اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0300-2237225

Email:-mahmedtarazi@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔05-05-2011

بلوچستان کا آتش فشاں

کالم ۔ ۔ ۔ ۔ محمد احمد ترازی

بلوچستان سے فوج کی واپسی،خوش آئند مگر مسائل کا حل نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ 
محرومی،ناانصافی اور ظلم و زیادتی کے بطن سے ہمیشہ جرم،نفرت اور بغاوت کی زہر آلود کونپلیں پھوٹتی ہیں اورانتشار،لاقانونیت اور بے چینی ہی جنم لیتی ہے،جوکسی بھی ملک،قوم اور معاشرے کیلئے تباہی وبربادی کا باعث بنتی ہے،آج نفرت،بغاوت اور احساس محرومی کی آگ میں جلتا ہوا بلوچستان ایک ایسے ہی آتش فشاں کے دہانے پرکھڑاہے،جس سے اُگلنے والا لاوا نہ صرف قومی وحدت کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ قومی سلامتی اور ملکی استحکام کیلئے بھی مضر ہے،جبکہ اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی بقاءاستحکام اور سالمیت کیلئے ملک کی موجودہ اکائیوں کا برقرار رہنا بہت ضروری ہے،جو آج ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے شدید خطرات میں گھری ہوئی ہیں،مگر افسوس کہ اس نازک صورتحال میں بھی ارباب اقتدار کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ اِسے زبان،رنگ ونسل اور علاقہ کے نام پر مزید بڑھاوا دے رہے ہیں،بھانت بھانت کے راگ الاپ رہے ہیں اور اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کے بجائے جغرافیائی اور لسانی تقسیم کی باتیں کررہے ہیں،المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان جو ایک قومی وحدت اور اسلامی نظریئے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا،اُسے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور معاشی بے انصافیوں نے چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کردیا ہے،ایک طرف مجبور،بے بس اور لاچار لوگ ہیں،تو دوسری طرف بالادست،بااختیار اور تمام وسائل کے مالک ارباب اقتدار،یہی وہ معاشرتی ناہمواری ہے جس نے وفاق اور صوبوں کے درمیان فاصلہ بڑھادیا ہے،آج رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اور قدرتی و معدنی دولت سے مال صوبہ بلوچستان اِسی آگ میں جل رہا ہے اور خانہ جنگی کے باعث وہ ایک بار پھر اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک چنگاری زبردست دھماکے کا سبب بن سکتی ہے ۔
آج بلوچستان کے حالات اسقدر تشویشناک ہیں کہ ہر محب وطن شہری فکر مندہے،روم جل رہا ہے مگر ہمارے حکمران چین کی بانسری بجارہے اور بندوق کی نوک پر مسائل کے حل کی اُسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس نے سابقہ فوجی آمر کے دور میں بگاڑ کی بنیاد رکھی،غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو جنم دیا اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کیا،ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کربھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ذریعے بلوچستان کے انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی اورانہیں علیحدگی کی تحریک کی جانب راغب کیا،اگر مشرف دور میں فوجی آپریشن کے دوران بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا سانحہ رونما نہ ہوتا تو ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کیلئے موقع کی تاک میں بیٹھے عناصر کو اپنی مذموم کارروائیوں کیلئے موقعہ نہ ملتا اور آج یہ حالات نہ ہوتے،بدقسمتی سے اس سانحہ نے نفرت و منافرت کی گرہیں اتنی پیچیدہ کردی کہ اب کھولے نہیں کھل رہی،اِس تناظر میں بلوچستان کے حالات کے پیش نظر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی تشویش نظرانداز نہیں کی جاسکتی،بالخصوص قومی یکجہتی کی خاطر بلوچستان میں اعتماد کی فضاکی بحالی،محرومیوں کا ازالہ اور اُس کے حقوق کی سیاست کرنےوالے قوم پرست لیڈروں کو قومی دھارے میں لانا بہت ضروری ہوگیا ہے،جس کیلئے ہمیں لسانی اور علاقائی عصبیت کے دائرے سے باہر نکل کر خود کو ایک قوم ایک ملت کی شکل میں ڈھالنا ہو گا،ترجیحی بنیادوں پر بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے عملی پیش رفت کرنا ہوگی اور فوجی حکمرانی کے دور میں بلوچستان کے عوام اور قوم پرست لیڈروں کے دلوں میں پیدا ہونیوالی غلط فہمیوں کو دور کر نا ہوگا ہے ۔

اِس حوالے سے گذشتہ دنوں آرمی چیف نے آئندہ بلوچستان میں افواج پاکستان کو کسی آپریشن میں شریک نہ کرنے کا اعلان اور پانچ ہزار بلوچ نوجوانوں کو پاک فوج میں شامل ہونے کی دعوت دیکر فوجی حکمرانی کے دوران بلوچ قوم میں افواج پاکستان کے بارے میں پیدا ہونیوالی غلط فہمیاں دور کرنے کی مثبت کوشش کی ہے،اُمید ہے کہ اِس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے،تاہم افواج پاکستان کو اندرونی خطرات کی نوبت لانے والے بیرونی محرکات کا بھی سدباب کرنا چاہیے جو دفاع وطن کا بنیادی تقاضہ ہے،اگر قومی یکجہتی کی خاطر بلوچستان میں افواج پاکستان کو عوام کیخلاف آپریشن سے دور کرنا ضروری ہے تو اسی جذبے کے تحت قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن سے افواج پاکستان کو باہر نکال لیا جانا بھی لازمی ہے کیونکہ یہ آپریشن بھی ردعمل میں خودکش حملوں کا باعث بن کر قومی اتحاد و یکجہتی اورافواج پاکستان کے ساتھ عوام کے اعتماد و بھروسے کے رشتے کو کمزور کر رہاہے، اِس میں کچھ شک نہیں کہ بلوچستان سے فوج کی واپسی ایک مستحسن فیصلہ ہے مگر یہ بلوچستان کے مسائل کا پائیدار اور مستقل حل نہیں ہے،گو کہ پاکستان آرمی نے بلوچستان کے احساس محرومی کو کم کرنے کےلئے جہاں اور بہت سے منصوبوں پر کام جاری رکھا ہوا ہے وہیں آرمی چیف کی طرف سے کوئٹہ میں آرمی میڈیکل کالج کے قیام کا فیصلہ بھی انتہائی مفید اور سود مندہے،اِس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان آرمی کو بلوچستان بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنا کوئی اور صوبہ اور یہ کسی ایک صوبے کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی فوج ہے ۔
بلاشبہ بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے،یہاں ایک زمانے سے ایسے عناصر موجود ہیں جو اسلام آباد اور پنجاب کے بارے میں منفی تاثر پھیلا کر بلوچ نوجوانوں کو اکسا تے رہے ہیں کہ وہ ہتھیار اٹھا کر اپنے حقوق حاصل کریں،خصوصاً پچھلے دس سالوں میں سرحد پار سے ملنے والی امداد کی وجہ سے ایسے عناصر کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے،اَمر واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کے عناصر کی بیخ کنی میں پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے اور سرکردہ بلوچ سرداروں کو قومی دھارے میں لا کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ لوگ بلوچستان کی قسمت کی مالک نہیں ہیں جو علیحدگی کی باتیں کرتے ہیں بلکہ اکثریت اُن سرداروں اور محب وطن لوگوں کی ہے جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کو اِس وقت بدترین اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے جس سے عہدا برآں ہونے کےلئے قومی سطح پر اتحاد و یکجہتی کی شدید ضرورت ہے تاکہ دشمن کو ہماری کسی اندرونی کمزوری سے مزید فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے،کیونکہ بھارت تو تشکیل پاکستان کے وقت سے ہی ہماری آزادی و خودمختاری اور سا لمیت کے درپے ہے اوروہ ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،جبکہ کروسیڈی عزائم رکھنے والی ہنود اور یہود و نصاریٰ پر مبنی عالمی طاغوتی قوتیں بھی پاکستان کو ایک ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اپنے مذموم و مکروہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں،اِس شیطانی اتحاد ثلاثہ کا اوّلین مقصد پاکستان کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے،چنانچہ ملک کی سا لمیت کے خلاف دشمن کی گھناؤنی سازشوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے ٹھوس،جامع اور با مقصد حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس سلسلے میں حکومتی،سیاسی اور عسکری قیادتوں کو باہم سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے متفقہ لائحہ عمل تلاش کرنا ہوگا،کیونکہ حالات کا تقاضہ یہ مطالبہ کررہا ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے مزیدچشم پوشی اختیار کرنے کے بجائے،اُس کے زخموں پر مرہم رکھا جائے،اُسے امدادنہیں جائز حق دیا جائے،اُسے مسائل نہیں وسائل فراہم کئے جائیں اور محض زبانی دعوؤں اوروعدؤں کے بجائے عملی اقدامات کی طرف توجہ دی جائے،ہمارا ماننا ہے کہ اہل بلوچستان اسلام پسند اور محب وطن پاکستانی ہیں اور وہ بھی پاکستان سے اُتنی ہی محبت کرتے ہیں،جتنی کہ ہم اور آپ کرتے ہیں،آج اگر وہ ناراض ہیں تو حکمرانوں کے طرز عمل سے ناراض ہیں،پاکستان سے ناراض نہیں،اُن کے دل محبت،اخوت اور جذبہ ایثار سے ہی جیتے جاسکتے ہیں،صرف ایک یہی راستہ ایسا ہے جسے اپناکر بلوچستان سے بدامنی،نفرت اور بغاوت کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے،حکومتی اور سیاسی قائدین نے اگر اب بھی بلوچستان کے مسئلے پر فوری توجہ نہ دی تو یہ صوبہ بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گا اور پھر شاید کوئی دوا،کوئی مرہم اورکوئی پھایا اُس کے زخموں کو مندمل نہ کرسکے گا،لہٰذا ہماری ارباب اقتدار اور تمام سیاسی قائدین سے گزارش ہے کہ وہ ناراض بلوچوں کو منانے اور انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ دیں،یاد رکھیں کہ صرف محبت،ایثار،ہمدردی اور جذبہ حب الوطنی ہی بلوچستان کو بچا سکتاہے اور قومی وحدت کو قائم رکھ سکتا ہے ۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved