اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔16-05-2011

نواز شریف کا صائب موقف
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود

مسلم لیگ (ن )کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے ابیٹ آباد کے واقعے کے حوالے سے قومی امنگوں کے عین مطابق موقف اختیار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس پورے واقعے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ حقائق قوم کے سامنے پیش کیے جاسکیں۔ کوتاہی کے مرتکب افراد کا تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ اس قسم کے حادثات سے بچا جاسکے۔اسی کے نتیجے میں عالمی برادری میں بھی پاکستان کا امیج کسی حد بہتر ہوسکتاہے اور قوم کو بھی مایوسی کی گہری کھائی سے نکالا جاسکتاہے۔
ہفتے رفتہ کے واقعات سے بخوبی قیاس کیا جاسکتاہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے اثرات تادیر پاکستان کے سیاسی اور سماجی منظر نامہ پر چھائے رہیں گے۔اس واقعے نے نہ صرف داخلی سیاست کو زیروزبر کردیا ہے بلکہ پاک امریکا تعلقات میںبداعتمادی اور ایک دوسرے کے بابت شکوک وشہبات کی ایک فصل کاشت کردی ہے جسے کاٹنے کے لیے عشرے درکار ہوں گے۔اب طویل عرصہ تک دونوں ممالک کے مابین تعلقات کوپہلے والی سطح پربحال کرنا ممکن نظر نہیں آتاہے۔خاص کر رائے عامہ میں امریکا مخالف جذبات کا یہ عالم ہے کہ لوگ امریکا کے تئیں کوئی معقول بات بھی سننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے بتایا کہ اگر اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں امریکا سے معمول کے تعلقات جاری رکھنے اور موجودہ روابطہ کو برقرار رکھنے کے نقطہ نظر کی حمایت کی جائے تو سینئر سرکاری افسر بھی حیرت اور شک کے ساتھ چہرے کی جانب دیکھتے ہیںجسے کوئی غیر معمولی بات کی جاری ہے۔
داخلی طور پر پہلی بار فوج اور آئی ایس آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔عسکری اور سیاسی قیادت یکساں طور پر دنیا ہی نہیں بلکہ اپنے عوام کا سامنا کرنے سے بھی کترا رہی ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی پوری پوری کوششیں کررہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے سی آئی اے اور آئی ایس آئی میں زیردست کشمکش جاری تھی جس میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب امریکی سی آئی اے کی ایجنٹ ریمنڈ ڈیو نے دو پاکستانیوں کو لاہور میں ہلاک کیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں افراد ڈاکو نہیں بلکہ سرکاری اہلکار تھے، جو ریمنڈ کی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ڈیوڈ کو نہ صرف کئی ہفتوں تک جیل کی ہوا کھانا پڑی بلکہ سی آئی اے کے اسٹیشن چیف سمیت کئی ایک اہلکاروں کو ریمنڈ کے ساتھ ہی ملک نکلنا پڑا۔اسی کشمکش میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ رونما ہواجس نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعویٰ اور امیج کی قلعی کھول دی ہے۔
سوال یہ ہے کیا پاکستانی فوج اورآئی ایس آئی اس توہین آمیز سلوک کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے یا وہ سازگار موقع کا انتظارکریں گے جب موزوں جواب دیا جاسکے۔اگلے چند ماہ بعدامریکا افغانستان سے انخلاءکا آغاز کردے گا ۔یہ وہ وقت ہوگا جب امریکا کو آئی ایس آئی کی اشد ضرورت ہوگی تاکہ وہ انخلاءکے عمل میں سہولت پیدا کرے ۔ امریکا اور پاکستان کے سلامتی کے امور سے متعلقہ اداروں میں حالیہ واقعات کی بدولت جو خلیج اور بداعتمادی پیدا ہوئی ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ رائے دی جاسکتی ہے کہ موقع ملنے پر ایک دوسرے کو نیچا دیکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
امریکا کی خواہش تھی کہ فوج اورآئی ایس آئی کو سبق سیکھایا جائے لیکن وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضاگیلانی نے نہ صرف دونوں اداروں کا قومی اسمبلی اور سینٹ میں دفاع کیا بلکہ ایک فوجی جنرل کے سربراہی میں تحقیقی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو ظاہر ہے کہ آزادانہ تحقیقات کرے گی اور نہ ہی اس کی اہل ہے۔ایبٹ آباد کے واقعے کے فوری بعد حکومت اور فوج کے تعلقات میں نمایاں دراڑیں پڑی تھیں ۔سینئر صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں عسکری قیادت کی جانب سے برملا یہ کہا گیا کہ حکومت نے کبھی بھی فوج کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے موضوع پر کوئی گفتگو کی اور نہ ہی کوئی پالیسی خطوط مہیا کیے۔دوسری جانب ایبٹ آباد کے واقعے کے بعد چند دنوں تک صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے طرزعمل سے یہ اشارے مل رہے تھے کہ وہ امریکی دباﺅ اور داخلی سطح پر عسکری اداروں کے خلاف اٹھنے والی جذباتی لہر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہم اسٹرٹیجک امور پر منتخب حکومت کی بالادستی کو قائم کرانا چاہتے ہیںلیکن مطلوبہ استعداد ،سیاسی تحرک اور قوت فیصلہ کی کمی کی بدولت حکومت نے خطرات مول نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ یوسف رضا گیلانی کی حالیہ تقریروں اور فوجی قیادت کے دفاع کے ذریعے حکومت اورعسکری قیادت کے مابین اعتماد کی بحالی کی کوشش کی گئی۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے عسکری اور سیاسی حکمت کار امریکا اور عالمی برادری کو ابھی تک یہ باور کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں کہ پاکستان کا خطے میں اور بالخصوص افغانستان میں دائرہ تنگ نہ کیا جائے بلکہ اسے باعزت مقام دیا جائے تاکہ اسے احساس ہوکہ اس کی سلامتی کو کسی بھی جانب سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔افغانستان میںبھارت کے تیزی سے فروغ پذیر اثر ورسوخ کے اسلام آباد پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا تدارک کیا جانا چاہیے جو پاکستان کا جھکاﺅ طالبان کی طرف کرنے کا موجب بنتے ہیں۔طالبان کے ساتھ مذاکرات اور بعد ازاں ان کی حکومت میں شمولیت کی راہ ہموار کرکے پاکستان کے خدشات کو بڑی حد تک رفع کیا جاسکتاہے ۔غالباً اسی پس منظر میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل احمد شجاع پاشا گزشتہ ماہ کابل گئے اور نہوں نے افغان صدر حامد کرزئی کو پاکستان کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
امریکا کی جانب سے امداد روکنے کی دھمکیاں ، صدر بارک اوباما کے دورے کو منسوخ کرنا اور لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی پر اصرار سے پاکستانی نقطہ نظر میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی ہے بلکہ ان اقدامات سے پاکستانی رائے عامہ مزید امریکا مخالف ہوجائے گی جس کے بعد سیاستدانوںیا عسکری اداروں کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ امریکی مطالبات پر کان دھر سکیں۔ پاکستان کو موجودہ بحران سے باہر نکلنے کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔جہاںداخلی سطح پر احتساب اور شدت پسندی کے حوالے سے جاری سرکاری پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے وہاں امریکا کے ساتھ تعلقات کو ایک حد سے زیادہ بگڑنے نہ دینا بھی ترجیح ہونی چاہیے تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہاہونے سے بچایا جاسکے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved