اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔17-04-2011

جنرل پاشا کا دورہ واشنگٹن
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
لیفٹیننٹ جنرل احمدشجاع پاشا آئی ایس آئی کے پہلے سربراہ نہیں ہیں جنہوں نے واشنگٹن کادورہ کیا ہو لیکن جس سطح پر ان کے دورے کی میڈیا کوریج ہوئی ہے اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بڑی تیزی سے تناﺅ پید ا ہوا۔ سراغ رساں اور عسکری اداروں کے مابین تعلقات نہ صرف منجمند ہوئے بلکہ سیاسی سطح پر بھی کشیدگی پیدا ہوئی جس کا اظہار امریکی کانگریس کی کارروائیوں میں بھی ہوا۔امریکا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے سہ فریقی مذاکرات تک منسوخ کردیئے گئے۔اس پس منظر میں جنرل باشا کے دورے کا دنیا بھر میں نہایت دلچسپی سے جائزہ لیا گیا۔جنرل پاشا واشنگٹن میں نہ صرف اپنے ہم منصب لیون پینٹاسے ملے ہیں بلکہ امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل ائیک مولن سے بھی ان کی ملاقات ہوئی تاکہ پاکستانی خدشات اور تحفظات کا کوئی حل تلاش کیا جاسکے۔
جنرل پاشا کے دورے کے مقاصد بڑے واضح تھے کہ امریکی خفیہ ادارے پاکستان کے اندر اپنی سرگرمیاں محدود کریں ۔وہ جو کوئی بھی کارروائی کریں اس کی سرکاری سطح پر اجازت لیں۔ آئی ایس آئی کے علم میں لائے بنا کوئی سرگرمی نہ کریں۔چالیس سے پچاس فیصد کے قریب اپنے سفارتی عملے کو واپس بلالے۔علاوہ ازیں اسلام آباد چاہتا ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کو جنوبی وزیرستان تک محدود رکھے اور یہ حملے بھی پاکستانی اداروں کی فراہم کردہ اطلاعات اور منتخب کردہ اہداف پر کیے جائیں نہ کہ اپنی مرضی سے اہداف کا انتخاب کیاجائے۔لگ بھگ یہی مطالبات جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 22فروری کو عمان میں امریکی افواج کی قیادت سے ایک ملاقات میں کیا تھا۔باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس ملاقات سے پہلے ہی سی آئی اے اپنے تمام کنٹریکٹ ملازمیں کو واپس بلاچکی ہے جبکہ باقی رفتہ رفتہ رخصت ہوتے جائیں گے۔
اگرچہ پاکستانی اور امریکی فوج کے مابین عشروں پر محیط تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے ۔پاکستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں نشیب وفراز آتے رہے ہیں لیکن فوجی قیادتوں کے درمیان نہ صرف تعلقات ہموار رہے ہیں بلکہ امریکا میں پنٹاگان کو اسٹیٹ ڈیپارئمنٹ کے برعکس ہمیشہ پاکستان نواز قراردیا جاتا ہے۔لیکن گزشتہ چند برسوں سے افغانستان میں متضاد ترجیحات کی بدولت دونوں ممالک کے خفیہ اداروں بالخصوص سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان بیک وقت دوستی اور رقابت کے تعلقات رہے ہیں۔کئی ایک امور میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کیالیکن جہاں بھارتی اور پاکستانی مفادات میں ٹکراﺅ پیدا ہوا وہاں امریکیوں نے پاکستانی خدشات کو بالاطاق رکھتے ہوئے بھارتی مفادات کو ترجیح دی جس دونوں ممالک کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ میں بے اعتمادی پیدا ہوئی۔
جنرل پرویز مشرف کے عہد میں امریکا کوپاکستان کے اندر غیر معمول حد تک رسائی دی گئی جس سے فائدہ اٹھاکر سی آئی اے نے صرف پورے ملک میں اپنا نٹ ورک قائم کیا بلکہ پوری دنیا میں سی آئی اے کا سب سے بڑا اسٹیشن اسلام آباد میں قائم ہوگیا۔رفتہ رفتہ بے پناہ وسائل اور سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر امریکیوں نے مقررہ حدوں کو پامال کیا اور ان معاملات میں بھی دخل اندازی شروع کردی جس کا افغانستان یا دہشت گردی کی جنگ سے کوئی تعلق نہ تھا تو دونوں ممالک کے خفیہ اداروں کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی۔خود امریکی اداروں نے اعتراف کیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور میں جماعت الدعوہٰ اور لشکرطیبہ کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے مشن پر معمور تھا۔عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے پاکستان مخالف ماحول پیدا کیا گیا۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ لشکر طیبہ اب کشمیر کے محاذ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے بجائے افغانستان اور مغربی ممالک میں ٹھکانے تلا ش کررہی ہے تاکہ اہم اہداف کو نشانہ بناسکے۔دلچسپ بات یہ ہے جنرل پاشا پر امریکا کی ایک عدالت میں ممبئی حملوں میں آئی ایس آئی کے بطور ادارے لشکرطیبہ کو تربیت فراہم کرنے کا ایک کیس بھی زیرسماعت ہے۔آج کل بڑی شدت سے کہا جاتاہے کہ لشکر طیبہ عالمی برادری کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں کام کرنے والا عام سارپورٹر بھی جانتا ہے کہ لشکر طیبہ کا مرکزی ایجنڈا کشمیر ہے ۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے لوگوں کو افغانستان میں الجھنے دیا نہ ہی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کی حمایت کی لیکن امریکی اخبارات اور تھینک ٹینکس اسے القاعدہ کے ٹکر کی تنظیم بنا کر پیش کرنے پر مضر ہیں۔
ڈرون حملوں کے بے دریع استعمال نے بھی پاکستان کی سالمیت پر کئی ایک سوالیہ نشان لگائے کیونکہ ان کے آپریشنز کے بابت کسی کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں اور نہ ہی وہ پاکستانی اداروں کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔بے گناہ پاکستانی شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں نے بھی امریکا مخالف ماحول جنم دیا ہے۔اس پس منظر میںریمنڈڈیوس کا کیس پاکستانی اداروں کے لیے نعمت غیر مرتقبہ ثابت ہوا جس کو بنیاد بنا کر پاکستان کی عسکری قیادت نے امریکی خفیہ اداروں کی غیر معمولی سرگرمیوں کو لگا م دینے کی کوشش کی ہے۔گزشتہ چند ماہ کے دوران کسی حد تک امریکیوں کی سرگرمیوں کو محدود کیا گیا ہے جو کہ پاکستانی نقطہ نظر سے ایک مثبت پیش رفت ہے۔
امریکیوں کو شاید ادراک نہیں ہے کہ وہ پاکستان پر جس قدر زیادہ ڈرون حملے کریں گے پاکستانی رائے عامہ ان کی مخالف ہوتی جائے گی۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ امریکا کے تئیں نرم رویہ اختیار کریں۔اس کا اظہار شہباز شریف اور الطاف حسین کی جانب سے ڈورن حملو ں کی مذمت ہوتا ہے۔پاکستان میں شاید ہی کوئی ادارے امریکا کے ساتھ تصادم کی پالیسی اپنانے کی وکالت کرتا ہو لیکن پاکستانیوں کی یہ خواہش ضرور ہے کہ امریکا کے ساتھ آبرومندانہ تعلقات قائم ہوں ۔ایسا ماحول بنایا جائے جہاںپاکستانیوں کی عزت نفس بھی مجروع نہ ہو اور امریکا جب چاہیے پاکستان کو قربانی کا بکرانہ بنا سکے۔ پاکستان کو اپنی جیو اسٹرجیک محل وقوقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا سے ایک متوازن تعلقات استوار کرنے کے موجودہ موقع کو کھونا نہیں چاہیے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved