اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔04-05-2011

عمران خان سے عوام کا رومانس
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

پشاورکے کامیاب جلسے نے عمران خان کو پاکستانی قوم پرستوں کا ابھرتا ہوا ہیرو بنادیا ہی۔وہ جرات کے ساتھ پاکستان کے معاملات میں غیر ملکی مداخلت کی مزاحمت اورداخلی سطح پر بدعنوانیوں کو بے نقاب کرتاہے ۔عمران کے طرز استدلائل اور جرات گفتار نے اسے نوجوان پاکستانیوں میںحیرت انگیز طور پر مقبول بنادیاہے بالخصوص ٹاک شوز کے میزبانوں کی وہ محبوبہبن چکا ہی۔ ذرائع ابلاغ میں آنے والے حالیہ پھیلائو نے قوم پرستی کے دبے ہوئے جذبات کو خوب ابھارہ ہی۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں غیر ملکی امداد اور سازگار حالات نے بھی ملک میں متوسط طبقہ کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا تھا جو اب قومی امور میں اپنی رائے کو نہ صرف غالب ہوتا دیکھنا چاہتاہے بلکہ یہ طبقہ قومی غیرت اور حمیت کو سیاست اور خارجہ پالیسی میںاساسی ستون کے طور پر اختیار کرنے کی چرچاکرتاہی۔متوسط اور کاروباری حلقہ روایتی طور پر نواز شریف کا حمایتی رہا ہے لیکن اب انہیں عمران خان کی شکل میں نیا ہیرو نظر آرہاہے جو جرات مند بھی ہے اور عوام کے ساتھ پشاور کی سڑکوں پر رات بھی گزار سکتاہی۔
نواز شریف پاکستانی قوم پرستوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کا اندازہ نہیں کرپائے رہے ہیں جنہیں دن رات الیکٹرانک میڈیا شہ دے رہاہے ۔انہیں ادارک ہی نہیں ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اور بدلتے ہوئے عالمی سیاسی کلچر نے پاکستانی سماج مکمل طور پر بدل دیا ہی۔یہاں مصلحت پسند اور طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے برعکس جرات مند ،چیلنج کرنے والے اور امریکا مخالف شخصیات کی پذیرائی کا ایک رجحان پیدا ہوچکا ہی۔عمران خان اپنی سیاسی عمارت انہی جذبات پر اٹھارہاہی۔عمران خان کے پشاور والے جلسے میں کرائے کے سامعین نہ تھے بلکہ یہ ایسے پاکستانیوں کا اجتماع تھا جو بیک وقت مذہب اورقوم پرستی کے جذبات سے سرشار تھی۔
عمران خان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے احتجاج کے لیے داخلی سطح پر سازگار حالات بھی دستیاب ہیں۔ایک طرف عوام ڈرون حملوں کے خلاف بھپرے ہوئے ہیں تو دوسری طرف امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین جاری کشیدگی نہ صرف جاری ہے بلکہ قرائن سے اندازہ ہوتاہے کہ اگلے چند ماہ تک اس میں مزید شدت آتی جائے گی ۔وکی لیکس کے حالیہ انکشافات کے مطابق امریکی آئی ایس آئی کو دہشت گرد تنظیم قراردیتے ہیں جبکہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے خلاف امریکی ایک عدالت میں پہلے ہی ایک مقدمہ زیر سماعت ہی۔علاوہ ازیںڈرون حملوں پر دوغلی پالیسی اختیار کی گئی جس کی بدولت عوام کی نظر میں حکومت اور عسکری قیادت اپنی ساکھ کھوچکی ہی۔مثال کے طور پر وکی لیکس کے مطابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار سے کہا کہ ان کی حکومت ڈورن حملوں کے خلاف احتجاج جاری رکھے گی ا ور وہ حملے جاری رکھیں۔کچھ عرصہ قبل پاک آرمی کے میجر جنرل غیورمحمود نے اپنی ایک گفتگو میں ڈرون حملوں کو دہشت گردوں کے خلاف کارگر ہتھیار قراردیا تھا ۔اس طرزعمل نے بھی عمران خان کو سنہری موقع دیا کہ وہ عوامی جذبات کا رخ مقتدرحلقوں کی جانب موڑدی۔
پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا افغانستان سے رخصت سے قبل کوئی ایسا انتظام کرے جس میں اسکے مفادات محفوظ ہوں اور امریکی پاکستانی شہروں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں جاسوسی کا نیٹ ورک بند کردیں۔لیکن واشنگٹن نے پاکستان کی سنی ان سنی کرکے سیاسی اور عسکری قیادت کو عوام کی نظروں میں بے توقیر کردیا ہی۔لہٰذا آئی ایس آئی اور فوج غضب ناک ہے لیکن اسے کوئی احتجاج کا کوئی محفوظ راستہ نظر نہیں آتاہے ۔صرف پاکستان کی سڑکوں پر ہونے والا احتجاج ہی واشنگٹن میں اس کی سودے بازی کی پوزیشن بہتر بناسکتاہے ۔ امریکا مخالف رائے عامہ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ امریکا کو خوف زدہ کرنا چاہتی ہے کہ اگرا س کی شرائط قبول نہ کیں تو بے لچک اور سخت گیر موقف رکھنے والے عناصر اسلام آباد میں پالیسی سازی کے موجودہ عمل پر حاوی ہوجائیں گی۔اس تناظرمیں عمران خان کو ایک متبادل قیادت کے طور پر ابھارا جارہاہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے مابین کوئی معاہدہ ہوچکاہی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ دونوں آج کی تاریخ میں ایک طرح سوچ رہے ہیں لیکن دونوں کے اہداف اور منزل مختلف ہی۔
اسٹبلشمنٹ عمران کو نواز شریف کو دبائو میں رکھنے کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتی ہے کیونکہ دونوں کا حلقہ انتخاب ہی نہیںبلکہ لگ بھگ ووٹر اور حمایتی بھی یکساںہی۔نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک بے لچک سیاستدان ہیں جنہیں ادراک ہی نہیں کہ تاریخ کا پہیہ گھوم چکا ہی۔پرویز مشرف کو رخصت ہوئے مدت ہوئی اب ان کا ملکی سیاست میں کوئی کردار ہے اور نہ واپسی کا کوئی امکان ۔فوج جس نے نواز شریف کو بے دخل کیا تھا اب پرویز مشرف کے وفادار ساتھیوں سے خالی ہوتی جارہی ہی۔ حالیہ چند برسوں میںہونے والی ترقیوں ،تبادلوں اور ریٹائرمنٹ نے فوجی قیادت کی ہیت ہی بدل ڈالی ہے لیکن میاں نواز شریف ماضی کو فراموش کرنے پر رضا مند نہیں ہیں ۔لہٰذا اسٹبلشمنٹ کے پاس پیپلزپارٹی کی حکومت کے متبادل کوئی سیاسی قوت ہی نہیں ہے جس کو سہارہ دے کر کھڑا کیا جاسکی۔
3 قومی سطح پر سیاسی منظر نامہ بھی نئی نئی کروٹیں لے رہا ہی۔ اسٹبلشمنٹ کی بیساکھی مسلم لیگ (ق) مشرف بہ پیپلزپارٹی ہوچکی ہے ۔مونس الہٰی کی جیل یاترااور مالیاتی بدعنونیوں نے چودھریوں کے ماتھے پر کلنک کا جو ٹیکہ لگا یاہے وہ پیپلزپارٹی کی بینڈ ویگن پر سوار ہونے سے دھل نہیں سکے گا ۔ چھوٹے صوبوں کی مانگ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ بڑی نمایاں شخصیات اور جماعتیں بھی نئے صوبوں کی تخلیق کی حمایت کررہی ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اگلے چند برسوں میں اقتدار کے موجودہ مراکز بدل جائیں گی۔نئے چہرے اور علاقائی سیاسی شخصیات ابھریںسکتی ہیں۔
اس پس منظر میں فطری طور پر لوگوں کی نظریں عمران خان کی طرف اٹھتی ہیں جو اعتدال پسند پاکستان کی تعمیر کا جذبہ رکھتا ہی۔بدعنوانی کا کوئی داغ دھبہ اس کے دامن پر نہیں لگا لیکن جیسا کہ کہا جاتاہے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔تحریک انصاف کی تنظیم کمزور ہے اور اس کے پاس موثر سیاسی شخصیات کی کمی ہے جو انتخابی حلقوں میں سیاسی اثر ورسوخ رکھتے ہوں۔ذرائع ابلاغ تحریک انصاف اور عمران خان کو فیاصی سے کوریخ دیتے ہیں لیکن عمران خان کے علاوہ کوئی چہرہ ہی نہیں جو تحریک انصاف کو پیغام کو عام کرسکی۔اس کے باوجود لوگوں کا عمران خان کے ساتھ رومانس بڑھ رہا ہی۔رومانس کے لیے کسی جوازیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہی۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved