اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

ارشادمحمود

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔18-08-2011

پاکستان انا ہزارے کی تلاش میں
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
بھارت کے ممتاز سماجی کارکن اناہزارے نے مالیاتی کرپشن کے خلاف جہدوجد کا علم بلند کیاتو وہ چند ہی ماہ میں بھارت کے سیاسی منظرنامے پرچھا گئے۔بھارتی سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ میں ان کی بے پناہ پذیرائی دیکھ کر بھارتی حکمران ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھی خائف ہوگئی ہے۔حکمران کانگریس اور بی جے پی دونوں کے مابین صرف ایک نکتے پر اتفاق ہے کہ انہوں نے کرپشن کے خلاف انا ہزاے کے مطالبات تسلیم نہیں کرنے ہیںکیونکہ بی جے پی ہو یا کانگریس پرپشن کی بہتی گنگا میں ہر ایک نے حصہ بقدرے جثہ وصول کیا ہے اور مزید وصول کرنا چاہتاہے۔اناہزارے اور ان کے ساتھیوں کا مطالبہ ہے کہ پارلی منٹ ایسا قانون وضع کرے جس میں بدعنوانی یا رشوت ستانی کے الزام میں ارکان پارلی منٹ ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم سے بھی حسب ضرورت پوچھ گچھ کی جاسکے۔عوامی دباﺅ کے تحت کانگریس نے پارلی منٹ میں محتسب مقرر کرنے کا ایک بل پیش کیا ہے لیکن حکمران جماعت کوئی ایسی قانون سازی نہیں کرنا چاہتی ہے جس کے نتیجے میں وزیراعظم کو بھی جواب دہی کے عمل سے گرزنا پڑے۔انا ہزارے کے حمایتی سرکاری بل کو سنگین مذاق قراردیتے ہوئے اسے مسترد کرچکے ہیں۔
اناہزارے نے بدعنوانی اور رشوت ستائی کے خلاف جو تحریک شروع کی ہے اسے بھارت میں غیر معمولی مقبولیت مل رہی ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں جہاں بھارت نے تیزی کے ساتھ معاشی ترقی ہے وہاں بدعنوانی اور رشوت کا گراف بھی حیرت انگیز حد تک بلند ہواہے۔گزشتہ برس جب بھارت میں کامن ویلتھ گیمز ہوئی تو بدعنوانی کے قصے نہ صرف بھارتی ذرائع ابلاغ بلکہ عالمی میڈیا نے بھی خوب ذائقے لے کر بیان کیے۔کہاگیا کہ سرکاری افسروں نے ٹھیکداروں کے ساتھ مل کر اربوں روپے خردبدر کرلیے جس کی بدولت کامن ویلتھ گیمز میں بھارت کو خفت اٹھانا پڑی۔
بھارتی سپریم کورٹ بھی بدعنوانی کے خلاف متحرک ہوتا جارہاہے۔گرشتہ برس سپریم کورٹ نے بدعنوانی اور رشوت ستانی کے پچاس مقدمات کی سماعت کی۔اب سپریم کورٹ حکومت پر زور دے رہاہے کہ وہ غیر ملکی بینکوں میں بھارتی شہریوں کے 450ارب ڈالر کے بابت تحقیق کرے کہ یہ دولت کس طرح بیرونی بینکوں میں جمع کرائی گئی ہے۔پاکستان کے برعکس بھارت میں کوئی بھی شخص بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ذات پر بدعنوانی کا الزام نہیں لگاتا ہے لیکن یہ بات بڑی شدت سے کہی جاتی ہے کہ وہ کمزور حکمران ہیں جو سخت فیصلے لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔اسی وجہ سے کرپشن کے سیلاب کے آگئے پل باندھا نہیں جاسکا ہے۔یہی نہیں بلکہ بھارتی فوج کے اعلیٰ احکام بھی اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں۔جس سے خوب جگ ہنسائی ہوئی۔دوسری جانب خود حکومتی اطلاعات کے مطابق لوک سبھا کے 28فیصد ارکان جرائم کے کئی ایک مقدمات میں مطلوب ہیں۔
پاکستان ہی کی طرح بھارتی حکمران اناہزارے کی تحریک کو پارلی منٹ کے خلاف سازش قراردیتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انا ہزارے کے مطالبات تسلیم کرلیے گے تو پارلی منٹ کی بالادستی دم توڑ جائے گی ۔قانون سازی کا ختیار پارلی منٹ کو ہے نہ کہ انا ہزارے کو لیکن عوام یہ سوال اٹھاتی ہے کہ اگر پارلی منٹ عوامی مفاد کے برعکس قانون سازی کرتی ہے تو اسے روکنے کا کیا میکانزم ہوگا؟بھارتی سپریم کورٹ سے بھی کانگریسی حکومت سخت ناراض ہے کہ وہ انتظامی معاملات میں مداخلت کرتاہے ۔پاکستان کی طرح بھارت میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ سپریم کورٹ ،سول سوسائٹی اور میڈیا کس طرح اشتراک سے حکومت کو کرپشن اور بدعنوانی کے ارتکاب سے روک سکتے ہیں؟
پاکستان میں بھی سرکاری سرپرستی میں جاری بدعنوانی اور رشوت ستائی سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی انا ہزارے نہیں ہے جو شہریوں کو متحرک کرسکے۔سپریم کورٹ اکیلا سرگرم ہے لیکن اسے نظر آنے والی عوامی حمایت دستیاب نہیں ہے۔حکومت نت نئے بہانے تراشتی ہے اور سپریم کورٹ کے احکامات کو ٹالتی رہتی ہے۔حکومت کرپشن کے خلاف کمر بستہ ہونے اور مالیاتی سیکنڈلز کو بے نقاب کرنے کے بجائے تحقیقات کے راستہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔
اگست 14کو میاں محمدنواز شریف نے اپنے جماعتی ارکان سے حلف لیا ہے کہ وہ کرپشن اور بدعنوانی کے مرتکب نہیں ہوں گے اور اس کے خلاف جہاد بھی کریں گئے ۔نواز شریف کا اعلان جہاد قابل تحسین ہے لیکن انہیںاپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے مزید شفاف اقدامات کرنے ہوں گے ۔اپنی جماعت سے کالی بھیڑوں کا صفایا کرنا ہوگا۔میاں صاحب پر ٹیکس سمیت کئی ایک مالیاتی امور کے حوالے سے الزمات ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ ہر الزام کا ٹھوس اعداد وشمار کے ساتھ جواب دیں تاکہ لوگوں کا ان پر اعتماد بحال ہوسکے۔اسی طرح ان کی اپنی جماعت کے عہدے دار بالخصوص جو افراد پنجاب حکومت میں شامل ہیں ۔ہر سال اپنے اثاثوں کا گواشوارہ اخبارات یا اسمبلی میں پیش کریں تاکہ عوام خود فیصلہ کرسکیں کہ انہوں نے سرکاری رسوخ کا فائدہ اٹھا کر ذاتی اثاثوں میں اضافہ کیا ہے کہ نہیں۔
علاوہ ازیںپنجاب میں شریف برادران مالیاتی امور زیادہ سے زیادہ شفاف بنا کر دیگر صوبوں کے لیے مثال قائم کرسکتے ہیں۔اس ضمن میں جدید ٹکنالوجی سے بھی مستفید ہوا جاسکتاہے۔ ¿ترقی پذیر ممالک میں سے کئی ایک نے جدید ٹکنالوجی کی مدد سے کرپشن کے مواقع کافی محدود کیے ہیں۔خاص طور پر جب تمام بڑے منصوبوں کے فارمز اور ان کی بولی آن لائن کردی جاتی ہے۔تو کسی شک وشبے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔اسی طرح تمام اہم معلومات آن لائن کی جاسکتی ہیں جس کے نتیجے میں لوگوں کو دفتروں کے چکر کاٹنے اور سرکاری ملازمین کے ترلے یا ان کی مٹھی گرم کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف پاکستان میں ایک ملک گیر تحریک کی ضرورت ہے اور ہر شہری کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔بصورت دیگر بدعنوانی اور رشوت ستائی ہمارے معاشرے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتی رہے گی اور خاکم بدھن ایک دن یہ عمارت گرجائے گی۔بدعنوانی کے خلاف جاری جنگ میں سیاستدانوں کے ہمراہ سماجی کارکنوں کوبھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ہر شہر میں ایک اناہزارے کی ضرورت ہے جو جرات مند بھی ہو اور قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved