اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔03-06-2011

سیلم شہزاد کا قتل اور آئی ایس آئی کی ذمہ داری
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
معروف صحافی سیدسیلم شہزاد کے قتل نے ذرائع ابلاغ میں خوف اور دہشت کی لہر دوڑا دی ہی۔وہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان اور افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیموں اور ریاستی اداروں کے مابین تال میل جیسے حساس امور پر رپوٹنگ کرتے تھی۔بدقسمتی سے گزشتہ گیارہ برسوں سے پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں کی خبروں اور تجزیوں کا مرکز ومحور ہی شدت پسند گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔ بڑی خبر انہی عناصر کی زیرزمین سرگرمیاں کی جانکاری کی بنیاد پر بنتی ہی۔سلیم شہزاد کا شمار ان چند ایک پاکستانی صحافیوں میں ہوتا تھا جنہوں نے بڑی کامیابی سے شدت پسند گروہوں اور پاکستانی سراغ سراساں اداروں کے ساتھ قریبی روابط استوار کیے تھی۔چنانچہ وہ بڑی اندر کی خبر نکال کرلاتے تھے حتیٰ کہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ الیاس کشمیری کے ساتھ براہ راست رابطہ میں بھی رہے ہیں۔جسے پاکستانی ایجنسیاں مدتوں سے تلاش کررہی ہیں۔
صحافیوںکو خبر کی کھوج اور بعدازاں اس کی تصدیق کے لیے مختلف اداروں اور تنظیموں کے ساتھ رابطہ رکھنا پڑتاہے جو کہ ایک خطرناک کھیل ہے ۔سیلم شہزاد کافی وقت سے یہ کھیل کھیلتے رہے اور بالاخرایک جان کی بازی ہار گئی۔انہیں کس نے اور کیوںقتل کیا؟یہ ایسا معمہ ہے جوشاید عشروں تک حل نہ ہوسکی۔پاکستان میں حادثات کی آزادانہ تحقیقات کی روایت بہت کمزورہے ۔ناکامیوں کی طویل داستان ہے جو لیاقت علی کی شہادت سے شروع ہوتی ہوئی اسامہ بن لادن کی ابیٹ آباد میںموجودگی اور نیوی پر حالیہ حملے تک پھیلی ہوئی ہی۔سیلم شہزاد کے قتل پر بھی چند دن تک رونادھونا ہوتا رہے گا اور پھر انہیں بھی دیگر درجنوں واقعات کی طرح فراموش کردیا جائے گا۔پاکستان میں جس غیر معمولی رفتار سے نت نئے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کے تناظر میںیہ توقع رکھنا کہ تحقیقات ہوں گی اور ان کے نتیجے میں مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا ،سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں ہی۔
تاہم اس واقع نے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے لیے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی مزید مشکل بنادی ہی۔بلوچستان میں وہ پہلے ہی نہیں جاسکتے ہیں۔پشاور کو چھوڑ کر پورا صوبہ خیبر پختوں خوا ممنوع علاقہ بن چکاہی۔ان علاقوں کے مقامی صحافی ترک سکونت کرچکے ہیں کیونکہ شدت پسندوں اور انتظامیہ دونوں نے ان کا جینا حرام کردیا تھا۔غیر ملکی صحافیوں کے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا کاردارد بن چکا ہی۔جن کو ویزا ملتاہے انہیں اسلام آباد، لاہور اور کراچی کا ویزا دیا جاتاہے جہاں غیر ملکی ہی نہیں بلکہ پاکستانی صحافیوں کے لیے بھی کوئی خبر نہیں ہی۔چنانچہ غیر ملکی صحافی جن کے غول کے غول اسلام آباد کے ہوٹلوں میں منڈلاتے نظر آتے تھے وہ دہلی اور کابل میں منتقل ہوچکے ہیں۔
پاکستانی حکام بھی صحافیوں کے حوالے سے کسی حد تک جائز مشکلات کا اظہار کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ کالی بھیڑیں ہر پیشے میں ہوتی ہیں۔کئی ایک غیر ملکی اور پاکستانی صحافیوں کی مشترکہ کاوشوں سے ایسی ایسی کہانیوں گھڑی گئی ہیں جن کا حقائق سے کوئی واستہ نہ تھا۔کافی برس پہلے ایک بہت بڑے اخبار کی خاتون صحافی نے کوئٹہ سے اسلام آباد اوبی ایل یعنی اسامہ بن لادن کے نام سے سفر کرنے کی کوشش کی۔ انہیں پکڑ ا گیا اور بعدازاں ملک بدر کردیا گیا۔اسی طرح غیر ملکی ادارے کے لوگوں نے بلوچستان میںایک مقام پر طالبان کا جعلی ٹرینگ سنٹر قائم کرکے انہیں تربیت لیتے اور دیتے ہوئے دکھایا گیا۔اس واقعہ پر کافی شور شرابہ ہوا۔حسن خان، خیبر ٹی وی سے وابستہ ایک معتبر صحافی ہیں۔انہوں نے ایک گفتگو میں بتایا کہ ایک مغربی صحافی خبیر پاس چند گز دور کھڑا ہوکر اپنے آسڑیلین ہموطنوں کو پاکستانی سرحد سے افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے طالبان کی لائیو سٹوری دکھارہا تھا۔نیوز ویک نے اگست ۹۰۰۲ کے ایک شمارے میں طالبان کمانڈروں کی تصویر شائع کی جس میں چند پشتوں نما افراد ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ طالبان کمانڈر ہیں۔
ایسے درجنوں واقعات بطو ر مثال پیش کیے جاسکتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے کئی مرتبہ ذاتی غرض یا اپنے دارے کے مفادات کی خاطر حقائق اور سچ کا خون کیا ہے جس کی بدولت پوری صحافی برادری کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مجھے سلیم شہزاد سے کئی مرتبہ بات کرنے کا موقع ملا۔ہر بار میں نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔بعض اوقات ان کی رپورٹیں پڑھ کر یہ گمان گزرتاتھا کہ وہ طالبان یا القاعدہ کے اجلاسوں کی اندورنی کہانی بیان کررہے ہوں۔
oسیلم شہزاد کا قتل آئی ایس آئی کے کھاتے میںپڑچکا ہے ۔ہیومن رائٹس واچ کے علی دیان نے الزام عائد کیا ہے کہ ایجنسی اس قتل میں ملوث ہے جبکہ عالمی ذرائع ابلاغ اور کئی مغربی سیاستدان بھی آئی ایس آئی کی جانب واضح اشارے کررہے ہیں۔ ڈان کے حمید ہارون جیسی سکہ بند شخصیت نے بھی اسی قسم کے خیالات کی تائید کی ہی۔اگرچہ آئی ایس آئی ان الزامات کی تردید کرچکی ہے لیکن ا س کے باوجود آئی ایس آئی کی اپنی ساکھ کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیق کرے اور اصل مجروں کو بے نقاب کرنے میں پولیس کی مدد کری۔یہی ایک واحد راستہ جو آئی ایس آئی کے امیج کو بحال کرسکتاہی۔
آئی ایس آئی اور سی آئی اے ہی کے مابین تنائو نہیں ہے بلکہ را اور افغان ایجنسی کے ساتھ بھی اس کی کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہی۔بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کا الزام بھی ایجنسی پر عائد کیا جاتاہے ۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی مسلسل ایجنسی پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ داخلی سیاست میں ان کے مخالفین کی پشت پناہی کررہی ہی۔ وقت آگیا ہے کہ آئی ایس آئی کی قیادت اپنی پوزیشن واضح کرے یا پھر آرمی چیف اپنا موقف بیان کریں۔ اگر سی آئی اے کے سربراہ میڈیا سے گفتگو کرسکتے ہیں اور اپنے ادارے کا موقف کھل کر بیان کرسکتے ہیں تو آئی ایس آئی کیوں نہیں اپنے عوام کو اعتماد لے سکتی ہی؟
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved