اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0300-2237225

Email:-mahmedtarazi@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔28-08-2010

مردہ ضمیر تماش بین اورانسانی کھال پہنے وحشی درندے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

کالم۔۔۔------------ محمد احمد ترازی

 
جب معاشرہ بے حس،قانون خاموش اور قوم تماشائی بن جائے۔ ۔ ۔ ۔
گذشتہ کئی دنوں سے ذہن ماؤف اور خیالات منتشرہیں،دل و دماغ میں سناٹا طاری ہے،لفظ،الفاظ کی شکل اختیار کرنے اور صفحہ قرطاس پر بکھرنے سے گریزاں ہیں،سوچ کی وادیوں میں ویرانی چھائی ہوئی ہے،تخیل کے درخت کو مایوسی کی آکاس بیل نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور خیالات کے بہتے دریا سوکھے ہوئے ہیں،طبیعت کے اضحلال نے ذہنی سکون و یکسوئی غائب کردی ہے،جونہی قلم پکڑتے ہیں،آنکھوں کے سامنے وہی درندگی،شقاوت،حیوانیت،سنگدلی اور سفاکی سے لبریز وحشت و بربریت آمیز منظر گھوم جاتے ہیں،جس میں انسانی کھال پہنے وحشی درندے دو نوجوانوں کو لزرہ خیز سفاکی اوروحشیانہ اندازمیں ڈنڈوں سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں۔
اُن کی نعشوں کی بے حرمتی کررہے ہیں،کھمبے پرالٹا لٹکا رہے ہیں،ٹریکٹر ٹرالی پر سارے شہر میں گھما رہے ہیں اوربرف کی بے جان سلوں کی مانندزمین پر پھینک رہے ہیں،یہ سب کچھ دن کی روشنی میں شہر اقبال و فیض میں ایک رواں دواں سڑک کے بیچوں بیچ ہورہا ہے،خوفِ خدا اور جوابدہی و گرفت کے احساس سے بے نیاز قبیلہ قاتلاں سے تعلق رکھنے والے بے حس افراد کا انبوہ کثیر دل لہو اور رونگٹے کھڑے کردینے والے اِس خونی منظر کو دیکھتا ہے،لطف اندوز ہوتاہے اور چپ چاپ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتا ہے۔
حیرت ہے کہ کسی کے دل میں خوف ِخدا کا احساس پیدا نہیں ہوا،کسی کے سینے میں درد نے انگڑائی نہیں لی،کسی ایک نے بھی آگے بڑھ کر ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہیں کی،وردیوں میں ملبوس،سروں پر ٹوپیاں سجائے،سینے اور شولڈروں پر بیج لگائے اور ہاتھوں میں ہتھیار پکڑے سرکاری اہلکار وں سمیت،بچے،بوڑھے،جوان اور ادھیڑ عمر باریش افرادپر مشتمل مردہ ضمیرتماش بینوں کا ہجوم لہو میں لت پت،دو تڑپتے اوربے بس نوجوانوںکو ایک کے بعد ایک خونی درندوں کی بہیمانہ درندگی و تشدد کا خاموشی سے نشانہ بنتے دیکھتا رہا۔
اِس واقعہ کو کئی دن گزر گئے،لیکن طبیعت پر مرتب ہونے والے اثرات آج تک کم نہ ہوسکے،بارہاچاہا کہ بھول جائیں مگر ہر باریہ واقعہ اپنی پوری سنگینی کے ساتھ سامنے آکھڑا ہوا،وہی رونگٹے کھڑے کردینے اور دہلادینے والے مناظر چار سو نظر آتے ہیں،آج کئی دن گزرنے کے بعد بھی ہم اِس موضوع پر لکھتے ہوئے خزاں رسید ہ پتے کی طرح کانپ رہے ہیں،چاہتے ہیں کہ اپنے دکھ،تکلیف اورکربناک احساس میں آپ کوبھی شریک کر یں،لیکن ہماری بے بسی یہ ہے کہ الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دے رہے،لغت میں ہمیں کو ئی لفظ ایسا نہیں مل رہا جو اِس دکھ کا بو جھ اٹھا سکے۔
اِس اندوہناک واقعے کی مکمل وضاحت و احاطہ کرسکے اور اِس فعل قبیح کی سنگینی کو سندو جوازفراہم کرسکے،یا الہٰی کیا کریں....الفاظ وضاحت سے عاری ہیں .... لغت معنی و مفہوم فراہم کرنے سے عاجز و مجبور ہے....شقاوت،درندگی، حیوانیت،اور سفاکی جیسے الفاظ بھی اِس فعل کی سنگینی کے سامنے ہمیں حقیراوربونے لگتے ہیں.... اورہم جولفظ بھی چنتے ہیں وہ بے مائیگی،بے بسی اور شرمندگی کی تصویر بن جا تا ہے۔
ایک اسلامی معاشرہ توبہت دور کی بات ہے،کسی نام نہاد انسانی معاشرے میں بھی اِس انداز کی انسان کشی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،جس طرح سیالکوٹ پولیس کی موجودگی میں انیس سالہ حافظ مغیث اور پندرہ سالہ محمد منیب کے ساتھ ہوا، ہم اِس ظلم و بربریت کی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتے کہ یقینا آپ اِس سے بخوبی واقف ہیں،لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ لوگوں کا یوں قانون ہاتھ میں لے لینا کسی مہذب معاشرے کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے اور قانون کے محافظوں کا تماشہ دیکھتے رہناسب سے بڑا جرم عظیم ہے۔
اِس درندگی کی ویڈیو فلم اگر ٹی وی چینلوں سے جاری نہ ہوتی اور عدالت عظمیٰ از خود نوٹس لے کر حکومت پنجاب اور پولیس کو کارروائی کا حکم نہ دیتی توشاید اِس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات بھی درج نہ ہوتے،سوال یہ ہے کہ ہر بار عدالت عظمیٰ کو ہی نوٹس کیوں لینا پڑتا ہے اور اُسے ہی کیوں اپنی درد مندی اور دل سوزی کا اظہار کرنا پڑتا ہے،حکومت اور حکومتی ادارے کیا کرتے اور کہاں سوئے رہتے ہیں۔؟
یہ حقیقت ہے کہ ایک معاشرہ اپنے یہاں بسنے والے افراد کے ربط وضبط،میل جول اور باہمی تعلقات کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے، تحمل،برداشت،رواداری کی اقدار افراد میں بہترین تعلقات کار کی پرورش کرتی ہیں،جن معاشروں میں حقیقی جمہوریت کا کلچر موجود ہو وہاں جمہور کی قوت مثبت مقاصد کیلئے روبہ عمل آتی ہے اور ایسے معاشرے کا کوئی فرد ،افراد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا تصوربھی نہیں کرسکتا،لیکن جن معاشروں میں فکرو عمل کے تضاد کا چلن عام ہو،جہاں گُن تو اعلیٰ اقدار کے گائے جائیں،جہاں دعوے تو قانون و انصاف کی حکمرانی کے کئے جائیں۔
مگر عملی طور پر معاملہ اِس کے برعکس ہو،جہاں ایک محدود بااثر اقلیت ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو اور غریب عوام کی اکثریت ایک وقت کی روٹی کو ترس رہی ہو،جہاں مایوسیوں کے ڈیرے ہوں اور خودکشیوں کا راج ہو،اُن معاشروں کے افراد کو ذہنی انتشار اور فکری انارکی پرتشدد راستوں کی طرف لے جاتی ہے،جس کی وجہ سے کسی بھی ہنگامی و ہیجانی کیفیت میں قانون کو ہاتھ میں لے لینا ایک معمول بن جاتا ہے۔
مگر اِس تناظر میں ظلم و بربریت،وحشت و درندگی،اور لاقانونیت کو بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا اور نہ ہی اِسے سند جواز عطا کی جاسکتی ہے،یوں تو معاشرتی اور سماجی ارتقاءکی تاریخ اچھے،برے،نیک و بد اور ظالم و مظلوم کے مابین کشمکش اور تضاد سے بھری پڑی ہے،مگر معاشرے میں نیکی،بھلائی،امن و سلامتی اور خیر خواہی کی اقدار کی علمبردار قوتیں ہمیشہ سرگرم عمل رہتی ہیں۔
اور انہی قوتوں کے فیضان سے بد ترین حالات میں بھی معاشرے کی اکثریت بھلائی اور بہتری کی فضا کو قائم رکھتی ہے جس کی وجہ سے قانون کے احترام کیلئے مثبت دباؤ کی کیفیت برقرار رہتی ہے اور بدقماش عناصر کے کرد گھیرا تنگ رہتا ہے،لیکن اِس کے باوجود جب کسی مقام پر لاقانونیت،ظلم و بربریت اورسفاکی کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے تو اُس کی بڑی وجہ انتظامی شعبوں کی مجرمانہ غفلت ہوتی ہے،سانحہ سیالکوٹ بھی انتظامی اداروں کی اِسی مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہے۔

ہمارا ماننا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سربرستی اورلاقانونیت کے راج نے ہجوم کو ایسا وحشی درندہ بنادیا ہے جو محض ایک اشارے پر کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر دو بے گناہ نوجوانوں کو ڈنڈوں،لاٹھیوں اور پھاوڑوں سے مار مار کر ہلاک کردیتا ہے،قارئین محترم یہ ایک ایسا کربناک سانحہ ہے جس میں مجرموں کے ساتھ عوام اور پولیس بھی شامل ہے،منیب اور مغیث کو بے رحمی سے قتل کرنے والوں کا ایک جرم تو بہت واضح ہے کہ انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔
مگر پولیس کا جرم یہ ہے کہ اس نے اپنے فرائض سے غفلت برتے ہوئے اپنی موجودگی میں دونوں نوجوانوں کووحشیانہ درندگی کا نشانہ بننے دیا،جو کہ قابل تعزیر اور ہماری نظر میں ناقابل معافی جرم ہے،رہے وہ تماشائی جو اِس سفاکانہ منظر کو دیکھ کر خاموش تماشائی بنے رہے اور اِس مکروہ واردات سے لطف اٹھاتے رہے،قاتل نہیں توشامل قتل اور قتل عمد کے مرتکب ضرور ہیں اور ہماری رائے میں اُن پر بھی اعانت مجرمانہ کا مقدمہ درج ہونا چاہیے اور انہیں بھی قرار واقعی سزا ملنا چاہیے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ سانحہ سیالکوٹ نے بڑے بڑوں لوگوں کی زبانیں گنگ اور سوچ کے دھارے منجمد کردیئے ہیں،شقاوت،سفاکی اور سنگدلی جیسے تمام الفاظ اِس کے سامنے ہیچ قرار پاتے ہیں،ہماری نظر میں اِس واقعے کی اصل ملزم پولیس اور سب سے بڑھ کر خود ریاست ہے، جب ریاست خود مجرم بن جائے تو وہ مجرموں کے خلاف کارروائی کیسے ہوسکتی ہے،سانحہ سیالکوٹ جس انداز میں سرعام پیش آیا ہے،وہ اِس بات کی علامت ہے کہ اِس علاقے کی پولیس اور جرائم پیشہ طبقات کو کسی کے احتساب کا کوئی خوف نہیں ہے۔
زبانی کلامی قانون کے نفاذ کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں،لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ اِن دعوؤں کی سب سے زیادہ خلاف ورزی خود حکومت اور اُس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کرتے ہیں،بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئی ایسی قوت موجود نہیں جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت کا احتساب کرسکے۔
اگر یہی حال رہا تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت ملک کو انتشار اور انارکی کی طرف لے جائے گی اور یہ معاشرہ،معاشرہ نہیں بلکہ ایسے جنگل میں تبدیل ہو جائیگا،جس میں حیوانوں کی حکمرانی اور درندوں کا راج ہوگا،یاد رکھیں،جب معاشرہ بے حس ہوجاتا ہے،قانون خاموش ہوجاتا ہے اور قوم مہربہ لب تماشائی بن جاتی ہے تو ایسے معاشروں کے مقدر میں ذلت و رسوائی انحطاط اور تنزلی لکھ دی جاتی ہے اور ایسی حالت میں اُس معاشرے پر عذاب الہٰی کا نازل ہونا تعجب خیز نہیں ہوتا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved