اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0300-2237225

Email:-mahmedtarazi@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔28-12-2010

پہلے خود بعد میں عوام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کالم۔۔۔------------ محمد احمد ترازی


اِس وقت پاکستان کے ایوان بالا سینٹ،قومی اورچاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی تعداد 1170ہے،یہ وہ ارکان سینٹ،قومی و صوبائی اسمبلی ہیں جن کی اکثریت کا تعلق پاکستان کے سرمایہ دار،جاگیردار اور زمیندار طبقے سے ہے،لیکن ملک کے کھاتے پیتے طبقے سے تعلق رکھنے والے اِن افراد کی اکثریت کسی قسم کا کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتی،2008ءکے الیکشن کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق موجودہ قومی اسمبلی،سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے 463 ارکان جن کی تعداد 61فیصد بنتی ہے ٹیکس جمع کرانے کے دعویدار ہیں،لیکن صرف109یعنی 9فیصد ارکان کی جانب سے معمولی یعنی ایک لاکھ یا اِس سے زائد ٹیکس جمع کرایا گیا،جبکہ 707ارکان ایسے ہیں جنھوں نے اپنے حلف ناموں میں اِس بات کی تصدیق ہے کہ وہ کوئی ٹیکس جمع نہیں کراتے،اِن ٹیکس نادہندگان کی سب بڑی تعداد بلوچستان اسمبلی میں78فیصد،خیبرپختونخواہ اسمبلی میں 77فیصد،سندھ اسمبلی میں 74فیصد،پنجاب اسمبلی میں57فیصد،قومی اسمبلی میں 53فیصد اور سینٹ میں 48فیصد ہے،واضح رہے کہ قومی اسمبلی کا ایوان جو ہرسال فنانس بل منظور کرکے ٹیکسوں میں کمی بیشی کرتا ہے کے 342 ارکان قومی اسمبلی میں سے 181ارکان ایسے ہیں جو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے،جبکہ161ارکان کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن ریکارڈ کہتا ہے کہ صرف 43ارکان قومی اسمبلی ایسے ہیں جو ایک لاکھ یا اِس سے زائد ٹیکس ادا کرتے ہیں،جو کہ اُن کی آمدنی کے حساب سے کوئی بڑی رقم نہیں کیونکہ اِس سے زیادہ ٹیکس تو ایک عام تنخواہ دار آدمی ادا کررہا ہے،یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ملکی تاریخ کی بھاری بھرکم کابینہ جس کے ایک وزیر کا سالانہ خرچہ 16کروڑ اور کل کابینہ کا سالانہ خرچ 15 ارب 36 کروڑ بنتا ہے،رکھنے والے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سمیت کابینہ کے 25ارکان ایسے ہیں جو قومی خزانے کو ٹیکس کی مد میں کوئی پیسہ ادا نہیں کرتے ۔
قارئین محترم یہ اِس ملک کے اُن ارکان قومی،صوبائی اورممبران سینٹ کی مجموعی صورتحال ہے جن کا تعلق ملک کے غریب اور مفلوک الحال خاندانوں سے نہیں ہے،نہ ہی یہ وہ لوگ ہیں جنھیں بھوک،غربت،مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا ہے،بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا طرز زندگی ملک کی مجموعی آبادی سے ہزار ہا درجے بہتر،آسودہ،پرسکون اور عیش و عشرت پر مبنی ہے،انہیں زندگی گزارنے کیلئے کسی قسم کا کوئی فکروفاقہ نہیں،یہ لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ دودھ،تیل،گھی،اور سبزی جیسی بنیادی اشیاء ضرورت مارکیٹ میں کس بھاؤ بک رہی ہے،یہ وہ لوگ ہیں جو صرف الیکشن جیتنے کیلئے لاکھوں روپئے کے اخراجات کرتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد کرڑوں روپئے بناتے ہیں،بھاری بھاری تنخواہیں وصول کرتے ہیں،سرکاری مراعات استعمال کرتے ہیں اور قومی خزانے پر عیش کرتے ہیں،ستم ظریفی دیکھئے کہ ہر حکومت کا حصہ بنے والے یہ لوگ قومی خزانے کو کچھ دینے کی بجائے عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر اپنے عشرت کدے سجا تے ہیں،لیکن ٹیکس کی مد میں کوئی پیسہ جمع نہیں کرتے،جبکہ اِن کے مقابلے میں ملک کا غریب اور متوسط طبقہ جو تن ڈھانپنے،سر چھپانے اور پیٹ بھرنے کی تگ ودو میں بڑی طرح جکڑا ہوا ہے،مختلف مدوں میں اِن طبقہ اشرافیہ سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے ۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں امیروں پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگاتی ہیں تاکہ اُس آمدنی کو محروم طبقات کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاسکے،مگر وطن عزیز میں بڑی سفاکی کے ساتھ غریبوں کے منہ کا نوالہ چھین کر وسائل پر قابض اشرافیہ کے عیش و آسائشوں میں اضافہ کیا جاتاہے اور وہ بھی ایک ایسی حکومت کے دور میں جو معاشرے کے پسماندہ طبقے کو روٹی،کپڑا اور مکان دینے کے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے،لیکن یوں لگتا ہے کہ حکومت نے عوام سے روٹی،کپڑا اور مکان چھیننے کا عزم کیا ہوا ہے،اِس وقت عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ پہلے ہی بجلی،گیس،پٹرولیم مصنوعات اور اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے بھاری بھرکم بوجھ کو اٹھانے سے قاصر آچکی ہے،لوگ غربت بھوک،بے روزگاری اور مہنگائی سے مجبور ہوکر خودکشیاں کررہے ہیں،مگر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے گونگے،بہرے اور اندھے ارباب اقتدار خود ٹیکس دینے کے بجائے عوام کی زندگی کو مشکل سے مشکل دشوار تربناتے جارہے ہیں،نئی حکومت کے آنے سے قوم صورتحال میں بہتری کیلئے انقلابی اقدامات کی توقع کر رہی تھی،مگر افسوس کہ انہیں سوائے مایوسی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا،کیونکہ حکمرانوں کی ساری توجہ عوامی مسائل کے حل کے بجائے اپنے آقا امریکہ بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے پر ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت عوام کومشکلات سے چھٹکارا دلانے کیلئے کوئی عملی اقدامات کرتی،لیکن افسوس کہ سب کچھ الٹا ہی ہو رہا ہے،مہنگائی،بے روزگاری اور غربت کے ستائے ہوئے عوام پرنت نئے ٹیکسوں کا بم گرا یا جارہا ہے،وزیر اعظم کی عوامی مسائل سے بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ وہ کئی بار اپنی آئینی میعاد کا ذکر کرتے ہوئے یہ اصرار کرچکے ہیں کہ پانچ سال سے پہلے کسی حساب کتاب کی بات نہ کی جائے،اِن حالات میں عوام کی بڑی تعداد یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ حکمرانوں کا تصور جمہوریت اُن کی خواہشات اور امنگوں کے برعکس ہے،جو کہ حکمرانوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
یہ درست ہے کہ حکومت چلانے کیلئے ٹیکس کا حصول لازمی اَمر ہے،ٹیکس ضرور لگنے چاہئیں،لیکن اِس کےلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ قوم کو اِس قابل بنایا جائے کہ وہ ٹیکس ادا کر سکے،دنیا کے ہر ملک میں اُمور مملکت چلانے کیلئے عوام سے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں،اگر کوئی حکومت عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے تو اُس کے وہ عوض سہولیات بھی فراہم کرتی ہے،سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو حکومت نے کون سی سہولیات دی ہیں،جبکہ عوام تو دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہی ہے،تعلیم کے دروازے غریب آدمی کےلئے بند ہیں،صحت کی سہولیات ناپید ہیں،امن و امان کی صورتحال سب کے سامنے ہے،اِس کے باوجود ہماری حکومت عوام کا خون نچوڑ کر نظام حکومت چلانا چاہتی ہے،اُسے احساس ہی نہیں کہ وہ عوام جو بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے سے قاصر ہے اور اشیاءضرورت کے حصول میں ناکامی پر خودکشیوں پہ مائل ہے،مزید ٹیکس کہاں سے ادا کرے گی،ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ حکمران جو عوام پر ٹیکس عائد کرتے ہیں اور جن کی جائیدادیں پاکستان سے لے کر بیرون ملک تک پھیلی ہوئی ہیں،کیا وہ خود ٹیکس ادا کرتے ہیں،اوّل تو ادا ہی نہیں کرتے اگر کرتے بھی ہیں تو اربوں،کھربوں کی جائیداد اور اثاثوں پرہزاروں کا معمولی ٹیکس دیا جاتا ہے،لہٰذا اس صورتحال میں ٹیکس وصولی کی ابتدا ءجاگیرداروں،سرمایہ داروں،حکمرانوں،سیاستدانوں،بیورو کریٹوں،جرنیلوں اور اُس امراءطبقے سے ہونی چاہیے جس نے اُس ملک کے تمام تروسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔

پاکستان کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے ہر محب وطن پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھایا جائے،لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور کھربوں کی جائیداد اور اثاثے رکھنے والوں کو تحفظ دے کر صرف غریب عوام،سرکاری ملازمین اور چھوٹے کاروباری طبقے پر ٹیکس کا عذاب نازل کر دیا جائے،یہ تو وہ طبقہ ہے جس سے پہلے ہی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے،کیا سرمایہ داروں،جاگیرداروں،سیاستدانوں اور حکمرانوں پر اس ملک کو کوئی حق نہیں؟ آئی ایم ایف،عالمی بنک اور امداد دینے والے ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے سرمایہ داروں،جاگیرداروں اور بڑے بڑے مگرمچھوں کو ٹیکس رینج میں لایا جائے،لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس کے باوجود حکومت سرمایہ داروں،جاگیرداروں اور بڑے بڑے مگرمچھوں کو تحفظ دے کر صرف غریب عوام کو زندہ درگور کرنے پر تلی ہوئی ہے،یہ اِس ملک کے غریب قوم کی بدقسمتی ہی ہے کہ اہل اقتدار کی اکثریت قانون اور ضابطوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اپنے صوابدیدی اختیارات کے مزے لیتی ہے اور قوم کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والاپیسہ جو کہ قوم کی امانت ہے کوبے دردی سے لٹانا شروع کر دیتی ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں،اعلیٰ ترین سطح کی شخصیتوں اور اُن کے متعلقین پر غبن اور کرپشن کے الزامات لگتے ہیں،اسکینڈل سامنے آتے ہیں،لیکن کوئی اپنا جرم تسلیم نہیں کرتا،بلکہ بیچ بچاؤ کی صورت نکال کر معاملے کو ٹھنڈا کردیا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں ملک میں کرپشن کلچر کو بے تحاشا فروغ ملا ہے،جس کی وجہ سے ملکی معیشت ڈوب رہی ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے،وہ ادارے جو کل تک ملکی خزانے میں اربوں روپے کا منافع جمع کراتے تھے،خسارے کی وجہ سے آج تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں،ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سمیت کئی ملکی اور غیر ملکی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر ملکی خزانے میں ہونے والے غبن اور انتظامی کرپشن کو روکا جائے تو ملک کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے،جبکہ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ مختلف طریقوں سے خورد برد اور چوری کئے جانے والے 10ارب روپے کے ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنانے کیلئے قابل عمل تدابیر اختیار کی جائیں تو عوام پر کوئی نیا بوجھ ڈالے بغیر قومی ضروریات کےلئے وافر سرمایہ مہیا ہوسکتا ہے ۔
چنانچہ اِن حالات میں پہلے ہی محصولات کے بوجھ تلے دبے ہوئے چند لاکھ ملازمت پیشہ اور رضاکارانہ ٹیکس ادا کرنے والے افراد پر دباؤ بڑھانے یا غریب اور متوسط طبقے کو بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے،اِس کےلئے وہ بڑے لوگ جنھوں نے خود کو ہر قسم کے ٹیکسوں اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی سے مبرا قرار دے رکھا،اور جو عوام کے خون پسینے سے حاصل ہونے والے محصولات شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے اور بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں،کوبھی ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا،لہٰذا آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حکومت چھوٹے کاروباری،سرکاری ملازمین اورعوام جو پہلے ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں،پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ عائد کرنے کی بجائے اُن مراعات یافتہ طبقات سے ٹیکس وصول کرنا شروع کرے جو اربوں،کھربوں کی جائیدادوں،اثاثوں اور زمینوں کے مالک ہونے کے باوجود ٹیکس نہیں دیتے،دوسری طرف ملکی معیشت اور اقتصادی حالت سنبھالنے کیلئے اِن طبقات کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا،کہ یہی اچھے حکمرانوں کا فرض اوّل،ملک وقوم سے محبت کی علامت، موجودہ معاشی مسائل کا بہترین حل اور دین اسلام کا پہلا تقاضہ ہے ۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved