اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔01-08-2011

حنا ربانی کھر دہلی میں
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
وزراءخارجہ کی سطح پر ہونے والے پاک بھارت مذاکرات تمام ہوئے۔ پاکستان کی نمائندگی نوجوان خاتوان وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے کی جو اپنے بھارتی ہم منصب سے ۵۴ برس چھوٹی ہیں۔یار لوگوں نے عمر کے اس تفاوت کو ان کے نہ تجربہ کار ہونے اور بھارتی وزیرخارجہ کے ہاتھوں پٹ جانے سے تعبیر کیا۔حقیقت یہ ہے کہ دو ملکوں کے مابین مذاکرات کا عمل وزیرخارجہ ، وزیراعظم یا صدر مکمل نہیںکرتے ہیں بلکہ وہ صرف کامیابیوں کا اعلان کرتے ہیں۔دوستانہ تعلقات میں نئی روح پھونکتے ہیں۔ان کی موجودگی علامتی ہوتی ہے۔اصل کام تو کئی ماہ پہلے دونوں ممالک کے سفارت خانوں اور وزارت خارجہ کے حکام کے درمیان شروع ہوچکا ہوتاہے۔جہاں تک بھارت کا تعلقات ہے اس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بناﺅ اوربگاڑ میں ریاست کے دیگر اداروں کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے۔تنہاوزیرخارجہ کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا ہے۔کہا جاتاہے کہ 80کی دہائی میں محبوب الحق پاکستان کے وزیرخزانہ تھے۔ وہ دہلی دورے پرگئے ۔جہاںاسلام آباد سے مشاورت کیے بنا ہی انہوں نے کئی ایک معاہدوں پر دستخط کردیئے۔جنرل ضیاءالحق نے انہیں فون کرکے اپنا دورہ مختصر کرکے وطن واپس تشریف لانے کی ہدایت کی۔
خورشید محمود قصوری جب وزیرخارجہ تھے وہ ہمیشہ پراعتماد نظرآتے تھے کیونکہ وہ ایک سازگار ماحول میں کام کررہے تھے۔دونوں ممالک مسلسل تعلقات کی بہتری کے لیے کام کررہے تھے جبکہ شاہ محمود قریشی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود پاک بھارت تعلقات پر معمول پر لانے میں ناکام رہے کیونکہ ممبئی حملوں کے بعد پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ اگر سر ظفراللہ خان بھی ہوتے تو ناکام ہوجاتے۔حنا ربانی کھر خوش قسمت ہیں کہ انہیں اس وقت وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کا موقع ملا جب اسلام آباد اور دہلی نہ صرف اپنے تعلقات میں بہتری پیدا کرنا چاہتے ہیں بلکہ کشمیر، پانی اور دہشت گردی جیسے متنازعہ مسائل پر بات چیت کے ذریعے کوئی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔حنا ربانی کھر کی دہلی میں جس جوش وخروش کے ساتھ آوبھگت کی گئی اس کا پس منظر دونوں ممالک میں پائی جانے والی عمومی مفاہمت ہے۔
بھار ت میں یہ احساس پایا جاتاہے کہ جب تک پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے اس وقت تک وہ خطے کی ایک بڑی طاقت نہیں بن سکتاہے اور نہ ہی ترقی کی موجودہ شرح برقرار رکھ سکتاہے۔علاوہ ازیں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی بھارت کو پاکستان کے مل جل کر کام کرنا ہوگا کیونکہ دہشت گردی کو اب کسی ایک ملک تک محدود نہیں رکھا جاسکتاہے۔اس کے اثرات بھار ت کے معاشرے پر مربت ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کئی ایک بھارتی دہشت گرد گروپ صف بندی کررہے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی سطح پر ریاستی سرپرستی بھی دستیاب ہوجاتی ہے۔ دہشت گردوں کی یلغار، امریکا بہادر کے بے پناہ دباﺅ اور عالمی تناظر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے اسلام آباد کے نقطہ نظر میں بھی بھارت کے تئیں جوہری تبدیلی پیدا کی ہے۔
کشمیری رہنماﺅں کے ساتھ حنا ربانی کی مشاورت اس لیے بھی ضروری تھی تاکہ وہ پورے عمل سے باخبر ہوں اور پاکستان کی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے براہ راست باخبر کریں۔حکومت پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ کشمیریوں بالخصوص آزادی نواز رہنماﺅں کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری رکھے تاکہ کشمیر ی رائے عامہ مسئلہ کے کسی بھی لچک دار حل کے لیے ہموار کیا جاسکے۔اگرچہ فوری طور یہ نظر نہیں آرہاہے کہ مسئلہ کے حل کی جانب کوئی بڑی پیش رفت ہونے والی ہے لیکن یہ بھی غنیمت ہے کہ دونوں ممالک نے چند ایک اچھے اقدامات کیے ہیں۔
حنا ربانی کھر نے بہت اچھا کیا کہ انہوں نے بھارتی حزب اختلاف کے رہنماﺅں بالخصوص ایل کے ایڈوانی کے ساتھ بھی ملاقات کی۔بی جے پی کے طرزعمل میں بھی لچک نظر آتی ہے ۔وہ ممبئی حملوں کے سحر سے باہر نکل چکی ہے لیکن اسے خطرہ ہے کہ کانگریس پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لا نے کے عمل کو عوام میں گرتی ہی اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے استعمال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ اٹھاسکتی ہے۔اس لیے وہ تذبذب کا شکارہے کہ پاک بھارت مذاکرات کی حمایت کرے یا نہ۔
حالیہ وزراخارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں کئی ایک پہلوﺅں سے کافی پیش ہوئی ہے بالخصوص جموں وکشمیر میں اعتماد سازی کے جو قدامات کیے گئے ہیں ان کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔اگران اقدامات پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو ریاست جموںوکشمیر کو ایک آزاداقتصادی خطہ بنایا جاسکتاہے۔کنٹرول لائن پرتجارتی دن دوکے بجائے چار کردئے گئے ہیں۔بس کے ذریعے سفر کرنے والوں کی درخواستوں کو 45دنوں میں نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔سیاحوں اور زائریں کو بھی ریاست کے دونوں حصوں سفر کے لیے چھ ماہ کے اجازت نامے دئیے جائیں گے۔ ورکنگ گروپ کے ہونے والے اجلاسوں میں سفری اور تجارتی سہولتوں کے بابت مزید فیصلہ کیے جائیں گے۔
وزراخارجہ کی سطح پرتاجروں کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کئی ایک بنیادی مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ٹیلی مواصلاتی نظام اور بینکاری کے نظام کی عدم موجودگی نے تجارت کا راستہ مسدودکر رکھاہے۔نئی دہلی نے سری نگر اور جموں میں پانچ ٹیلی فون لائنوں سے آزادکشمیر فون کرنے کی اجازت دی ہے جو نہایت ہی ناکافی ہیں ۔کنٹرول لائن پر جب تاجروں کی آپس میں ملاقات ہوتی ہے تو دونوں اطراف میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکارآ موجود ہوتے ہیں ۔بعض اوقات تاجروں سے گفتگو کے متعلق پوچھ گچھ بھی کی جاتی ہے۔چھوٹے پیمانے کے تاجروںکاکہنا ہے کہ اُن کی سب سے بڑی مجبوری کاروباری معلومات اوربازارکاری کے طریقوںکی شدھ بدھ اور ابلاغی مہارت میں کمی ہے۔ کنٹرول لائن سے تجارت کا بنیادی مقصد کشمیریوں کی اقتصادی سدھار تھا لیکن لاہور،سیالکوٹ،امرتسر اور دہلی کے تاجروں نے بھی مقامی کشمیر ی تاجروں اپنا ایجنٹ بنا کر کاروبار شروع کردیا ہے۔اگر اس سلسلے کو روکا نہ گیا تو کشمیری تاجر پس منظر میں چلے جائیں گے ۔
تاجروں کو لائن آف کنٹرول کے اُس پار اپنا سامان بھیجنے کے لیے کئی کئی ہفتوں تک انتظارکرنا پڑتاہے۔جس کے باعث حکام سے کشاکش میں اضافہ ہورہاہے۔سرکاری طورپر ذخیرہ کاری کی سہولت نہ ہونے کے باعث مقامی تاجر خود اپنا گودام تعمیر کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں بشرطیکہ لائن آف کنٹرول پرپھر جنگ شروع نہ ہوجائے۔لیکن امید ہے کہ اب جب تجارت چار دن ہوگی تو زیادہ تاجروں کو مواقع دستیاب ہوں گے۔بظاہر ایسا نظر آتاہے کہ اگلے چند برسوں میں جموں وکشمیر کے دواطراف میں زبردست اقتصادی سرگرمیاںشروع ہوجائیں۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved