اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-06-2011

آزادکشمیر کاانتخابی منظرنامہ
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
چند دنوں بعد آزادکشمیر میں انتخابی دنگل برپا ہونے کو ہی۔ پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کو چت کرنے کے لیے ہر ممکن سیاسی دائو پیچ کھیل رہی ہیں۔نئی نئی سیاسی صف بندیاں تشکیل پارہی ہیں جن میں ماضی کے حریف حلیف اور حلیف حریف بن رہے ہیں۔پیپلزپارٹی اور حکمران مسلم کانفرنس کے مابین سیاسی مفاہمت ہوچکی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن)جماعت اسلامی اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی میں باقائدہ انتخابی اتحاد قائم ہوچکا ہی۔ابھرتا ہوا سیاسی منظر نامہ اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ آزادکشمیر میں ایک زبردست سیاسی دنگل برپا ہونے کوہی۔6جون کو آزادکشمیر میں گیارویں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں۔جن میں 29لاکھ کے لگ بھگ رائے دہندگان 41ارکان اسمبلی کو براہ راست منتخب کریں گے جبکہ آٹھ ارکان جن میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں،مخصوص نشستوں پر بلواسطہ طور پر منتخب ہوں گی۔
پیپلزپارٹی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اترچکی ہی۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی گزشتہ ماہ دو مرتبہ مظفرآباد تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ شفاف انتخابات کرائیں گی۔انہوں نے کہا کہ اگر کشمیریوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا تو وہ خطے میں تعمیر وترقی کے ایک نئے عہد کا آغاز کریں گی۔پی پی پی پہلے ہی ایک جامع سیاسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہی۔اس نے بڑی مہارت سے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس سے مسلم کانفرنس نہ صرف تقسیم ہوگئی بلکہ اس کا ناطہ مسلم لیگ (ن)سے بھی ٹوٹ گیا۔چنانچہ راجہ فاروق حیدر خان کی قیادت میں آزادکشمیر میں نواز شریف نے مسلم لیگ قائم کرلی ہی۔جس سے دائیں بازور کا ووٹ بینک بٹ گیا۔جس کابراہ راست سیاسی اور نفسیاتی فائدہ پیپلزپارٹی کو پہنچا ہی۔
علاوہ ازیںایک ایسی سازگار فضا تیار کی گئی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ایک نامی گرامی سیاستدان بالخصوص سابق وزراء اعظم بیرسڑسلطان محمود، سردار یعقوب خان، سپیکر آزادکشمیر اسمبلی انوارالحق ہی نہیں بلکہ صدر آزادکشمیر راجہ ذوالقرنین کے فرزند بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئی۔دوسری جانب وفاقی وزیرامور کشمیر منظور احمد وٹو نے سردار عتیق احمد خان کو بھی اپنے شیشے میں اتار کررکھا ہی۔انہوں نے سپیکر اسمبلی انوارالحق اور پیپلزپارٹی کے صدر چودھری عبدالحمید کے حلقوں میں نہ صرف اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں بلکہ مسلم کانفرنس کے کارکن پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی حمایت کررہے ہیں۔قابل اعتماد ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سردار عتیق احمد سے وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں پیپلزپارٹی کی حمایت کے صلے میں آزادکشمیر کی صدارت پیش کی جائے گی۔اسی لیے ماضی کے روایتی نظریاتی اور سیاسی حریف شیر وشکر ہوچکے ہیں۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے وہ اگرچہ خطے میں ایک نئی سیاسی جماعت ہے لیکن اسے میاں نواز شریف کی مقبولیت اور فاروق حیدر کی دبنگ شخصیت کی بدولت تیزی سے پذیرائی ملی ہی۔راجہ فاروق حیدر نے اپنے مختصر دور اقتدار میں جس جرات کے ساتھ آزادکشمیر کے اہم آئینی اور اقتصادی مسائل کو اسلام آباد میں اٹھایااس نے انہیں زبردست عوامی مقبولیت عطا کی ہی۔انہیں پیپلزپارٹی پر اس پہلو سے بھی برتری حاصل ہے کہ مہاجرین کی بارہ نشستوں میں سے لگ بھگ نو پنجاب میں واقع ہیں، جہاں مسلم لیگ نہ صرف ایک مقبول جماعت ہے بلکہ اس کی صوبائی حکومت بھی ہی۔اس لیے غالب امکا ن ہے کہ ان نشستوں میںسے کافی معقول تعداد مسلم لیگ کے حصہ میں آجائے گی۔اگر میاں نواز شریف لوگوں کو یہ باور کراسکے کہ اگلے ایک ڈیڑھ برس بعد اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوسکتی ہے تو مسلم لیگ کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ آزادکشمیر کے عوام عمومی طور پر اسلام آباد میں قائم حکومت کی مقامی حلیف جماعت کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر مظفرآباداور اسلام آباد کے مابین کشیدگی یا تنائو ہو تو خطے کی تعمیر وترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیںکیونکہ ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ اسلام آباد فراہم کرتاہی۔پاکستان میں عوام پیپلزپارٹی کے عہد اقتدار میں ہونے والی مہنگائی،بدعنوانیوں اور غیر معیاری حکومت سے تنگ آچکے ہیں لیکن اس کے برعکس آزادکشمیر کے لوگ مسلم کانفرنس کی پے درپے بننے والی حکومتوں سے بیزار ہیںکیونکہ گزشتہ دس برس سے آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کی حکومت قائم ہے جو خطے میں کوئی بھی بڑا منصوبہ مکمل کرنے میں ناکام رہی ہی۔حتیٰ کہ اہم نوعیت کے ایشوز پر بھی اس نے کوئی جاندار موقف نہیں اپنایا۔اس لیے پیپلزپارٹی فطری طور پرایک متبادل کے طور پر سامنے آتی ہی۔
سیاست سے ہٹ کر کچھ ایسے مسائل بھی زیربحث آرہے ہیں جن کا حل ہنگامی بنیادوں پر تلاش کیا جاتا ضروری ہی۔مثال کے طور پر مہاجرین کی نشستوں پر درج ووٹرکی فہرستوں میں کافی جال سازیاں پائی گئی ہیں جن کا تدارک ضرور ی ہی۔کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ انتخابات میں دو نشستیں زور زبردستی حاصل کرلی تھیں ۔جبکہ پنجاب میں جو بھی حکومت رہی ہے وہ ان نشستوں پر اثر انداز ہوتی رہی ہی۔پاکستان کا الیکشن کمیشن مہاجرین کی نشستوں پر انتخابات کرانے کا ذمہ دار ہے لہٰذا اس کی ذمہ دار بنتی ہے کہ وہ صاف وشفاف انتخابات کا اہتمام کری۔
آزادکشمیر میں جاری سیاسی مباحث میں بدقسمتی کے ساتھ عوام کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیںکیا جارہاہے بلکہ شخصیات اور سیاسی مفادات کے امکانات دیکھا کر ووٹروں کو لبھایا جارہاہی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر جس کی گونج ماضی میں انتخابی مہم کے دوران بہت نمایاں رہی ہے اس مرتبہ کئی نظر نہیں آرہاہے بلکہ روزمرہ کے عوامی مسائل ترجیح بن چکے ہیں۔ سیاست کا وسیع دائرہ سکڑ کر اب ضلعوں اور حلقوں تک محدود ہوچکاہے ۔قدآور سیاسی رہنما آزادکشمیر کے عوام کو روزگار فراہم کرنے یا علاقے کی تعمیر وترقی کے لیے کوئی قابل ذکر دعویٰ نہیں کررہے ہیں بلکہ مقامی سطح کے ایشوز اٹھارہے ہیں اور ان کے حل کے وعدے کرتے ہیں تاکہ کسی طرح اسمبلی تک پہنچ سکیں۔
'پیپلزپارٹی کے بطور ایک اکثریتی جماعت کے ابھرنے کے امکانات بہت نمایاں ہیں۔لیکن پارٹی میں وزرات عطمٰی کے امیدواروں کی تعداد کافی زیادہ پائی جاتی ہی۔ایک طرف پارٹی کے وہ رہنما ہیں جنہوں نے آزمائش کے ہر مرحلے پر اپنی جماعت کا ساتھ دیا تو دوسری طرف حال ہی میںجماعت میں شامل ہونے والی ممتازسیاسی شخصیات ہیں۔ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ وزرات عظمیٰ کا کرہ کس کے نام نکلتاہی۔پارٹی کے سربراہ چودھری عبدالمجید، سیکرٹری جنرل چودھری لطیف اکبریا پھر سلطان محمود۔اس کا فیصلہ صدر آصف علی زرداری نے کرنا ہے جو اپنے پتے آخری دم تک چھپا کررکھتے ہیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved