اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

ارشادمحمود

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔13-08-2011

پاکستان سعودی عرب تعلقات کا نیا باب
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی تبدیلی کی حالیہ لہر نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین پائے جانے والی سردمہری کو گرم جوشی میں تبدیل کردیا ہے۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا حالیہ دورہ سعودی عرب دونوں ممالک کے تجدید تعلقات کی کوششوں کا ایک حصہ ہے ۔حالیہ دوتین ماہ کے دوران پاکستان اور سعودی عر ب کی قیادت اور سرکاری حکام کے مابین کئی اعلیٰ سطحی رابطے ہوئے ہیں جن میں خطہ میں مشترکہ مفادات کے لیے اشتراک عمل کو مزید گہرا کرنے کا عہد کیا گیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب سے اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ سطح پر سرد مہری سی پیدا ہوگئی تھی۔ روایتی طور پر سعودی عرب پاکستان کی فوجی حکومتوں یا پھر میا ں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ (ن)کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتاآیا ہے۔اس کے برعکس متحدہ عرب امارات کی حکمرانوں کے ساتھ پیپلزپارٹی کی قیادت بالخصوص محترمہ بے نظیر بھٹو اور بعد ازاں آصف علی زرداری کے ذاتی مراسم ہیں۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران اسلام آباد اور ریاض کے مابین اعلیٰ سطحی رابطوں نے سفارتی حلقوں میں ایک ہلچل مچادی ہے۔مارچ کے آخر میں شہزادہ بندر بن عباس جو سعودی عرب کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ہنگامی طور پر اسلام آباد تشریف لائے ۔ انہوں نے حکومت کے علاوہ فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بھی مذاکرات کیے ۔ سعودی عرب میں پیدا ہونے والی کسی امکانی بے چینی کی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان سے تعاون کی درخواست بھی کی۔اپریل میں اس وقت کی وزیرمملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھرکو ریاض میں غیر معمولی پروٹوک دیا گیا اور انہوں نے شاہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی۔ مئی میں جب وزیرداخلہ رحمان ملک ریاض گئے تو انہیں نہ صرف شاہ عبداللہ نے ملاقات دی بلکہ تمام اعلیٰ سعودی قیادت بھی اس میٹنگ میں موجود تھی۔ اس میٹنگ پر مبصرین حیرت زدہ رہ گئے۔ جولائی میں آصف علی زرداری سعودی عرب گئے اور اب صدر زرداری کی شاہ عبداللہ سے ملاقات کے محض بیس دن بعد وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے سعودی عرب حکمران شاہ عبداللہ اور سعودی قیادت کے ساتھ ملاقات کی۔محض پانچ ماہ کی مختصر مدت میں اس قدر اعلیٰ سطحی دوروں اور پے درپے مذاکرات کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔
دونوں ممالک میں پیداہونے والی حالیہ گرم جوشی کے پس منظر میں دو محرکات کارفرما ہیں۔سعودی عرب چاہتاہے کہ پاکستان ایران پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے اور اسے عرب ممالک کی اندورنی سیاست میں مداخلت سے باز رکھے۔اسی پس منظر میں آصف علی زرداری سعودی عرب کے دورے سے چند دن قبل تہران گئے تاکہ وہاں کی قیادت کو سعودی عرب کا پیغا م دے سکیں۔علاوہ ازیں سعودی عرب پاکستان سے کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے ٹھوس امدا د کی یقین دہانی چاہتاہے۔سعودیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر تصور کرتے ہیں لیکن 1990کی دہائی میں جب عراق نے کویت پر قبضہ کے بعد سعودی عرب پر حملے کی دھمکی دی تو پاکستان نے سعودی عرب کی کوئی مدد نہ کی۔ کہاجاتاہے کہ ایک طویل عرصہ تک سعودی قیادت ہر ملاقات میں پاکستانی حکمرانوں سے یہ گلہ کرتی رہی ہے کہ انہوں نے سعودی عرب سے بے وفائی کی تھی حالانکہ میاں نواز شریف سعود ی عرب کی مدد کے لیے فوج بھیجنا چاہتے تھے لیکن مہم جو جنرل اسلم بیگ آڑے آگئے۔
بحرین سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک طرح کا بفر زون ہے۔چند ماہ قبل جب بحرین میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تو وہاںکی حکومت نے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور پاکستان سے فوجی تعاون کی درخواست کی ۔دونوں ممالک نے ایک ایک ہزار فوجی بحرین روانہ کیے جبکہ پاکستان نے ایک ہزار سابق فوجیوں کو بحرین کی نیشنل گارڈز میں بھرتی ہونے کی اجازت دی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی برادری نے بحرین میں مظاہرین کے ساتھ ہونے والے ریاستی سلوک پر کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ وہاں کی حکومت کی حمایت جاری رکھی۔
امریکا کے مشرق وسطیٰ بالخصوص خلیجی ممالک کے ساتھ گہرے معاشی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں ۔وہ وہاں برسراقتدار حکمران طبقہ کا تحفظ کرنا چاہتاہے لیکن اسے بھی کوئی راستہ سجائی نہیں دیتاہے۔پاکستان کے بھی سعودی عرب کے سیاسی استحکام سے گہرے معاشی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔پندرہ لاکھ پاکستانی وہاں برسرروزگارہیں۔ یہ حقیقت کم ہی لوگوں کے علم ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کو 1960ءسے سعودی عرب نے سب سے زیادہ امداد دی ہے۔مسئلہ کشمیر سمیت تمام اہم عالمی امور پر سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا۔اسلام آباد کو بخوبی احساس ہے کہ سعودی عرب کی موجودہ حکومت پاکستان کے سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
دو مئی کے آبیٹ آباد آپریشن کے نتیجے میں پاکستان پر امریکا کی جانب بے پناہ دباﺅ ڈالا جارہاہے کہ وہ امریکی ترجیحات کے مطابق شدت پسندوںکے خلاف کارروائی کرے۔امریکی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں جو یک طرفہ خبریں اور تبصرے چھپ رہے ہیں وہ دونوں ممالک میں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی محض کسی ایک ملک سے تناﺅ نہیں ہوتاہے بلکہ امریکا عالمی مالیاتی اداروں اور پاکستان کے خلیجی دوست ممالک پر بھی گہرا اثرورسوخ رکھتاہے۔اگر ان تعلقات کو سنبھالا نہ کیا تو امریکا پاکستانی اقتصادیات کو تباہ کرسکتاہے۔ اسلام آباد چاہتاہے کہ سعودی عرب مریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بڑتی ہوئی خلیج کو کم کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
افغانستان کے معاملے میں بھی پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اشتراک عمل چاہتاہے کیونکہ امریکا پاکستان کو باہر رکھ کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی جوکوشش کررہاہے وہ بارآور ہوتی نظر نہیں آتی ہے۔ اسلام آباد کی خواہش ہے کہ سعودی عرب افغانستان میں جائز پاکستانی مفادات کے حوالے سے امریکیوں کو قائل کرے۔پاکستان کھلے دل سے سعودی عرب کی مدد کرنا چاہتا ہے۔کہاجاتا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اپنی فوج کی مصروفیات کے باوجود عندیا دیا ہے کہ وہ باوقت ضرورت دوڈویژن فوج فوج سعودی عرب روانہ کرسکتاہے۔پاکستان کو قدرت نے ایک منفرد موقع دیاہے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے مابین غلط فہمیوں کا ازالہ کرائے تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہوسکے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved