اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔27-05-2011

پاک چین دوستی کا نیا باب
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
چین کے وزیراعظم وین جیا باﺅ نے کہا کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہوجائے چین اور پاکستان ہمیشہ اچھے دوست،اچھے پڑوسی اور اچھے بھائی رہیں گے اور پاکستان کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔آج کل پاکستان جس بحران سے گزررہا ہے ۔ چینی قیادت کے یہ الفاظ کسی غیبی امداد سے کم نہیں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حالیہ بحران کے دوران چین کے سوائے کسی دوسرے ملک نے کھل کر پاکستان کی حمایت نہیں کی۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پیرس گئے تو وہاں ان کے ساتھ ہتک آمیز لب ولہجہ اختیار کیا گیا۔عالمی ذرائع ابلاغ میں کئی بھی ٹھنڈی ہوا نہیں چل رہی ہے بلکہ ہر ایک پا کستان کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔دوسری جانب دہشت گردوں نے پاکستان میں پے درپے حملے شروع کردئیے ہیں اور وہ انتقام لینے کے سربکف ہیں۔
آزمائش کے اس گھڑی میں چین نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کی ستائش کی اور مطالبہ کیا کہ دنیا پاکستان کا ساتھ دے نہ کہ اسے مزید مشکلات کا شکار کرے۔ پاکستانیوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اپنے آپ اس قدر بے بس پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا جتنا وہ دومئی کو ہوئے لیکن چینی قیادت نے پاکستانیوں کے مورال کو بحال کراکر ان کے دل ہمیشہ کے لیے جیت لیے ہیں۔
اگرچہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا دورہ پہلے سے طے شدہ تھا اور اس کا رواںپاک امریکا کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چین کی طرف سے پاکستان کے حق میں اٹھنے والی آواز نہایت ہی بروقت تھی۔پاک چین دوستی کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ بھارت کے ساتھ تناﺅ ہو یا امریکا کے کشیدگی ہر اہم مرحلے پر پاکستانی قیادت نے چین سے مشاورت کی اورانہیںاعتماد میں لیا۔اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے فوری بعد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا چین گئے اور انہوں نے چینی قیادت کے سامنے حقائق بلاکم وکاست بیان کردیئے ۔اسی کے نتیجے میں یہ ممکن ہوا کہ چین نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی۔اس حمایت کی بازگشت پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی جب وزیراعظم گیلانی نے چین کو پاکستان کا سچا اور کھرا دوست قراردیا۔
چین کے ساتھ تمام تر تعلق اور اظہار محبت کے باوجود پاکستان کے مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں زیادہ بگاڑ پیدا نہ ہونے دے بلکہ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ تعلقات میں ایک توازن قائم رکھے۔گزشتہ کئی عشروں سے بھارت کے برعکس پاکستان کی خارجہ پالیسی کے معماروں نے کمال مہارت سے چین کے ساتھ تعلقات کے ساتھ ساتھ امریکا کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو برقراررکھا ہے۔اسی کے نیتجے میں پاکستان بھارت کے مقابلے میں اس خطے میں دفاعی اور سیاسی توازن قائم رکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔اسی پالیسی کو اگلے برسوں میں برقراررکھا جانا چاہیے کیونکہ امریکا کے ساتھ کشید گی کا پاکستان کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتاہے علاوہ ازیں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھی امریکا حمایت مفید ثابت ہوتی ہے اگر پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات الجھے ہوں گے تو وہ پاک بھارت کشیدگی کو ہوا دیتارہے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں بھی کئی ایک حدود ہیں جن کا پاکستانیوں کو ادراک ہوناچاہیے ۔چین کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ ایسا اقدامات کرے جس سے اس کے امریکا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوں۔یا مغربی ممالک میں اسے مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔اسی طرح وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں بھی ایک حد سے زیادہ آگے جانا پسند نہیں کرے گا۔چین اور بھارت کے مابین سیاسی امور پر اختلافات کے علاوہ کئی ایک سرحدی تنازعات بھی پائے جاتے ہیں جن پر چین نے بے لچک پالیسی اپنائی ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک میں تجارت کا جحم مسلسل بڑھ رہا ہے کیونکہ چین کی خارجہ پالیسی کا محور یہ ہے کہ دنیا میں اور بالخصوص خطے میں امن کو فروغ دیا جائے تاکہ اس کی اقتصادی ترقی کے لیے سازگار ماحول فراہم ہو۔دوسری جانب یہ بھی ذہن میں رہے کہ خود امریکا کی اقتصادیات کا انحصار چین کی طرف سے مہیا کیے گئے قرض پر ہے ۔چین یہ نہیں چاہیے گا کہ وہ امریکا کو ناراض کرے۔اس لیے چین کی مجبوریوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔وہ پچاس کی دہائی کا ایک تنہا ملک نہیں ہے بلکہ عالمی طاقت ہے جس کی وجہ سے اسے بین الاقوامی امور میں ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوتاہے۔
پاکستان اور چین کے مابین تیزی سے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بھی یکساں سوچ ابھر رہی ہے جو خطے میںاستحکام پیدا کرنے کے لیے مفیدثابت ہوسکتی ہے کیونکہ چین دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے اجتناب کرتاہے۔اگر وہ افغانستان میں مزیدسرمایا کاری کرے اور افغان عوام کو تجارت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کرے تو پاکستان بھی مطمئن ہوگا لیکن یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چین ، امریکا اور بھارت کے مابین جاری سرد جنگ اور غلط فہمیوں کی ایک طویل تاریخ ہے جو ان تینوں ممالک کو افغانستان میں شاید ہی مثبت کردار ادا کرنے دے تاہم افغان سرزمین پر چینی موجودگی پاکستانی خدشات کو کسی حد تک کم کرسکتی ہے۔غالباً اسی پس منظر میں امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے پہلے دورہ چین میں چینی قیادت سے خطے میں امن واستحکام پیدا کرنے میں معاون کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔
دوسری جانب امریکا پاکستان کو مکمل طور پر تنہا نہیں کرنا چاہے گاکیونکہ اس طرح پاکستان کا انحصار چین پر ہوتا جائے گا وہ اپنی اسلامی شناخت کے احیا کی جانب راغب ہوجائے گا۔پہلے ہی مسلم دنیا میں رائے عامہ امریکا کی مخالف ہے جو چند ایک حکومتیں اس کی حامی یا اس کے زیراثر ہیں انہیں بھی ناراض کرنا کا امریکا خطرہ مول نہیں لینا چاہتاہے۔لیکن امریکا جس طرح سے پاکستان کے ساتھ معاملات چلاتا رہا ہے یا چلانے کا عادی ہے۔اس طرزعمل میں تبدیلی لانے کے لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو بے پناہ محنت کرنا ہوگی۔امریکیوں کو پاکستان کے اندر قائدے اور کلیہ کا پابند بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔وکی لیکس کے انکشافات بھی بڑے کرب انگیز ہیں کہ کس طرح پاکستانی قیادت امریکیوں کے سامنے اپنا حال دل بیان کرتی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس اور اسامہ بن لادن کے واقعہ کے نتیجے میں جو کشیدگی پیدا ہوئی وہ پاکستانی قیادت کو سنہری موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ امریکا کی کاسہ لیسی ترک کرے اور پاک امریکا تعلقات کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور ادارتی بنانے کی کوشش کرے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved