اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0300-2237225

Email:-mahmedtarazi@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔27-05-2011

فرد جرم تیار ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کالم ۔ ۔ ۔ ۔ محمد احمد ترازی

مہران نیول بیس پر حملہ امریکی آپریشن تھا ۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان کا اصل دشمن امریکہ یا طالبان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیوبش(سینئر) نے کہا تھا کہ ”دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کا آغاز القائدہ سے ہوتا ہے لیکن یہ وہاں پر ختم نہیں ہوجائے گی .....یہ ایک طویل مہم ہے جو پہلے کسی نے نہیں دیکھی،اِس میں ٹی وی پر دکھائی دینے والے ڈرامائی حملے بھی شامل ہیں اور ایسے خفیہ آپریشن بھی،جن کی کامیابی کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا،دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہر ملک کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا،یا وہ ہمارا ساتھی ہے یا دہشت گردوں کا۔“ امریکی صدر کی عقل وخرد سے عاری اِس اشتعال انگیز تقریر نے اکیسویں صدی کا وہ خونی دیباچہ لکھا جس کے لہو رنگ صفحات آج وطن عزیز کے چپے چپے میں بکھرے ہوئے ہیں،اُس وقت ہمارے ارباب اقتدار کا خیال تھا کہ ہم نے امریکہ کا دست وبازو بننے کا فیصلہ اپنے ایٹمی پروگرام کو بچانے اور کشمیر پر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کیا ہے،امریکی عزائم کی وسعتوں اور گہرائی کا اندازہ لگائے بغیر سابق فوجی آمر نے خود سپردگی کے عمل میں احتیاط اور تدبر سے کام لینے کے بجائے والہانہ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دلیل تراشی کہ” اِس وقت کسی مہم جوئی کا راستہ ہمیں پتھر کے زمانے میں لے جائے گا۔“جبر،دباؤ اور معذوری کے تحت کیے گئے فیصلے میں اِس حقیقت کو بھی نظر انداز کردیا گیا کہ نیوورلڈ آرڈر کا اوّلین تقاضہ یہ ہے کہ امریکہ ہر اُس قوت کا دم خم نکال دے گا جو کسی بھی وقت اُس کے اور اُس کے حواریوں کیلئے خطرہ بن سکتی ہے،ہمارے خوفزدہ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم جوئی میں امریکی دست وبازو بننے کے حوالے سے جودلکش ورنگین مناظر تخلیق کیے اور زبان و بیان کی جو حاشیہ آرائیاں تراشیں،آج اِس نام نہاد جنگ کے تمام نقوش نمایاں ہوکر سامنے آچکے ہیں،اب نوشتہ دیوار اُن لوگوں کو بھی صاف نظر آرہا ہے جو کل تک خوش گمانیوں کے رنگین غباروں سے دل بہلارہے تھے،امریکی دوستی کے دعوئے کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملارہے تھے اورڈالروں کی بارش کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے مژدے سنارہے تھے،حقیقت ہے کہ جب کسی ملک کی قیادت خوف اور دباو_¿ میں مبتلا ہوجائے،اُس قوم کے دانشور حقیقت پسندی کے نام پر قومی غیرت وحمیت کا مذاق اڑانے لگیں اور فیصلوں پر اختیار رکھنے والے قائدین ہر قیمت پر تصادم سے گریز کی پالیسی پر چل نکلیں تو توانا جذبوں اور ناقابل عزائم کی مالک قوم بھی اندیشوں ، واہموں اور خوف کے آسیب میں مبتلا ہوکر بھوسے کا ڈھیر بن جاتی ہے،اپنے وجود کی بقاءکا خوف اُس کے اعصاب سے ساری قوت وتوانائی چھین کر اُسے نامہربان موسموں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتا ہے،آج ہماری پوری قوم ایسے ہی نامہرباں موسم کی زد میں ہے،بے یقینی کے موسم نے حساس اور محب وطن افراد کی آنکھوں سے نیند کا خمار اڑا دیا ہے،دلوں میں اندیشوں اور وسوسوں کا خار دارجنگل اور بھی گھنا ہوگیا ہے اور چہرے پرشگفتگی و شادابی کی جگہ ”اللہ اِس ملک کی حفاظت کرے“ کی فکرو دعا نے لے لی ہے،اَمرواقعہ یہ ہے کہ ملک میں مسلسل اورپے درپے دہشت گردی کے ہونے والے واقعات کسی بڑے طوفان کی آمد کی خبر دے رہے ہیں،حالات کے تیور بتارہے ہیں کہ امریکہ اور اُس حواری بتدریج اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں،بلاشبہ ہم اِس وقت قومی تاریخ کے سنگین ترین دور سے گزررہے ہیں ۔

بائیس’’22‘‘مئی کومہران ائر بیس پر حملہ جو کہ راولپنڈی جی ایچ کیو کے بعد پاکستان کے کسی عسکری ادارے پر یہ دوسرا بڑا حملہ ہے اور جس میں انتہائی تربیت یافتہ لوگوں کو استعمال کیا گیا،اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے،مگر فوری ضرورت یہ معلوم کرنے کی ہے کہ کوتاہی کہاں ہوئی،کس سے ہوئی اور آئندہ کیا کرنا ہے،لیکن پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نعمان بشیر صاحب فرماتے ہیں کہ مہران ائر بیس پر حملہ سیکورٹی کی ناکامی نہیں،دہشت گرد ماہر تربیت یافتہ اور شارپ شوٹر تھے،وہ جتنے تجربہ کار تھے اُس کے مقابلہ میں نقصان کم ہوا،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سانحہ ایبٹ آباد اور مہران ائر بیس پر حملے چونکہ رات کی تاریکی میں ہوئے اِس لیے کامیاب رہے،یعنی اگر دن میں ہوتے تو نمٹ لیا جاتا،حیرت ہوتی ہے اِن بیانات کو دیکھ کر،ہماری اطلاعات کے مطابق مہران بیس اور اطراف کی سیکورٹی پر 11سو افراد متعین ہیں،مگراس کے باوجود بحریہ کے سربراہ اپنی اور اپنے ادارے کی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے دہشت گردوں کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں کہ وہ بڑے ماہر اور تربیت یافتہ تھے جن کے سامنے سب بے بس ہو گئے،اس پر بھی فخر کیا جارہا ہے کہ حملہ آور جتنے تجربہ کار تھے اس کے مقابلے میں تو نقصان بہت ہی کم ہوا ہے،گویا درجن بھرقیمتی جانوں کا زیاں،متعدد کا زخمی ہونا،2 انتہائی قیمتی پی تھری سی اورین طیاروں کی تباہی،تیسرے کا نقصان کوئی نقصان ہی نہیں ہے،اس پر مستزاد یہ کہ بحریہ اور بری فوج کے کمانڈرز،رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں 2 دہشت گرد اتنی آسانی سے فرار بھی ہوگئے جس آسانی سے اندر آئے تھے،یہ سب سیکورٹی کی ناکامی اور نااہلی نہیں تو اور کیا ہے؟گو کہ پی این ایس مہران کی سیکیورٹی کے حوالے سے عسکری ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ سیکورٹی میں کوئی کمی نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ اس سوال کا جواب دیں نہ دے سکے کہ یہ کیسے ممکن ہوا،حملہ آور کس طرح اندر پہنچے،کیوں کسی کو اُس وقت تک خبر نہیں ہوئی جب تک ہینگر میں کھڑے ہوئے طیاروں کو راکٹوں سے نشانہ نہیں بنایا گیا،حملہ آوروں کی تعداد کے بارے میں بھی متضاد اطلاعات سامنے آتی رہیں،کبھی ان کی تعداد 15 اور کبھی 20بتائی گئی،یہ بھی کہا گیا کہ کچھ مارے گئے اور کچھ زندہ پکڑلیے گئے،لیکن بعد میں کہا گیا کہ حملہ آور چھ تھے جن میں سے چار مار دیے گئے اور دو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے،ان چھ افراد نے فوجی کمانڈوز،بحریہ کے جوانوں اور رینجرز کو 18 گھنٹے تک مصروف رکھا اور بحریہ و رینجرز کے درجن بھرجوانوں کو شہید کردیا،سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ کئی دن گزرنے کے بعد بھی یہ طے نہیں ہو سکا کہ حملہ آور کتنے تھے اور وہ کیسے داخل ہوئے،ایک شبہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ حملہ آوروں کو اندر سے بھی مدد فراہم کی گئی،عام خیال یہ ہے کہ حملہ آور پچھلی طرف سے 5 فٹ اونچی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے جہاں سیکورٹی کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور وہاں کی نگرانی نہیں کی جاتی تھی،کیمرے اگر لگے ہوئے تھے تو یا تو وہ فعال نہیں تھے یا جھاڑیوں کی وجہ سے بے فائدہ تھے،حملہ آور بھاری اسلحہ اٹھا کر دو،ڈھائی کلو میٹر پیدل چل کر اندر داخل ہوئے اور انہیں کسی نے چیک نہیں کیا،تعجب کی بات ہے کہ ان دہشت گردوں نے 18گھنٹے تک بحریہ اور بری افواج کے کمانڈوز اور رینجرز کا مقابلہ کیا،جدید ہتھیاروں،راکٹوں اور بمبوں سے لیس ان حملہ آوروں کا اصل نشانہ بحریہ کے پی تھری سی اورین طیارے تھے جو 120 ناٹیکل میل تک کام کرنے والے ریڈار اور دیگر تباہ کن صلاحیتوں کا حامل اور پاک بحریہ کی ریڑھ کی ہڈی اور بحری آنکھ سمجھے جاتے ہیں،جنھیں دہشت گردوں نے باآسانی ہدف بناکر دینا کو یہ پیغام دیا کہ اب پاکستان کی سمندری حدود اور زیر آب وسائل بھی محفوظ رہے،یقینا اس کاروائی کے پیچھے وہی ہاتھ کارفرما ہے جو ہماری تباہی وبربادی چاہتا ہے،اب آپ ہی بتایئے کہ یہ سیکورٹی کی ناکامی نہیں اور تو ناکامی کسے کہتے ہیں،مگر پھر بھی اگر یہ اصرار کیا جائے کہ یہ سیکورٹی کی ناکامی نہیں تھی،دشمن ہی طاقت ور تھا،تواس صورتحال میں آئندہ کسی اصلاح احوال کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔؟
اَمر واقعہ یہ ہے کہ پی این ایس مہران پر حملہ غیر متوقع نہیں تھا،نائن الیون کے بعد سے اب تک مسلح افواج پر کم و بیش چالیس سے زائد حملے ہو چکے ہیں،19ماہ قبل جی ایچ کیو پر بھی اسی طرح کا حملہ ہوچکا ہے،حال ہی میں کراچی میں نیوی کی دو بسیں بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن چکی ہیں،پی این ایس مہران پاک نیوی کا ملک بھر میں واحد ہوائی اڈہ ہے،جہاں سمندروں کی نگرانی کرنے اور دشمن کے عزائم پر کاری ضرب لگانے والے گراں قدر قیمتی طیارے کھڑے تھے،راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے نشانہ بننے کے بعد یہ واضح تھا کہ مسلح افواج کی کوئی بھی عمارت،کوئی بھی اڈہ اور کوئی بھی تنصیب دہشت گردوں کا ہدف بن سکتی ہے،جبکہ اس سے قبل ایبٹ آباد کے واقعہ نے واضح کردیا تھاکہ ہم اس نوع کے بیرونی حملے کو روکنے کی سکت نہیں رکھتے،لیکن پی این ایس مہران کے واقعہ نے ثابت کردیا کہ ہماری انتہائی حساس تنصیبات بھی پانچ چھ دہشت گردوں کے داخلی حملے سے محفوظ نہیں ہیں،اس کے باوجود لاکھ تاویلات کے دفتر کھولے جائیں اور بھونڈے جواز تراشے جائیں مگر حقیقت یہی ہے کہ مہران بیس پر دہشتگردی کی کارروائی نے ہمارے دفاعی اور سکیورٹی نظام کی قلعی کھول دی ہے اور ناقص حفاظتی اقدامات اور حملہ آوروں کی کامیابی سے امریکہ کو یہ راگ الاپنے کا ایک اور موقع فراہم کردیا ہے کہ پاکستان اپنی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کا اہل نہیں ہے،پاکستان میں ریاست کی اتھارٹی مفلوج ہو چکی ہے اور دہشت گرد اتنے مضبوط اور توانا ہو چکے ہیں کہ ان کے ہاتھ کسی بھی وقت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک پہنچ سکتے ہیں،اسی وجہ سے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے کھل کر لکھا کہ کراچی میں مہران نیول ایئر بیس پر عسکریت پسندوں کی کاروائی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کی ناکامی کو بے نقاب کرتی ہے کہ سب سے زیادہ سخت حفاظتی علاقے بھی دہشت گردی کے حملوں سے محفوظ نہیں ہیں،یہ حملہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں میں اضافے اور اُن کی حفاظت پر امریکہ کی تشویش اور خدشات کو مزید گہرا کرتا ہے،امریکی اخبار نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مہران بیس سے صرف پچیس کلومیٹر دور مسرور ایئر بیس پر ایٹمی ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جب سب سے زیادہ سخت حفاظتی علاقے بھی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہیں تو کیا بعید امریکہ ایسا ہی کوئی حملہ کہوٹہ یا ہماری ایٹمی تنصیبات پر نہیں کرسکتا،ماہرین کا خیال ہے کہ حالیہ حملہ سیکیورٹی فورسز کی بڑی ناکامی ہے اور اس سے فوج اور سیکیورٹی ادروں کے حوالے سے عوام میں موجود امیج کو شدید دھچکہ لگا ہے،کیونکہ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کےلئے کسی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا آسان ہدف نہیں ہوتا،مگر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی،امریکی دستوں کاایبٹ آباد میں آپریشن اور اب فوج کی ایک اہم تنصیب پر حملہ،ماہرین کے مطابق سیکیورٹی اور حساس اداروں کی پیشہ وارانہ قابلیت اور صلاحیت کے بارے میں کئی سوال اٹھاتا ہے،اس واردت کے بعد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کا معاملہ ایک بار پھر اٹھایا جارہا ہے کہ جو افواج اپنی بیس کی ہی حفاظت نہیں کرسکتی وہ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کیسے کرسکتی ہیں؟ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ ظاہر کرکے ان کی آڑ میں پاکستان میں امریکہ اور نیٹو کو فوجی کاروائی کا موقع فراہم کرنے میں طالبان کا فائدہ ہے یا امریکہ اور بھارت کا؟ اگر سوچیں گے اور غور کریں گے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آئیں گی،حقیقت یہ ہے کہ وہ دہشت گرد جو خود کو امریکہ کا دشمن قرار دیتے ہیں،اُن کی اِن کاروائیوں سے سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اور اُس کے حواریوں کو ہی پہنچ رہا ہے،چنانچہ اس تناظر میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کی بات سو فیصد درست لگتی ہے کہ پی این ایس مہران پر دہشت گردوں کا حملہ امریکی آپریشن تھا،اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے اور وہ خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے ہمارے جوہری اثاثوں کو مشترکہ تحویل میں لینے کا خواہاں ہے،جبکہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسن اور امریکی سینٹر جان کیری کے ایسے بیانات بھی سامنے آچکے ہیں جن میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ قرار دینے کے ساتھ ساتھ اُن کے حوالے سے تشویش بھی ظاہر کی گئی ہے، مغربی میڈیا کئی بار واشنگٹن کے ایسے منصوبوں کی طرف اشارہ کر چکا ہے جن کا مقصد پاکستان کے جوہری اثاثوں یا جوہری مواد کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا بتایا جاتا ہے،ایسی قانون سازی کی باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ اگر کوئی ملک اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت نہیں کرسکتا ہو تو امریکہ اُن اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے،بعض بیرونی حلقے تو باقاعدہ یہ تجویز بھی پیش کرچکے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ ہے اس لئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ایک مشترکہ کمان بنا دینی چاہئے جو ان کا کنٹرول سنبھال لے،ایک طرف یہ سازشیں پنپ رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں غیرملکیوں کی آزادانہ آمدورفت جاری ہے،ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو یہاں آکر حساس نوعیت کی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ریمنڈ ڈیوس کی طرح سفارتی تحفظ کے ساتھ پورے ملک میں دندناتے پھر تے ہیں،ایسے لوگوں کو پوچھ گچھ کے کسی عمل سے گزرنا پڑتا ہے نہ انہیں ویزوں کے حصول یا اندرون ملک نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے،امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے حوالے سے عالمی پریس میں یہ خبریں بھی چھپ چکی ہیں کہ اس نے پاکستان میں اپنا الگ نیٹ ورک قائم کرلیا ہے،اس لئے اب اُسے آئی ایس آئی کی مدد یا تعاون کی بھی ضرورت نہیں رہی،اس کے کارندے بلاخوف و خطر اپنے مقاصد کےلئے جو چاہیں کرتے پھریں،کوئی انہیں روکنے والا نہیں،یہ لوگ ہماری سلامتی اور ہمارے حساس اداروں کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں،قارئین محترم حقائق بیحد سنگین ہیں اور حکومت اور قومی اداروں سے ہمہ وقت بیداری اور مستعدی کا تقاضا کرتے ہیں،حالات بتا رہے ہیں کہ وطن عزیز کو کئی جہتوں سے خطرات کا سامنا ہے،ایک دشمن تو ہمارے سامنے ہے مگر کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو ہمارے درمیان رہ کر دشمن کے مذموم عزائم کو تقویت پہنچا رہے،لہٰذاہمیں اِن سب سے چوکنا رہتے ہوئے ملک کی سلامتی اور بقاءکے تقاضوں کو پورا کرنا ہے اور اس وقت سب سے پہلا کام قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی اپنی سیکورٹی کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کے جواب تلاش کرنا ہے ۔
اب جبکہ مہران نیول ایئربیس پر حملے کا خونی ڈراپ سین اپنے پیچھے ملکی سلامتی اور قیمتی اثاثوں کے حوالے سے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے،مبصرین اور تجزیہ نگار حملے کے مقاصد کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ پاک آرمی، ایئر فورس اور نیوی تینوں ایسے ادارے ہیں جو ملک کی بیرونی سرحدوں اور ملک کے استحکام اور سالمیت کے امین ہیں،ان کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد محض دہشت گردی کی کارروائی نہیں بلکہ دشمن نے ان تینوں اداروں کے خلاف دہشت گرد کاروائیوں کے ذریعے نفسیاتی طور پر عوام کو یہ باور کراناچاہتاہے کہ اگر یہ دفاعی ادارے اپنا تحفظ نہیں کر سکتے تو پھر وطن اور عوام کا تحفظ کیسے کر سکیں گے،چنانچہ وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کے حکمران اور مسلح افواج کے سربراہان صرف یہ بیان دینے کہ”ہمارا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے،کوئی ہمیں میلی نظر سے نہیں دیکھ سکتا“کے بجائے عملی طور پر دفاع وطن کے تقاضوں کو پورا کریں،کیونکہ دنیا کی کوئی بھی فوج خواہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ اس وقت تک وطن کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک اُس ملک کے عوام اسکے ساتھ نہ ہوں،اگر پاکستان کے معروضی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا مشکل نہیں کہ بدقسمتی سے اس وقت پاکستانی عوام کا اعتماد تقریباً سبھی اداروں خواہ وہ سول ہوں یا عسکری متزلزل ہو چکا ہے،دہشت گردی کی اس واردات سے افواجِ پاکستان کا مورال ڈاؤن کرنے کی ناکام و ناپاک کوشش کی گئی ہے،آج تمام اہل وطن یہ بات سوچ رہے ہیں کہ یہ حملے،یہ کاروائیاں،کب رکیں گی؟یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ملک میں دہشت گردی،بم دھماکے،فورسز پر حملے آخر کب ختم ہونگے؟؟ ہماری ناقص رائے میں اِن تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم امریکہ کی اِس نام نہاد جنگ سے باہر نکل آئیں،امریکہ کی کاسہ لیسی اور غلامی چھوڑ دیں اور پوری دیانت داری کے ساتھ دہشت گردی کے اصل عوامل کا تعین کریں،وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری سیاسی ومذہبی جماعتیں اختلافات اور وقتی فائدوں کے حصار سے نکل کر ملکی سلامتی وبقاء کے یک نکاتی ایجنڈے پر مل جل کر کام کریں،یاد رکھیں قوم کے اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے ہی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے،آج جبکہ یہ حقیقت پوری طرح نکھر کر سامنے آچکی ہے کہ امریکی کولیشن کا ہراول دستہ بن جانے کے باوجود ہمیں لا حاصلی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا،تازہ نوشتہ دیوار یہ ہے کہ امریکی جنگ لڑنے اور اپنا سب کچھ نذر کر نے کے باوجود آج ہم عالمی کٹہرے میں مجرم کی طرح تنہا کھڑے ہیں،دشمن ہمارے خلاف فرد جرم تیار کرچکا ہے،شواہد موجود ہیں،گواہیاں آنے والی ہیں اور خاکم بدہن وہ دن دور نہیں جب مخدوش حالات کا بہانہ بناکر پاکستان سے ایٹمی اثاثے امریکہ اور اُس کے حواریوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جائے،نائن الیون کوجارج ڈبلیو بش کی تقریر سے آغاز ہونے والی امریکی خونی تصنیف کا آخری باب اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ ہمارے سامنے آچکا ہے،کیا ہمیں کچھ اندازہ ہے کہ کون سی قیامت ہمارے سروں پر منڈلارہی ہے ۔؟
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved