اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔08-04-2011

چین بھارت سرد جنگ کے نئے محاذ
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
بھارت اور چین کے مابین جاری سرد جنگ میں بسا اوقات اچانک شدت آجاتی ہے جو مبصرین کو حیرت زدہ کردیتی ہے کیونکہ بظاہر دونوں ممالک کے درمیان کوئی ایسا تنازعہ نہیں ہے جو سیاسی تناﺅ پیدا کرنے کا سبب بنتاہو لیکن اس کے باوجود دہلی اور بیجنگ کے مابین تعلقات میں سردمہری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس کا اظہار چند دن قبل بھارتی نادرن آرمی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل کے ٹی پرنیک کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان سے بھی ہوتاہے۔انہوں نے جموں میں ایک سیمی نار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور بالخصوص گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں چین کے تعاون سے تعمیر کیے جانے والے انفراسٹرکچر پر گہر ی تشویش ہے کیونکہ یہ سرگرمیاں لائن آف کنٹرول کے نواحی علاقوں میں ہورہی ہیں۔انہوں نے چین کی خطے میں موجودگی کو بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیا ہے۔ جنوبی ایشائی امورکے معروف امریکی ماہر سلیگ ہیرسن چند ماہ قبل نیویارک ٹائمز میں لگ بھگ انہی خطوط پر ایک مضمون لکھ چکے ہیںبلکہ انہوں نے یہ تک لکھ دیا ہے کہ گلگت بلتستان میں دس ہزار چینی فوجی ہیں۔اب جنرل پرنیک آزادکشمیر میں بھی چینی فوج کی موجودگی کی شوشہ چھوڑرہے ہیں۔
دوسری جانب اسلام آبادمیں تعینات چینی سفیر لیوجیان نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز کے زیر اہتمام ایک سیمی نار سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں اپنی سرکاری پالیسی کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک مقبوضہ جموں وکشمیر کے شہریوں کو سادہ کاغذ پر ویزہ جاری کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھے گاکیونکہ جموں وکشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ برس ایک سینئر بھارتی جنرل کو چین کا ویزہ محض اس لیے جاری کرنے سے انکار کردیا گیاتھا کہ وہ ان دنوں مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات تھے۔ جس پر بھارت میں شدید احتجاج ہوا لیکن بیجنگ نے سنی ان سنی کردی۔
ایک طرف بھارت کی پریشانی کا یہ عالم ہے کہ وہ پاک چین تعلقات اور بالخصوص چین کی طرف سے گلگت بلتستان میں جاری انفراسڑکچر دولپمنٹ کے خلاف سفارتی ہی نہیں بلکہ اب عسکری سطح پر بھی بیان بازی پر اتر آیا تو دوسری طرف پاکستان کے اپنے حکومتی اداروں کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سیاسی قیادت کی کوششوں سے جن منصوبوں پر پیش رفت ہوتی ہے وہ ان کے راستہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔غالباًاسی رویہ کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ چین اور پاکستان کے مابین مفاہمت کی ان گنت دستاویزات پر دستخط ہوئے ہیں لیکن عمل درآمد محض چند ایک پر ہی ہوسکا ہے۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے چینی قیادت سے درخواست کرکے پن بجلی پیدا کرنے کرنے والی ایک معروف کمپنی چائنا واٹر اینڈ الیکڑک کارپوریشن کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے تھے۔
اس کمپنی سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ آزادکشمیر میں کوہالہ اور گلگت میں بونجی کے مقامات پر پاکستان کے لیے پن بجلی کے دوڈیم تعمیر کرے۔طے پایا کہ چینی کمپنی کوہالہ ڈیم تعمیر کرو،استعمال اور حوالے کرو کے اصول پر تعمیرکرے گی جو تیس برس بعد حکومت آزادکشمیر کے حوالے کردیا جائے گا۔11سو میگاواٹ کے اس منصوبے پر دوارب 60کروڑ ڈالر کی لاگت آنی ہے جو تمام کی تمام چینی کمپنی اپنے ذرائع سے پورے کرے گی۔اس منصوبے پر چینی کمپنی نے ابتدائی کام بھی شروع کردیا تھا کہ اچانک واپڈا حکام قوائد وضوابط کی خلاف ورزی کی ایک لمبی داستان لے آئے۔کہا گیا کہ ان منصوبوں کو بغیرکسی عالمی مسابقتی بولی کے چینی کمپنی کے حوالے کردیا گیا ہے جو غلط ہے۔ واپڈا چاہتا ہے کہ چینی کمپنی اسے 51فیصد حصص کا شراکت دار بنائے یا پھر عالمی بولی میں یہ منصوبہ حاصل کرے۔علاوہ ازیں واپڈا اس منصوبے کو سرکاری وسائل سے بھی مکمل کرنے پر بھی زور دے رہا ہے۔اس طرزعمل کے سبب غالب امکان ہے کہ یہ دونوں منصوبے کٹھائی میں پڑسکتے ہیں۔
ممکن ہے کہ واپڈا کے اعتراضات میں وزن ہو لیکن چند ایک وجوہات کی بنا پر انہیں درخوداعتنا سمجھا نہیں جاسکتاہے ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ سرکار کے پاس انتے مالی وسائل ہی نہیں ہیں کہ وہ کوئی بڑا منصوبہ خود سے شروع کرسکے۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت دیوالیہ ہوچکی ہے اور قرض پر چل رہی ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ آزادکشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جہاں بیرونی ممالک یا عالمی مالیاتی ادارے کوئی بھی منصوبہ اپنے وسائل سے تعمیر کرنے اور اسے آئی پی پی کے طور پر چلانے کے رودار نہیں ہیں۔وہ اس طرح کے کسی منصوبے کو تعمیرکرکے دے سکتے ہیں لیکن اس میں اپنی گرہ سے سرمایا کاری نہیں کریں گے۔علاوہ ازیں اگر پاکستان کوہالہ پراجیکٹ جلدازجلد مکمل نہیں کرتاہے تو بھارت کشن کنگا مکمل کرلے گا یوں اس پانی کے حصول کے فارمولے کے مطابق زیادہ حقوق حاصل ہوجائیں گے اور پاکستان سراسر خسارے میں رہے گا۔
آخری پہلو جس کی طرف توجہ مرکوز رہنی چاہیے وہ ہے پاکستان میں جاری توانائی کا بحران۔بجلی اور تیل کی قیمتوںمیں ہونے والے مسلسل اضافے نے عام لوگوں کی اجیرن بنادی ہے وہ ان عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے کے لیے بے تاب ہیں جو موجودہ جمہوری نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔یہ موقع نہیں ہے کہ پاکستان کسی لمبے پراسیس میں الجھے اور وقت ضائع ہوتا رہے، بلکہ وقت آگیا ہے کہ جنگی بنیادوں پر توانائی کے بحران پر قابو پانے کی حکمت عملی اختیار کی جائے ۔علاوہ ازیں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی حساس جغرافیائی نوعیت کے باوجود چینی خطرات مول لے سکتے ہیں اور بھارتی دباﺅ کا مقابلہ کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں ۔
پاکستان کو چین اور بھارت کے مابین ابھرتی ہوئی مخاصمت پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔اگر چہ موجودہ تناﺅ سے کوئی زیادہ توقعات نہیں باندھی جاسکتی ہیں کہ چین پاکستان کے لیے ستارے توڑ لائے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ چین تیزی کے ساتھ جموں وکشمیر کے سیاسی پہلو پر ایک پوزیشن لیتا جارہاہے۔جو بھارت کے لیے ناپسندیدہ ہی نہیں بلکہ باعث حیرت بھی ہے۔چین کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کا زیادہ گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان اپنے لیے درست راہ کا تعین کرسکے۔بھارت چینی فوج کی آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں موجودگی کا شوشہ چھوڑکر دونوں ممالک پر دباﺅ اور مغربی ممالک کی ہمددریاں حاصل کرنا چاہتاہے جو بھارت کو چین کے مدمقابل کے طور پر ابھارنا چاہتے ہیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved