اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔22-04-2011

مائیک مولن کا دورہ پاکستان : ایک جائزہ
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
چیئرمین آف جائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن جن کے بارے میںعام پر کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ میں پاکستان کے بابت نرم گوشہ رکھنے والی شخصیت ہیں۔وہ بائیس مرتبہ پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور جو جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ بہترین ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات رکھنے کی بھی شہرت رکھتے ہیںنے اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران جن خیالات کا اظہار کیا ان کے بعد ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے کہ اگلے چند ماہ تک پاک امریکا تعلقات میں بہتری آسکے۔ مائیک مولن نے تین ایشوز اٹھائے جن پر وہ پاکستان کوفوری طور پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔پہلا الزام یہ ہے کہ پاکستان کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات ہیں ۔دوم ،پاکستانی اسٹبلشمنٹ لشکر طیبہ کی حمایت کرتی ہے جو اب بھارت ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔سوئم ، پاکستان فوری طور پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرے ۔
یہ تھے امریکی مطالبات ،اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے کیا جوابی مطالبات ہیں۔پاکستان چاہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاک امریکا تعلقات کی ترجیحات اور سطح کا ازسر نو تعین کیا جائے۔خاص طور پر پاکستان کے اندر امریکا اپنی مداخلت بند نہیں تو محدود کردے۔ اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار صرف افغانستان تک محدود رکھے۔ حکومت ڈرون حملوں کو شمالی وزیرستان تک محدود رکھنا چاہتی ہے ۔وہاں بھی جب کوئی ہائی پروفائل ہدف نشانے پر ہوتو حملہ کیا جائے اور پاکستان کے ساتھ اطلاعات کا تبادلہ ہو۔ پاکستان کے تئیں یکطرفہ پروپیگنڈا بند اور باوقار لب ولہجہ اختیار کیا جائے کیونکہ پاکستانی رائے عامہ ڈکٹیشن سن سن کر ردعمل کی کیفیت سے دوچار ہوچکی ہے۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ یہ مطالبات محض ایک ناٹک ہیں جو درحقیقت مزید فوجی اور معاشی امداد اینٹھنے کی خاطر کیے جارہے ہیں۔اس لیے سی آئی اے تمام تر مطالبات کے باوجود ڈرون حملوں میں کمی کے لیے تیار نہیں ہوئی ہے۔اسی تناظر میں مائیک مولن نے بھی پاکستان کی طویل المدت معاشی امدادجاری رکھنے کا تذکرہ کیاہے جبکہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پہلے ہی پاکستان کو مختلف شعبوں میں مزیدامداد دینے کا وعدہ کرچکے ہیں۔اس طرح کے اعلانات کا مقصد پاکستانی حکومت اور فوج کے طرزعمل میں لچک پیدا کرانا ہے۔ پاکستان کو راہ راست پر لانے کی کوششوں میںایک اور دلچسپ رجحان بھی دیکھنے کو ملا ۔ سرکردہ امریکی رہنماﺅں نے اپنی حکومت کو صلاح دی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مزید گہرے تعلقات استوار کریںتاکہ پاکستان کو بھارت کے ذریعے سبق سیکھایا جاسکے۔یہ جو اچانک لشکر طیبہ کی کہانی بہت نمایا ں کرکے پیش کی جارہی ہے اس کے پس منظر میں بھی یہ نکتہ کارفرما ہے کہ پاکستان پر واشنگٹن اور دہلی مل کر دباﺅ ڈالیں۔علاوہ ازیں واشنگٹن پاکستان پر دباﺅ جاری رکھنے کے لیے کانگریس اور اپنے ذرائع ابلاغ کا بھی بھرپور استعمال کررہا ہے۔
جوابی چال کے طور پروزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھارت کرکٹ میچ دیکھنے گئے جس سے دونوں ممالک میں پائی جانے والی کشیدگی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے جبکہ یوسف رضا گیلانی ، جنرل کیانی او رشجاع پاشا کا مشترکہ دورے کابل ایک حیرت انگیز سیاسی اور سفارتی پہل قدمی تھی جس کی داد دی جانی چاہیے۔ان دنوں دوروں نے وقتی طور پر پاکستان کوعلائی سطح پر دباﺅ سے نکلنے میں مدد دی ہے۔امریکا کے سامنے پاکستان کی سودے بازی کی پوزیشن بھی بہتر ہوئی ہے۔علاوہ ازیںپاکستانی اسٹبلشمنٹ پاکستان میں ڈورن حملوں اور ڈیوڈریمنڈ کے کیس نتیجے میں ابھرنے والے امریکا مخالف جذبات کو واشنگٹن کو خوف زدہ کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمدشہباز شریف نے حالیہ چند ہفتوں کے دوران ڈرون حملوں کے حوالے سے سخت لب ولہجہ اختیارکرتے ہوئے پیشکش کی ہے کہ وہ ڈرون حملو ں کے خلاف لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ان کی تقریر کے تسلسل میں جناب چودھری نثار علی خان کی قیادت میں مسلم لیگی ارکان اسمبلی نے قومی اسمبلی سے بائیکاٹ بھی کیا۔دوسری جانب تحریک انصاف پشاور میں ان حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کرچکی ہے۔جس میں کئی ایک سیاسی اورسماجی جماعتیں کے علاوہ سول سوسائٹی کے افراد بھی شریک ہورہے ہیں۔پاکستان میں ڈورن حملوں کے خلاف عوامی جذبات کا یہ عالم ہے کہ مذہبی ہی نہیں بلکہ ایم کیوایم اورعوامی نیشنل پارٹی جیسی لبرل جماعتیں بھی سراپااحتجاج ہیں۔شہباز شریف کے بیانات نے سیاسی جماعتوں کے مابین تند وتیز امریکا مخالف بیانات جاری کرنے کا ایک مقابلہ پیدا کردیا ہے حتیٰ کہ خبیرپختون خوا کی اسمبلی نے بھی ایک قرارد اد مذمت پاس کردی ہے۔آئی ایس آئی کے سربرہ شجاع احمدپاشا نے اپنے حالیہ دورہ امریکا میں سی آئی اے کے سربراہ سمیت دیگر حکام کو یہی نقطہ باور کرانے کی کوشش کی لیکن ان کی سنی ان سنی کردی گئی بلکہ ان کے دورے کے اختتام پر ڈرون حملہ کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستانی احتجاج کی کوئی اہمیت نہیںہے۔
آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے مابین دوستانہ فائرنگ اب باقائدہ دونوں ممالک کی فوجی قیادت کے درمیان شدید تناﺅ کا باعث بھی بن چکی ہے۔اگر ڈورن حملے جاری رہے یا سی آئی اے کا کوئی اہلکار کسی غیر ذمہ دارانہ حرکت کے دوران پکڑا گیا تو معاملات بے قابو بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ جس طرح عوامی جذبات کو ہوا دی گئی ہے وہ دن دور نہیں کہ لوگ پشاور سے خیبر تک کی شاہرہ پر دھرنا دینا جمع ہوجائیں گے۔یقینی طور پر انہیں کوئی روکنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوگا کیونکہ خیبر پختون خوا اور پنجاب کی حکومتیں خود ایسا ماحول پیدا کررہی ہیں۔
یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ وہ موجودہ کشمکش سے باہر نکلنے اور معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے کوئی درمیانی راستہ اختیار کریں جس میں کسی کی ناک نہ کٹے۔امریکا کو پاکستان میں بھرپا ہونے والی داخلی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا احساس کرنا چاہیے۔آج کا پاکستان پرویز مشرف کے پاکستان سے بلکل مختلف ہے یہاں ایک مخلوط جمہوری حکومت ہے جو رائے عامہ کے جذبات کو دیر تک نظر نہیں کرسکتی ہے۔سال ڈیڑھ میں انتخابات کا بگل بجنے والا ہے ۔سیاسی جماعتیں انتخابی کامیابی کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گی خواہ اس کے سیاسی نقصانات کتنے ہی گھمبیر کیوں نہ ہوں۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved