اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔08-07-2011

سوات سے
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
سوات کے ضلعی صدر مقام مینگورہ میں جاری چہل پہل دیکھ کریہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ یہاں کے شہری حالیہ برسوں میں کس قیامت سے گزرے ہیں۔رات گئے تک بازار وں میں خریداروں کا ہجوم اور ادکا دکا سیاحو ں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا ہے کہ وہ شہر جہاں دہشت گردوں کا راج تھاوہ معمول کی زندگی شروع کرچکا ہے۔ جب میں مینگورہ میں داخل ہواتو حقیقت میں کافی خوف زدہ تھا کہ کئی کسی حادثے کا شکا ر نہ ہوجاﺅں لیکن جب مقامی لوگوں سے ملاقات شروع ہوئی تو رفتہ رفتہ اعتماد بحال ہوتا گیااگرچہ ہماری میزبان پاکستان آرمی تھی لیکن مقامی سیاسی اور سماجی رہنماﺅں کے ساتھ نہ صرف تبادلہ خیال کا بھرپور موقع نکل آیا بلکہ سرکاری مصروفیات سے ہٹ کر کئی ایک نجی محفلوں میں بھی شرکت کا موقع فراہم ہوا۔جس سے بخوبی اندازہ ہوا کہ وہ دن دور نہیں جب سوات اور بالخصوص مینگورہ کے شہری اپنی آزادی اور مرضی کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
ممتاز تجزیہ کارہارون الرشیدکا حلقہ احباب پورے ملک میں پھیلاہوا ہے۔ان میں ایک سردار سوران سنگھ بھی ہیں جن کا شمار سوات ہی نہیں بلکہ اب پاکستان بھر کی اقلیتی کمیونٹی کے اکابرین میں ہوتا ہے۔مرنجان مرنج سردار جی نے نہ صرف شہر کی سیر کرائی بلکہ عام لوگوں کے ساتھ ملاقات کا بھی اہتمام کیا۔تبادلہ خیال کی ان غیر سرکاری محفلوں سے یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوئی کہ سوات کے شہری خطے سے طالبان کے خاتمے پر نہ صرف خو ش ہیں بلکہ ملا فضل اللہ اور ان کے حامیوں کا اب کوئی نام لیوا باقی نہیں رہاہے۔پچیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے جن میں سے بقول جنرل اشفاق پرویز کیانی کے 70فیصد کو اپنے رشتے داروں اور دوست احباب نے اپنے گھروں میں پناہ دی جبکہ باقی لوگ کیمپوں میں رہے جو چند ماہ بعد واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔انسانی تاریخ میںجس کی نظیر تلاش کرنا محال ہے۔
سواتی خوش ہیں کہ نقل مکانی کے باوجود پاکستانی فوج اور دیگر اداروں نے ان کی جائیدادکو لوٹ کھسوٹ سے محفوظ بنایا ۔ان کی عزت و آبرو کا تحفظ کیا گیا لیکن وہ اس بات پر رنجیدہ ہیں کہ آخر حکومت اور مقامی انتظامیہ اس وقت کیوں نہیں بروکار آئی جب طالبان اسلحہ جمع کررہے تھے؟ مذہب کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کرکے ریاست کے خلاف صف آرا ہونے کی تیاریاں کررہے تھے؟ فوج جب مقامی نتظام وانصرام سول انتظامیہ کے حوالے کرکے واپس بیرکوں میں لوٹ جائے گی تو طالبان کا ازسر نو ظہور تو نہیں ہوگا؟ایسے ہی درجنوں سولات اور خدشات جو نجی محفلوں سے لے کر سمیناروں تک میں زیر بحث آتے ہیں اور لوگ جن کا دوٹوک جواب چاہتے ہیں۔
سوات کا مستقبل کیا ہے اور کس طرح اس خطے میں ایک موثر سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے جو عوام کو اپنے ساتھ لے کر چل سکے۔ایسے ہی بے شمار موضوعات اور مستقبل کے لائحہ عمل پر غور وفکر کے لیے پاکستان فوج نے مینگورہ میں ایک تین روزہ سیمینار کا اہتمام کیا۔جس میں بلاکسی نظریاتی اور سیاسی تفریق کے ملکی اور غیر ملکی دانشوروں کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔فوج کی اعلیٰ قیادت بالخصوص کور کمانڈر پشاور، جنرل کمانڈنگ آفیسر سوات نے بھی سیمنار میں دلجمی کے ساتھ شرکت کی جبکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے علاوہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی کچھ دیر کے لیے شریک ہوئے ۔ عمومی طور عسکری اداروں میں حکمت عملی کے تعین کے لیے دانشوران اور سیاسی مشوروں کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی ہے لیکن اس مرتبہ آزاد اور کھلے ماحول میں تبادلہ خیال کا بھرپور موقع فراہم کرکے فوج نے ایک اچھی روایت آغاز کیا ہے جس کو آئندہ بھی جاری رکھا جانا چاہیے۔
ماہرین کی اکثریت کا خیال تھا کہ فوج نے علاقہ تو واگزار کرالیا ہے اب اصل چیلنج یہ ہے کہ کس طرح سول انتظامیہ کو موثر کردار ادار کرنے پر آمادہ کیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ عشروں کے دوران انتظامیہ سمیت ہر ادارہ انحطاط کا شکارہوا ہے ۔خیبر پختوںخوا میں سیاسی اور مذہبی سیاسی تو کافی سرگرم ہیں لیکن یہاں جدید خطوط پر استوار سول سوسائٹی نہیں پائی جاتی ہے۔اسی طرح مقامی ذرائع ابلاغ بھی ابھی زیادہ موثر نہیں ہیں۔لہذا یہ توقع رکھنا کہ فوج جلد ہی سارا انتظام وانصرام مقامی انتظامیہ کے حوالے کر کے شہروں سے نکل جائے گی سادہ لوحی ہوگی ۔اور نہ ہی یہ کوئی مسئلہ کا حل ہے۔لیکن جیسے کہ کہا جاتاہے کہ بسا اوقات شر سے خیر بھی برآمد ہوجاتاہے۔حالیہ بحران کے دوران یہ خطے کئی ایک سماجی اور سیاسی تبدیلیوں سے بھی گزرا ہے جس کے یہاں کے منظرنامے پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوتے نظرآتے ہیں۔
اس وقت مینگورہ سے اردو کے دس کے لگ بھگ اخبارات نکل رہے ہیں جن کی اشاعت میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔روزنامہ آزادی کے چیف ایڈیٹر ممتاز احمد صادق سے مشاہد حسین سید نے تعارف کرایا۔انہوں نے مقامی ذرائع ابلاغ کے بابت بڑی دلچسپ باتیں بتائیں۔ممتاز صادق کا کہنا تھا کہ گزشتہ دوبرسوں کے دوران ان کے اخبار کو نہ صرف پاکستان کی سطح پر بلکہ دنیا بھر میں بے پناہ پذیرائی ملی ہے کیونکہ انہوں نے ایک اچھی ویب سائیٹ بنائی اور اس پرمسلسل تازہ ترین خبریں ڈالتے رہے۔چنانچہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ برطانوی اور امریکی اخبارات ان کی ویب سائیٹ کا حوالہ دینا شروع ہوگئے۔یوں ان علاقائی اخبارات اور ان سے وابستہ افراد کو عالمی سطح پر بھی اپنا مقام بنانے کا موقع ملا۔ جب یہ اخبارات ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے ساتھ مربوط ہوئے تو انہوں نے مقامی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف فضا پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
سردار سورن نے ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ مقامی مارکیٹ میں پراپرٹی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔اسی طرح شہر کی سڑکیں بڑی حد تک ازسرنو تعمیر کی جاچکی ہیں۔ سوات یونیورسٹی میں تعلیم شروع ہوچکی ہے۔ایک کیڈٹ کالج قائم ہوچکا ہے۔ مقامی لوگوں میں سیاخت کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے کمر بستہ ہیں۔لیکن سوات کے روایتی اور پرامن امیج کی بحالی اس وقت تک ممکن نظر نہیں آتی ہے جب تک اس کے لیے فوج، سول انتظامیہ ، مقامی سیاسی قیادت اور میڈیا مشترکہ طور پر جدوجہد نہیں کرتے ہیں۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved