے یہ اندازہ کرنا آسان ہوجاتاہے کہ پاکستانی سراغ رساں اداروں اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے مابین نہ صرف بداعتمادی پائی جاتی ہے بلکہ شدید کشیدگی بھی موجود ہے۔پاکستان میں امریکیوں کی نقل وحرکت پر اگرچہ بظاہر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔گیا وہ وقت جب امریکی اور مغربی ممالک کے سفارت کار ان کے بھیس میں خفیہ اہلکار اپنی من مانیاں کرتے تھے۔اب ان کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا ہی دشوار ہوگیاہے۔
امریکا اور مغربی ممالک آسانی سے پاکستان میں اپنی سرگرمیاں محدود نہیں کرنے والے نہیں ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کے گرد حصار تنگ ہورہا ہے۔اس پس منظر میں اگر پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں بہتری آئے ، مسائل حل ہوں یا کم از کم دشمنی کی سطح قابل قبول حد تک آجائے تو اسلام آباد کی واشنگٹن میں سودے بازی کی پوزیشن بہتر ہوجاتی ہے،کیونکہ بھارت کی جانب سے سلامتی کو لاحق خطرات کی بدولت اسلام آباد ہر وقت واشنگٹن کے سامنے بے بس رہتاہے۔
اگرچہ پاکستان کئی ایک مشکلات سے گزررہا ہے لیکن حیرت انگیز طور پرپاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے کئی ایک امور پر بالخصوص امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات جیسے نازک مسائل پر یکساں موقف اختیارکرلیاہے۔ماضی کے برعکس پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت فوج کے ساتھ خوشگوار تعلقات کار قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اسے بھارت کے ساتھ مسائل طے کرنے میں عسکری قیادت کی جانب سے کسی مزاحمت کا امکان نہیں ہے۔اس کے برعکس بھارتی فوج کی قیادت جو بدعنوانی کے پے درپے سیکنڈلز میں ملوث ہونے کی بدولت بری طرح بدنام ہوئی ہے ۔ اپنی ساکھ کی بہتری کے لیے پاکستان کے بابت سخت گیر موقف اختیار کررہی ہے۔
حالیہ چند ماہ کے دوران جب بھی بھارتی حکومت نے کشمیر میں کالے قوانین کے خاتمے یا فورسز میں کمی کی کسی تجویز پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی تو بھارتی فوج سد راہ بن گئی،لیکن بھارت کی سیاسی قیادت کو احساس ہے کہ کشمیر کے اندر کسی بھی وقت ازسرنو عوامی مزاحمت تحریک اٹھ کھڑی ہوسکتی ہے۔گزشتہ تین برسوں سے مسلسل پرامن احتجاجی مظاہروں نے کشمیریوں کے تئیں عالمی سطح پرہمدردی کی ایک لہر اٹھائی ہے۔تیونس اور مصر میں کامیاب عوامی انقلاب نے عالمی برادری کے لیے یہ مشکل بنا دیا ہے کہ وہ مصریوں کی آوز پر لبیک کہے لیکن کشمیریوں کو نظر انداز کردے۔اس امکانی منظرنامے نے بھارت کے حکمت کار وں کی نیندیں اڑادی ہیں ۔وہ جلد ازجلد ایسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں جو کشمیریوں کے لیے امید کے دئیے روشن کرسکے۔یہ ایک سنہری موقع ہے جس سے اسلام آباد کو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved