اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔05-07-2011

آزادکشمیر میں حکومت سازی کے مراحل
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
طویل انتخابی مہم ،جذباتی تقریروں اور گہماگہمی کے بعد آزادکشمیر اب حکومت سازی کے مرحلے میں داخل ہورہاہے۔انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے سائے تلے پیپلزپارٹی کے اندر وزیراعظم کون بننے گا کے موضوع پر زبردست لابنگ ہورہی ہے۔پی پی پی کے صدر چودھری عبدالمجید اور بیرسٹرسلطان محمود چودھری کے مابین کرہ پڑتا نظرآرہاہے لیکن چودھری لطیف اکبرا ور چودھری یاسین بھی اپ سیٹ کرسکتے ہیں کیونکہ دونوں کا شمار پی پی پی کے سینئررہنماﺅں میں ہوتا ہے جو آزمائش کی ہرگھڑی میں پارٹی قیادت کے شانہ بشانہ میدان میں کھڑے رہے ہیں۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کے رہنما انتخابات جیتنے کے بعد اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اسلام آباد میں ڈھیرے ڈال چکے ہیں جبکہ آزادکشمیر میں ان کے مخالفین احتجاجی تحریک منظم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ہر مظاہرے جاری ہیں اور عدالتوں میں بھی انتخاب کو چیلنج کیا جاچکا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اتنا کمزور تھا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاہے۔چیف الیکشن کمیشنر خواجہ سعید کی شہرت ایک نہایت ہی ناکام الیکشن کمشنر کی رہی ہے ۔وہ انتخابی فہرستیں درست کرواسکے اور نہ ہی حکمران جماعت کو سرکاری وسائل کا انتخابی مہم میں ناجائز استعمال پر اعتراض کرسکے۔جس کی بدولت پورا انتخابی عمل داغدار ہوگیا۔
مسلم کانفرنس کی قیادت کو شیشے میں اتارنے کے لیے وفاقی حکومت نے اس کے ساتھ بعداز انتخاب تعاون کے کئی ایک معاہدے کیے تھے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم کانفرنس کو کچھ بھی ملنے والا نہیں ہے کیونکہ مسلم کانفرنس کو حکومت میں شامل کرنے کے ایشو پر پیپلزپارٹی آزادکشمیر اور مرکزی قیادت کے مابین بھی گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔مرکزی رہنماﺅں کا خیال ہے کہ مسلم کانفرنس کو حکومت میں شامل کرنے کا مقصد آزادکشمیر میں اسے زندہ رکھنا ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) پر دباﺅ برقراررکھا جاسکے۔ ورنہ مسلم کانفرنس مزید تحیلیل ہوجائے گی اوراس کے نظریاتی کارکن فطری طور پرمسلم لیگ کی جھولی میں چلے جائیں گے جبکہ پی پی آزادکشمیر کی قیادت کا خیال ہے کہ اگر مسلم کانفرنس ایک بار پھر حکومت کا حصہ بن جاتی ہے تو عوام جنہوں نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے وہ اس فیصلہ کو قبول نہیں کریں گے۔
ابھی تک یہ راز آشکا ر نہیں ہواہے کہ آصف علی زرداری کسے وزیراعظم نامزد کریں گے ۔اصولی طور پر منتخب ارکان اسمبلی کی رائے لی جانی چاہیے اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا جانا چاہیے کیونکہ جمہوریت کا یہی تقاضہ ہے لیکن بدقسمتی سے پیپلزپارٹی میں فیصلہ سازی کا عمل ایک مخصوص حلقے تک محدودہے جومقامی قیادت کی رائے کو کم اہمیت دیتاہے۔علاوہ ازیں آزادکشمیر کے معاملات میں پاکستان کے عسکری اداروں کی رائے کو بھی خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ماضی میں تو عسکری قیادت اپنی پسندیا نقطہ نظر کو منوالیا کرتی تھی لیکن اس مرتبہ وہ زیادہ متحرک نظر نہیں آئی ہے ۔یہ ایک اچھاشگون ہے کہ خفیہ اداروں نے اس مرتبہ آزادکشمیر کے انتخابات میں مداخلت سے گریز کیا۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی جمہوری رائے ہی کو غالب آنے کا موقع دیں گے اور اپنا امیدوار مسلط کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے آزادکشمیر میں جانے سے خطے کی عمومی سیاست میں بھی بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔نوازشریف کی ساری تقریریں اسٹبلشمنٹ مخالف تھیں۔ انہوں نے ڈٹ کر ان ایشوز کو اٹھایا جن کے بابت لوگ سرگوشیاں تو کرتے تھے لیکن کھل کر بات کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔مثال کے طور پر میاں نواز شریف نے کہا کہ آزادکشمیر کے انتخابات میں ایک مخصوص گروپ من مانی کرتارہاہے لیکن اب جو بھی عوام فیصلہ کریں گے وہ اسے قبول کریں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان میں پرویزمشرف مارشل لاءنافذ نہ کرتے تو مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا لیکن گارگل کی جنگ نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچایا بلکہ پاکستان میں جمہوری عمل کو دس برس تک روکے رکھا ۔
مسلم لیگ آزادکشمیر کے صدر فاروق حیدر بھی آزادکشمیر کو زیادہ باختیار خطے بنانے کے علمبردار کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔انہوں نے وہ تمام ایشوز اٹھائے جو اسلام آباد کو ناگوار گرزتے ہیں لیکن اس کے باوجود مظفرآباد شہر اور اپنے آبائی علاقے سے دو نشستوں پر کامیاب ہوگئے۔مبصرین کے نزدیک فاروق حیدر کی کامیابی اس امر کا اظہار ہے کہ عوام چاہتے ہیں ان کے حقیقی مسائل کو اجاگر کیا جائے اور ان کے حل کے لیے ٹھوس اقدمات بھی کیے جائیں۔خاص طور پر نوجوانوں میں تبدیلی کی خواہش بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔اسی لیے نوجوانوں کا ایک کافی بڑا طبقہ مسلم لیگ کی طرف جھکاﺅ رکھتاہے۔
حالیہ انتخابات میں کئی ایک دلچسپ رجحانات سامنے آئے جن کا خطے کی مستقبل کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔مثال کے طور سردار سکندر حیات خان کے فرزند سردار فاروق سکندر اپنی نشست ہار گئے حالانکہ یہ خاندان 1947ءسے قبل سے انتخاب جیتارہاہے۔صدر آزادکشمیرراجہ ذولقرنین خان کے کے امیدوار انوار ا لحق بھی شکست کھا گئے حالانکہ یہ خاندان صدیوں سے اپنے علاقے کا راجہ رہاہے ۔وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کے فرزند عثمان عتیق بھی مظفرآباد شہر سے ہار گئے جبکہ سردار خالد ابراہیم خان جو نہ صرف آزادکشمیر کے بانی صدر سردار ابراہیم خان کے چشم وچراغ ہیں بلکہ ایک باوقار اور اصولی سیاستدان کہ شہرت رکھتے ہیں بھی شکست کھا گئے۔ اس اپ سیٹ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آزادکشمیر کی آبادی کا 60فیصد حصہ ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر تیس برس سے کم ہے اور وہ اسٹیٹس کو کے خلاف ہیںاور تبدیلی چاہتے ہیں۔اسی طرح بیرون ملک آباد شہریوں نے بھی ان انتخابات میں نہ صرف لیا بلکہ بھرپور سرمایاکاری کی ۔کہاجاتاہے کہ 15000کے لگ بھگ کشمیری یورپ اور مشرق وسطیٰ سے انتخابات میں اپنے امیدواروں کی حمایت کے لیے آئے۔یہ خواتین وحضرات کسی خوف و خطر کے بغیر اپنے سیاسی نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں آزادکشمیر میں مقامی ذرائع ابلاغ نے بھی خوب فروغ پایا ہے۔درجنوں نئے اخبارات شروع ہوئے ہیں۔ پانچ کے لگ بھگ ریڈیو اسٹیشن بھی قائم ہوئے ۔چونکہ آزادکشمیر میں شرع خواندگی 70فیصد ہے اور سیاسی شعور بھی بہت زیادہ پایاجاتاہے اس لیے ان اخبارات کی سرکولیشن میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہواہے۔ان کے انٹرنٹ ایڈیشن دنیا بھر میں آباد لاکھوں کشمیریوں کے لیے معلومات کی فراہمی کا ایک اہم ذریعے بن چکے ہیں۔وہ اشتہارات اور عطیات کے ذریعے ان اخبارات کو چلانے میں بھی مدد کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے علاقے کی خبریں اور تجزیہ انہی اخبارات سے ملتے ہیں۔قومی ذرائع ابلاغ میں کشمیر کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔اس لیے کئی شہریوں میں مقامی اخبارات اسلام آباد سے شائع ہونے والے اخبارات سے زیادہ مقبول ہیں۔علاوہ ازیں اس مربتہ انتخابی مہم میں سوشل میڈیا خاص کر فیس بک اور ایس ایم ایس کا بھی بھرپور استعمال کیاگیا۔ بلاگ بنائے گئے حتیٰ کہ راجہ فاروق حیدر نے نوجوان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے فیس بک کا کامیابی سے استعمال کیا۔
حیرت انگیر بات یہ ہے کہ اس مرتبہ مسئلہ کشمیر کا تذکرہ بڑے نرم انداز سے کیاگیااور بھارت مخالف بیانات کی پوچھاڑ دیکھنے کو نہیں ملی۔ مسلم لیگ (ن) اور مسلم کانفرنس نے نہ صرف جموں وکشمیر کے دونوں حصوں کے مابین جاری تجارت اور سفر کی سہولتوں کو مزید بہتر بنانے کو اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر بھی زرو دیا ہے۔انتخابات کے آخری دنوں میں کچھ نامعلوم فورمز کے نام سے اخبارات میںپیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بھارت نواز اور مسئلہ کشمیر سے غداری کرنے والی جماعتیں ثابت کرنے کے اشتہارات شائع ہوئے لیکن اگلے دن انتخابی مہم ختم ہوگئی اس لیے ان کا کوئی فالو اپ نہیں ہوسکا۔نئی حکومت کے سامنے مسائل کا ایک انبار ہے اور وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس سے زیادہ توقعات نہیںباندھی جاسکتی ہیں۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved