اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

ارشادمحمود

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔06-08-2011

جنرل شجاع پاشا کا چائنا کارڈ
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کا دورہ چین عین اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ ہفتے چین کے شہر کاشغر میں دہشت گردوں کے ایک حملے میں گیارہ شہری جاں بحق ہوگئے۔کاشغرپولیس کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ حملہ آور پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت لے چکے ہیں۔اگرچہ چینی حکام اور ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو زیادہ نمایا ں نہیں کیا لیکن اس انکشاف نے اہل پاکستان کو چونکا دیا ہے کیونکہ چین ایک ایسا دوست ہے جس کے تئیں پاکستانیوں کا سینہ محبت سے لبریز ہے۔سنکیانگ وہ خطہ ہے جہاں کی مسلمان آبادی میں بیجنگ کی سیاسی اور معاشی حکمت عملیوں پر نہ صرف بے چینی پائی جاتی ہے بلکہ وہاں چند ایک گروہ ایسے بھی منظم ہوچکے ہیں جو طاقت کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغرب میں ان گروپوں کو دہشت گرد نہیں بلکہ ہیرو تصور کیا جاتاہے ۔
پاکستان نے نہ صرف سنکیانگ میں پائی جانے والی بے چینی کوکم کرنے میں چین کی مدد کی ہے بلکہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام نے بھی چین کی حکومت کے خدشات کو کم کرانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ان دونوں جماعتوں کی قیادت اور ان کے ذیلی اداروں کے چین کی سیاسی قیادت اور اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔یہی نہیں بلکہ پاکستان نے ترکی کو بھی آمادہ کیا کہ وہ سنکیانگ میں چین کی مدد کرے ۔ترکی وہ واحد ملک تھا جس کے سنکیانگ کی یوغر آبادی سے گہرے نسلی اور لسانی مراسم ہیں۔مغرب میں یہ توقع کی جاتی تھی کہ ترک سرزمین کو یوغرعلیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیاجا ئے گا لیکن پاکستان کی کوششوں سے ترک اورچین تعلقات میں جوہری بہتری آئی ہے ۔ ترکی نے چینی مسلمانوں کے مسائل کو سیاسی سطح پر حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔علاوہ ازیں ترکی اور چین دونوں افغانستان میں بھی باہم تعاون پر آمادہ ہیں۔
مغربی اور بھارتی ذرائع ابلاغ ہی نہیں بلکہ سیاسی اور سفارتی حکمت کاروں کو پاکستان اور چین کے مابین پائی جانے والی قربت ایک آنکھ نہیں بہاتی ہے۔اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان پیداہونے والی کشیدگی کے بعد پاکستانی قیادت نے جس طرح چین کے ساتھ اپنی تعلقات کی گہری کا اظہار کیا اور جوابی طور پر چینی قیادت نے جس والہانہ انداز میں پاکستان کی سالمیت اور جغرافیائی سرحدوں کے تقدس کے تحفظ کو یقینی بنانے میں پاکستانی موقف کی تائید کی اس طرح کی سفارتی کاری کی نظیر تلا ش کرنا مشکل ہے لیکن ان بیانات نے مغربی دنیا میں خطرہ کی گھنٹی بجادی ہے۔امریکا میں جاری بحث ومباحثہ میں یہ نکتہ بڑی شدت سے اٹھایا جاتاہے کہ کس طرح چین اور سعودی عرب کو آماد ہ کیا جائے کہ وہ پاکستان پر دباﺅ ڈالیں اور اسے اپنی پالیسیاں بدلنے پر آمادہ کریں۔
گزشتہ چند ماہ میں رونماہونے والے واقعات سے یہ بخوبی اندازہ کیا جاسکتاہے کہ پاکستان کے اندر بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی خفیہ اداروں کے نیٹ ورکس متحرک ہیں ۔جنہیں بے پناہ مالی اور انسانی وسائل بھی دستیاب ہیں اور جو بڑے سے بڑا حادثہ کرانے کی پوزیشن میں بھی ہیں۔ اس لیے یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ پاکستانی اداروں کی نظروں سے اوجھل رہ کر ایسی سرگرمیاں جاری ہوں جو دونوں ممالک کے مفادات کے برعکس ہوں۔افغانستان یا قبائیلی علاقوں میں یوغر شدت پسندوں کے لیے آسانی سے پناہ گائیں قائم کی جاسکتی ہیں۔جنہیں پاکستانی گروپوں سے منسوب کرکے پاک چین تعلقات کو خراب کیا جاسکتاہے۔
جنرل احمد شجاع پاشا کی بیجنگ میں موجودگی چینی قیادت کو یہ باور کرانے میں مددگار ہوئی ہوگی کہ پاکستان میں چین مخالف کسی کارروائی کا تصور بھی محال ہے لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ دہشت گردوں کے کئی ایک گروہ پاکستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں ۔پاکستان کی حکومت ابھی تک ان گروہوں کو نکیل ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔پاکستانی اداروں کی یہ نا اہلی نہ صرف دنیا بلکہ چین کی حکومت اور عوام کو بھی پاکستان سے بیزار کررہی ہیں۔اسلام آباد کو دہشت گرد عناصر اور ان کے سیاسی سرپرستوں کو غیر موثر بنائے کے لیے ہمہ پہلو اور نتیجہ خیزحکمت عملی مرتب کرنا ہوگی جس میں معاشرے کے فعال طبقات کی شراکت کو بھی یقینی بنایا جائے۔
امریکا نے پاکستانی اداروں کوجس طرح بے خبر رکھ کر ابیٹ آباد آپریشن کیا ہے اس نے پاک امریکا تعلقات میں گہری دراڑیں ڈال دی ہیں جن کو ابھی تک کوششوں کے باوجود سلجھایا نہیںجاسکاہے۔آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے مابین جاری کشمکش اب گلی محلوں میں زیربحث ہے۔گزشتہ آٹھ ماہ میں سی آئی اے کے دو اسٹیشن چیفس کو اسلام آباد چھوڑنا پڑا۔امریکیوں کی نقل حرکت غیر معمولی طور پر محدود کردی گئی حتیٰ کہ امریکی سفیر کیمرون منٹر جب کراچی روانہ ہونے کے لیے اسلام آباد ائر پورٹ پر جہاز میںسوار ہوئے تو سیکورٹی اہلکاروں نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس کراچی جانے کا اجازت نامہ ہے؟ حکومت چاہتی ہے پاکستان میں موجود ہر امریکی شہری کی سرگرمیوں کے بارے میں اسے مکمل معلومات ہونی چاہیے۔
واشنگٹن اور اسلام آباد میں پائے جانے والی تصادم کی موجودہ کیفیت میں کوئی نمایاں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ دونوں فریقین میں کوئی بھی پسپائی اختیار کرنے کی بھاری سیاسی قیمت چکانے پر آمادہ نہیںہے۔ اسلام آباد کی ہیت مقتدرہ میں تیزی سے چین نواز عناصر غالب آتے جارہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں پاکستان امریکا سے دور ہوتا جائے اور چین کے مزید قریب ہوجائے تاکہ امریکا سے بدلا چکایا جاسکے۔چین پہلے ہی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور دفاعی سازوسامان کی خرید وفروخت میں شراکت دار ہے۔آٹھ ہزار چینی باشندے اس وقت پاکستان میں مختلف پروجیکٹس پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
چین کی جانب بڑتے ہوئے جھکاﺅ میں یہ حقیقت مدنظر رہنی چاہیے کہ اب سرد جنگ کا زمانہ لد چکا ہے۔خود چین اور امریکا کے مابین کافی قریبی تعلقات ہیں۔چین اور بھارت کے مابین تجارتی حجم میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ علاوہ ازیں چین اب کوئی علاقائی طاقت نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت ہے جو صرف پاکستان کے تناظر میں دینا سے تعلقات استوار کرنے سے رہا ۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو باوقار بنانے کی کوشش جاری رکھے ۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے ۔لیکن محض چائنا کارڈ لہراکر اپنے اور چین کے لیے مسائل پیدا نہ کرے۔
http://www.facebook.com/ershad.mahmud

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved