اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔25-06-2011

شہر میونخ
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
جرمنی کے شہر میونخ کے ہوائی اڈے پر اتر ا تو دل بہت گھبرا رہا تھا کہ اجنبی دیش میں کس طرح شہر کے قلب میں واقع ہوٹل کی راہ تلاشوں گا عشروں سے یہ مشہور ہے کہ جرمنوں کو انگریزی آتی ہے اور نہ وہ غیر ملکیوںکے کروفرسے مرعوب ہوتے ہیں۔لہٰذا یہ امکان کم دکھائی دیتا تھا کہ کوئی راستہ سمجھاتا۔دوسری جانب میرے جرمن میزبان بھی مشرق آداب سے ناآشنا تھے ۔انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچاکہ ہمارے استقبال کے لیے کسی اہلکار کو ائرپورٹ روانہ کردیتے یا کم ازکم گاڑی ہی بھجوادیتی۔ لے دے کر ایک لمبا چوڑا نقشہ ای میل کردیا کہ کس طرح ہوٹل پہنچاجاسکتاہی۔ بس یا ٹرین کا کرایا اور روانگی کے کے اوقات کے متعلق ضروری معلومات بھی ای میل پر فراہم کردی گئیں۔
ائر پورٹ سے نکلا اور دیئے گئے نقشہ کے مطابق چلتا رہا ۔دس منٹ کی تگ ودو کے بعد بس پر سوار ہوگیا ۔میزبانوں کی ہدایت کے مطابق ایک اسٹیشن پر اترا ۔ ای میل میں بتائے گئے نشانات دیکھتا رہا اور ہوٹل پہنچ گیا۔ معلوم ہوا کہ امریکا،برطانیہ، کینیڈا، بھارت اور اسپین سمیت کئی ایک ممالک سے مندوبین کانفرنس بھی ہوٹل میںموجود تھے لیکن یہاں بھی میزبان غائب تھی۔شام برطانیہ سے آئے ہوئے پہاڑی زبان کے ممتاز قلمکاراور فلم سازعدالت علی کے ہمراہ شہر میں آوارہ گردی کرتے گزاری۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ شہر میں ہر طرف عرب باشندے گھوم پھررہے تھی۔ترکوں کا تذکرہ ہی کیا ، جرمنی کی مسلمان آبادی کی بھاری اکثریت ترک مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی آئے تاکہ جرمن کی صنعت کو جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد ازسرنو رواں ہونے میں مدد دیں۔رفتہ رفتہ ان کے خاندان کے باقی افراد بھی جرمنی آتے گئے حتیٰ کہ یہ ترک جرمن شہری بن گئے لیکن پوری طرح جرمن معاشرے میں رچ بس نہ سکے بلکہ اس جرمنی میں اپنی ثقافت اور رسم ورواج کے فروغ کا باعث بن گئی۔
چالیس لاکھ کے قریب مسلمانوں کے میونخ کے کلچر اور تہذیب پر جابجا گہرے اثرات نظرآتے ہیں۔حلال ریسٹورنٹ،رویتی چائے خانے اور ایشیائی کھانوں کے مراکز چار جانب پھیلے ہوئے ہیں۔ترکی میں اسلامی شناخت کے احیاء کے اثرات جرمن ترک مسلمانوں پر بھی نظرآتے ہیں۔ان میں کئی کہتے ہیں کہ آج کی ترک قوم نے مصطفیٰ کمال اتاترک کے نیشنلزم اور لبر ل ازم کو دفن کردیا ہے اور اب ایک نیا ترک ظہور پذیرہورہاہے ۔جرمن ذرائع ابلاغ میں بھی یہ بحث بہت نظرآتی ہے کہ اسلام اور جرمنی کا کیا رشتہ ہی؟کئی ایک دائیں بازور کے سیاستدان ان خدشات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ جرمنی کی سیکولر اور عیسائی شناخت مجروع ہورہی ہے کیونکہ صرف مسلمانوں کی آبادی میںمسلسل اضافہ ہی نہیں ہورہا ہے بلکہ کئی ایک عیسائی بھی اسلام قبول کررہے ہیں۔یہ رجحان کٹر عیسائیوں کو کھٹتا ہے ۔
_عربوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ آخر یہ یہاں کیوں؟معلو م ہوا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے علاج ، شاپنگ اور سیاخت کی غرض سے عربوں کی بہت بڑی تعداد جرمنی کا رخ کررہی ہی۔ماضی میں وہ امریکا ،برطانیہ اور فرانس جایا کرتے تھے لیکن ان ممالک میں اب عرب جاتے ہوئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ایک تو ان ممالک نے دہشت گردی کے نام پر ویزے کے حصول کے قوائد وضوابط کا فی پیچیدہ بنادیئے ہیں اور دوسرا ائیرپورٹ پر سوال وجواب کے طویل سیشن بھی تلخ ہوتے ہیںلہٰذا رفتہ رفتہ خوش حال عربوں کی ایک بڑی تعداد نے جرمنی کا رخ کرلیا ہی۔جس سے جرمنی کی سیاخت کی صنعت کو کافی فروغ مل رہا ہی۔
جرمنی میں غیرملکی طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے نہ صرف غیر معمو ل مواقع موجود ہیں بلکہ ماضی کے برعکس جرمن زبان کے بجائے انگریزی کو ذرئع تعلیم بنانے کو ترجیح دی جاتی ہی۔فیسیں بھی نہایت کم ہیں اور سکالرشپ بھی آسانی سے دستیاب ہوجاتے ہیںبلکہ کہا جارہاہے کہ جس طرح کسی زمانے میں امریکا میں اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کے لیے ملکی اور غیر ملکی طلبہ کو وظائف دئیے جاتے تھے ۔اسی طرز پر اب جرمنی دنیا بھر کے ذہین دماغوں کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہی۔اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی کی ہر سیاسی جماعت نے اپنی اپنی فانڈیشن بنائی ہوئی ہیں،جن کے دفاتر دنیا بھر میں قائم ہیں۔یہ فانڈیشنز انسانی حقوق، تحقیق اورسول سوسائٹی کی استعدار کار میں اضافے جیسے امور پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئی ہیں۔پاکستان میں بھی پانچ کے لگ بھگ فانڈیشنز سرگرم ہیںجو مقامی غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرتی ہیں۔
اسی پس منظر میں جرمنی میں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی کے میونخ سے رکن پارلی منٹ ڈاکٹر رینر سٹنرسے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی ۔ ان کا کوئی محافظ دستہ ہے اور نہ کوئی لمبا چوڑا اسٹاف۔بیٹھتے ہی پوچھا کافی پیو گئے یا پانی ۔عرض کیا کافی، دفتر کے بغل والے چھوٹے سے کمرے سے خود دوکیپ کافی لے کر آئے ۔ہم دونوں ایک گھنٹے تک کافی پیتے اور باتیں کرتے رہی۔ رینر سٹنر پوچھ رہے تھے کہ ان جرمن اداروں کے بابت پاکستانیوں کی رائے کیا ہی۔عرض کیا کہ چونکہ جرمنی پاکستانی کی اندورنی سیاست میں ملوث نہیں ہے اور نہ ہی یہ ادارے پاکستانی عوام کی خواہشات کے برعکس کام کررہے ہیں اس لیے عمومی طور پر ان جرمن اداروں کے تئیں عوامی رائے مثبت اور ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہی۔
وہ یہ بھی جاناچاہتے تھے کہ جرمن حکومت اور سیاستدان مسئلہ کشمیر کے حل میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ عرض کیا کہ جرمنی کو جموں وکشمیر میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے واضح موقف اختیار کرنا چاہیی۔کنٹرول لائن کے دونوں حصوں میں سول سوسائٹی تنظیموں کی استعدارکار میں اضافے کے لیے وسائل وقف کری۔ پاک بھارت مذاکرات میں کشمیر یوں کی کسی نہ کسی سطح پر شمولیت کی راہ ہموار کی جائے تاکہ مسئلہ کا جو بھی حل سامنے آئے اس میں کشمیری عوام کی رائے بھی شامل ہو۔علاوہ ازیں ریاست جموں وکشمیر کے دونوں حصوں کی سیاسی قیادت سمیت عام لوگ کے مابین مکالمے کی حمایت کی جائے تاکہ کشمیر یوں کے مابین وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا ہوسکی۔
بے پناہ محنتی اورجفاکش جرمن ماضی کی تلخیوں اور جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ خطے میں امن اور ترقی کے علمبردا ر کے طور پر ابھرے ہیں۔ جرمنی جو دوسری جنگ عظیم کا مرکزی کردار تھا وہاں لوگ ماضی کو فراموش کرچکے ہیں۔ڈاکٹر رینر کہہ رہے تھے کہ وہ جرمنی کے تجربات ومشاہدات میں پاکستانیوں کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ جرمنی کے تجربات سے فائدہ اٹھا ہوتے مستقبل کی جانب دیکھنے کا راستہ اختیار کرسکیں۔میونخ یونیورسٹی کا شعبہ بشریات ہمارا میزبان تھا لیکن وہ ہمیں ہوٹل پہنچا کر معمول کی مصروفیات کی جانب لوٹ گئی۔ہم لوگوں نے دوسیرے دن بس پکڑی اور ائرپورٹ سے اپنے اپنے ملکوں کو سدھار گئے نہ کوئی استقبال نہ کوئی الوداعیہ۔واپسی پر دوران پرواز سوچتا رہا کہ یہ سب ریتیں و روایات ہمارے معاشروں سے جڑی ہوئی ہیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved