اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0300-2237225

Email:-mahmedtarazi@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔24-11-2010

بے یقینی کے موسموں میں ایقان کی چٹھیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کالم۔۔۔------------ محمد احمد ترازی


اردو زبان میں خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے اور خطوط نویسی کی روایت اتنی توانا ہے کہ بذات خود ایک صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے،جس کی سب سے بڑی مثال مرزاغالب کے خطوط ہیں،مولانا ابو الکلام آزاد بھی مکتوب نگاری میں ایک طرز خاص کے موجد ہیں،مولانا کے خطوط کے مکاتیب ابولکلام آزاد،نقش آزاد،تبرکات آزاداورکاروانِ خیال کے نام سے شائع ہو چکے ہیں،لیکن سب سے زیادہ شہرت”غبار خاطر “ کے حصے میں آئی،مکتوب نگاری دراصل اردو ادب کی قدیم صنف ہے مگر یہ ادبی شان اور مقام و مرتبہ کی حامل کب ہوتی ہے،ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال ہے کہ ”خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اِس کو خاص ماحول، خاص مزاج،خاص استعداد ایک خاص گھڑی اور خاص ساعت میسر آجائے تو یہ ادب بن سکتی ہے۔“بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ” خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے ۔“

اِس بات کا عملی ثبوت مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کا وہ خط ہے جو آپ نے4اگست 1941ءکو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے نام لکھا تھا،مجاہد ملت لکھتے ہیں”جناب قائد اعظم !میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ ملت کے جسم پر سے اِن لاعلاج ناسوروں کو ایک مرتبہ دور کردیں گے تو نیا خون سامنے آئے گااور معاملات ایک نیارخ اختیار کریں گے اور اِس طرح ہمارے خواب پورے ہونگے،پرانی مشینوں سے نئے ماڈلز برآمد نہیں ہوسکتے اور نہ ہی پرانی وضع قطع کے اشخاص سے نئے رجحانات کو پورا کرنے کی اُمید کی جاسکتی ہے،نئے حالات نئی حکمت عملی کے متقاضی ہیں،بیشک ماضی سے اچانک رشتہ ختم نہیں کیا جاسکتا،لیکن ہر قیمت پر سفر آگے کی طرف ہونا چاہیے نہ کہ پیچھے کی طرف،ہم بہت خوش ہیں کہ ہم نے آپ کی ذات میں ایک ایسا رہنما پالیا ہے جو اِس قوم کے نوجوانوں کی جبلّی خواہشات کو نہ صرف بخوبی سمجھتا ہے بلکہ غداروں سے نپٹنے کی جرات بھی رکھتا ہے ۔“

یکم اکتوبر 1915ءکو عیسیٰ خیل میانوالی کے ممتاز نیازی خاندان میں پیدا ہونے والے مجاہد ملت تحریک پاکستان کے نامور اور بے باک رہنما تھے،آپ مفکر اسلام علامہ اقبال کی صحبت سے فیضیاب اور قائد اعظم محمد علی جناح کے سچے جانثار سپاہی تھے، آپ نے قیام پاکستان کیلئے بستی بستی،قریہ قریہ اور کوچہ کوچہ پاکستان کا پیغام پہنچانے کیلئے دن رات محنت کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنی زندگی نفاذ نظام مصطفی کیلئے وقف کردی،قائد اعظم نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا کہ”جس قوم کے پاس عبدالستار نیازی جیسے پیکران یقین و صداقت اور صاحبان عزم و ہمت ہوں،اُس کے پاکستان کو کون روک سکتا ہے۔“پیغمبرانقلاب حضور سیّد عالم کا ارشاد مبارک ہے کہ ”بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے۔“ضیغم اسلام مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کا شمار اُنہی اللہ والوں میں ہوتا ہے،جنھوں نے اپنی تمام عمر جابر حکمرانوں اور اسلام دشمن طاقتوں سے معرکہ آرائی میں گزاری،ہر دور کی آمر ی قوتوں کو للکارا،کبھی کلمہ حق کہنے سے گریز نہیں کیا،ہمیشہ اصول پرستی کا مظاہرہ کیا اور ساری زندگی سیاسی شعبدہ بازیوں،منافقت اور ریا کاری سے دور اِس شعر کی مصداق گزاری
جیتا ہوں نگہبانی اسلام کی خاطرفاق ہیں میری تلخ نوائی سے گلہ مند
حقیقت یہ ہے کہ مسلم اسٹوڈینس فیڈریشن کے قیام سے لے کر 1940ءمیں قرار داد پاکستان کی منظوری تک،تشکیل پاکستان سے لے قرار داد مقاصد کی جہدوجہدتک،1953ءکی تحریک ختم نبوت کے مرحلہ دارورسن سے لے کر ایوبی آمریت تک،یحییٰ خان کے دور سیاہ سے لے کر بھٹو کی جمہوری آمریت تک،1977ءکی تحریک نظام مصطفی کی قید وبند سے لے کر ضیاءالحق کے مارشل لاءاور 2مئی 2001ءکو اپنی وفات تک ہرہر قدم پر مجاہد ملت کی داستان عزم و ہمت بکھری ہوئی ہے ۔
زیر نظر کتاب ”مکاتیب مجاہد ملت“اسی مرد خود آگاہ کے اُن چھیاسی خطوط پر مبنی ہے جو آپ نے 1941ءسے 1992ءتک بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح،شہید ملت لیاقت علی خان،راجہ صاحب آف محمود آباد،خواجہ ناظم الدین،میاں محمود علی قصوری،مولانا کوثر نیازی،مولانامودودی،حکیم محمد موسیٰ امرتسری،جنرل ضیاءالحق،میاں نواز شریف،سید شہاب دہلوی،مجید نظامی،عبدالقادر حسن،ارشاد احمد احمد حقانی،نذیر ناجی،ظہور الحسن بھوپالی،جسٹس ذکی الدین پال،اقبال احمد فاروقی، بشریٰ رحمان،ظہور الدین امرتسری،میجر امیراللہ خان نیازی،معراج خالد،ملک محمداکبر ساقی،معاصر سیاستدانوں، دانشوروں اوردوستوں کو لکھے،نصف صدی کے طویل عرصے پر محیط یہ خطوط اُس دورکے سیاسی،ثقافتی،تہذیبی،علمی،معاشرتی، اقتصادی اوردینی و ملی مسائل کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں،مجاہد ملت کے لکھے ہوئے یہ خطوط بتاتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے دوران پنجاب میں مسلم لیگ کن صبر آزما مراحل سے گزری اور کن کن تلخ حوادث و حادتات سے دوچار ہوئی،اِن خطوط میں اُن پردہ نشینوں کے بھی نام ملتے ہیں جنھوں نے سالہا سال تک پردہ نگاری کے پیچھے وہ کچھ کیا جس کی سزا آج ہم من حیث القوم بھگت رہے ہیں،مجاہد ملت کے خطوط کی اہمیت کا ایک اور پہلو اپنے عہد کی تاریخی،سیاسی اور معاشرتی تصویر کشی ہے،اُنہوں نے اِن تحریروں میں اپنے زمانہ کی معاشرت اور سیاست کی طرف واضح اشارے کئے ہیں،خصوصاً تحریک پاکستان کے دوران لکھے گئے اُن کے خطوط تحریک کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات اور سیاسی اتار چڑھاو کے چشم دید گواہ اور زندہ تاریخ ہیں ۔
اِن مکاتیب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تنہا اور مجرد زندگی گزارنے والے مجاہد ملت کا پہلا اور آخری عشق پاکستان اور پاکستان میں نفاذ انظام مصطفی سےتھا،یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنادل اور جان پاکستان اور نفاذ اسلام کیلئے وقف کردی اور اُن راہوں کا سفر اختیار کیا جن پر قدم قدم پر جھوٹ،ریاکاری اور منافقت کے کانٹے بچھے ہوئے ہیں،محترمہ بشریٰ رحمان نے بہت خوبصورت بات لکھی کہ آپ زندگی بھر”بے یقینی کے موسموں میں ایقان کی چٹھیاں تقسیم کرتے رہے اور ادراک کی بلند فصیلوں کے اُس طرف بیٹھنے والوں کیلئے نقیب بنے رہے ۔“

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مجاہد ملت کی شخصیت ایک انفرادیت کی مالک تھی،وہ گھسے پٹے راستے پر چلنے والے مسافر نہیں تھے،وہ اپنی طبیعت کے اعتبار سے انقلابی راہرو بھی تھے اور میر کارواں بھی،انہوں نے سادگی،سلاست،بے تکلفی و بے ساختگی،گنجلک اورمغلق انداز بیان کی بجائے سادا مدعا نگاری کے محاسن اپنائے جو مکاتیب مجاہد ملت میں نمایاں نظر آتے ہیں،اُن کے مکاتیب اُن کی بلند اور قدآور شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں،مجاہد ملت کے طرز تحریر میں،انوکھے پن کے ساتھ، عالمانہ سنجیدگی اور دور اندیش مسلم رہنماءکی بصیرت موجود ہے،جسے سامنے رکھ کر ہم باآسانی مجاہد ملت کی زندگی،فکر و سوچ اور کردار و عمل کا مکمل خاکہ تیار کرسکتے ہیں،مجاہد ملت کا اسلوب ایک شمشیر بے نیام ہے،جس میں قوس و قزاح کے رنگوںکے ساتھ مومنانہ شان اور اللہ کی برہان جھلکتی ہے اور اُن کی ہمہ گیر انقلابی شخصیت کو ظاہر کرتی ہے،مکاتیب کا مطالعہ اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ مجاہد ملت کی ذہانت بہت تیزی سے ہر شخص یا ہر چیز کا مضحک پہلو دیکھ لیتی ہے” مکاتیب مجاہد ملت “ کا اسلوب اردو میں نامعلوم مدت تک زندہ رہے گا،درحقیقت مکاتیب مجاہد ملت“ کی دلکشی کا اصل راز اُس کی طرز تحریر میں ہے،تخلیق نثر کا یہ شہکار صدیوں تک مسافران عزیمت کو فکری و نظریاتی اساس کی دولت عطا کرتا اور خراج تحسین وصول کرتا رہے گا ۔
دیکھا جائے تو ”مکاتیب مجاہد ملت“ میں شامل خطوط کثیر المقاصد ہیں جنھیں ”ماہر نیازیات و محقق“ جناب محمد صادق قصوری نے بڑی عقیدت اور جانفشانی سے اِس طرح ترتیب دیا ہے کہ یہ اپنے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے نظر آتے ہیں،کتاب کے آخر میں شامل”تشریحات و تصریحات“ اور” تذکرہ رجالِ مکاتیب مجاہد ملت“ کے باب اُن شخصیات،تنظیموں اور اداروں کے بارے میں اہم معلومات پر مبنی ہیں جومجاہد ملت کے مخاطبین رہے،اِس کارنامے پر محترم محمد صادق قصوری صاحب بانی و ناظم اعلیٰ مجاہد ملت فاونڈیشن برج کلاں ضلع قصور لائق صد تحسین ہیں،جنھوں نے اپنی شبانہ روز کاوشوں سے اِس کتاب کو از سر نو ترتیب دیا اور حضرت مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کی حیات و خدمات کے سلسلے میں ”مکاتیب مجاہد ملت “جلد اوّل کا گراں قدر اضافہ کیا ہے،جناب صادق قصوری صاحب 5فروری 1943ءکو پیدا ہوئے،انٹر تک تعلیم حاصل کی،1963ءمیں محکمہ زراعت سے وابستہ ہوئے اور 2003ءمیں بحیثیت زراعت انسپکٹر محکمہ سے ریٹائر ہوئے،آپ نے اپنا سب سے پہلا مضمون 1961ءمیں لکھا،اُس دن سے آج تک کاعذ اور قلم سے رشتہ برقرار ہے،موصوف ”مکاتیب مجاہد ملت“ سے قبل”اکابر تحریک پاکستان،تحریک پاکستان میں علماءو مشائخ کا کردار،کاروان تحریک پاکستان،نذر مجاہد ملت،مجاہد ملت بحضور حکیم الامت،مناقب مجاہد ملت،مجاہد ملت مشاہیر کی نظر میں،مجاہد ملت کا روحانی مقام،مجاہد ملت بحضور رسالت مآب،مجاہد ملت خطوط کے آئینے میں،مولانا عبدالستار نیازی،مولانا عبدالستار نیازی مجاہد ختم نبوت،غازی ختم نبوت،ارمغان مجاہد ملت،مجاہد ملت حیات،خدمات تعلیمات،نگارشات مجاہد ملت،خطبات مجاہد ملت،تحریک مشائخ نقشبند،رباعیات خواجہ نقشبند،حضرت امیر ملت اور اُن کے خلفاء،مکاتیب امیر ملت،تذکرہ شعرائے جماعتیہ‘‘ وغیرہ جیسی چالیس سے زائد اہم معلوماتی اور تاریخی کتابیں ترتیب دے چکے ہیں ۔
محترم صادق قصوری صاحب کی ذات عوام اہلسنّت کے لیے سرمایہ افتخار ہے جو اپنے اکابرین کی حیات و کارناموں کو نوجوان نسل کے سامنے لانے کا موجب ہے،انہوں نے مکاتیب مجاہد ملت کو ترتیب دے کراِس کتاب کو مفید عام ہی نہیں بنایا بلکہ فن خطوط نویسی میں ایک مثبت اور اہم تاریخی دستاویزکا اضافہ بھی کیا ہے اور علم و ادب اور تاریخ کی ایسی شاہرا ہ پر اپنا راہوار قلم دوڑایا ہے،جس کی آج کے حالات میں شدید ضرورت تھی،ہم اُن کے اِن جواں جذبوں کو سلام کرتے ہیں جو اہلسنّت کے علمی احیاءکےلئے ستائش و مالی منعفت سے بے نیاز پیرانہ سالی میں شہری سہولتوں سے دور قصور کے دور افتادہ مضافات ”برج کلاں“ میں بیٹھے سرگرم عمل ہیں،ہماری دعا ہے اللہ کریم اُن کے علم،عمر اور زرق میں برکتیں عطا فرمائے (آمین بحرمة سیّد المرسلیٰن)

علامہ نیاز فتح پوری نے لکھا تھا”مشاہیر اہل علم و قلم کے خطوط کی جمع و ترتیب کو دور حاضر میں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی،حالانکہ یہ خطوط ایک سرمایہ سے کم نہیں،اہل علم و فکر،صاحب دانش کے قلم سے نکلے الفاظ،پندونصائح،حالات کے بہتے دھارے پر اُن کے تبصرے،نقد و جرح اہم نکات کی نشاندہی اور فکری رہنمائی مہیا کرتے ہیں۔“ زیر نظر کتاب ”مکاتیب مجاہد ملت “ کی جمع و ترتیب اِسی سوچ کی عکاس ہے،محمد صادق قصوری کی اِس کاوش سے متروک عمل کا اجراءہوا ہے اور اُمید ہے کہ ایسے صاحبان جن کے پاس مجاہد ملت کی بیش قیمت تحریروں سے مرصع خطوط گرد میں دبے ہیں وہ انہیں فراہم کرکے جلد دوم کی زینت بناکر افادہ عام کی نیک سعی میں اپنا حصہ ڈالیں گے،کتاب چالیس روپے کے ڈاک ٹکٹ بھیج کر مجاہد ملت فاونڈیشن،برج کلاں ضلع قصورپوسٹ کوڈ 55051فون نمبر03064469496سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved