اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-02-07

احساس ذمہ داری
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
سری لنکن کرکٹ کی حفاظت کرتے ہوئے سےکورٹی فورسز کے سات اہلکاروں نے اپنی جان کا نذرانہ پےش کر کے ذمہ داری کی اےک اعلیٰ وارفع مثا ل قائم کر دی ہے، اللہ تعالیٰ انہےں اپنے جوارِ رحمت مےں جگہ عطا فرمائےں۔وہ ادائے فرض پر جان قربان کر کے ہمارے لئے بہت سے پےغامات چھوڑ گئے ہےں۔ جب تک نےچے سے لے کر اوپر تک ےہی جذبہ اور ےہی احساسِ ذمہ داری ہم مےں بےدار نہےں ہوتا ہماری تقدےر نہےں بدل سکتی۔ قوموں کی تقدےروں کے بدلنے کا جب بغور مشاہدہ کےا جائے تو ےہ بات واضح ہوتی ہے کہ اُن مےں کسی نہ کسی رہنما نے احساسِ فرض کو بےدار کےا اور اُس ملک کے ہر ہر فرد نے اپنے رہنما کی آواز پر لبےک کہا اور پھر اپنے اپنے حصے کے فرض کو حسن و خوبی سے نبھاےا۔دنےا مےں انسان کی ہستی اےک مرکز کی مانند ہے جس کے گرد خاندان سوسائےٹی وطن اور بنی نوع انسان کے دائرے بنے ہوئے ہےں۔ہمےں چاہےے کہ ان سب کے حقوق ادا کرتے رہےں اور اپنی صلاحےتوں سے کام لے کر ضمےر کی رہنمائی مےں ان تمام فرائض کو ادا کرےں جو انسان اور خدا کی طرف سے ہم پر واجب ہےں۔فرض کا دائرہ نہاےت وسےع ہے۔ہم عزت خوشحالی رنج و راحت ہر حال مےں ادائے فرض پر مجبور ہےں۔ تہذےب کا منشا ےہی ہے کہ ہم اپنی فرض پہچانےں اور شدےد ترےن خطرات مےں بھی اسے بجا لائےں اس سے جی نہ چرائےں۔ فرض کا احساس دلانے کے لئے گھر سب سے پہلا مدرسہ ہے۔ بڑوںکا فرض ہے کہ بچوں کو والدےن، اساتذہ اور بزرگوں کا حکم ماننے کی تعلےم دےں۔ ضابطے کی پابندی اور بڑوں کے احکام کی تعمل ہی وہ چٹان ہے جس پر فرض شناسی کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ اگر بچپن مےں انسان کے ضمےر اور کردار کو صحےح راستہ پر لگا دےا جائے تو پورا ےقےن ہے کہ وہ بڑا ہو کر اول درجہ کا اےماندار اور فرض شناس ثابت ہوگا۔بلند کرداری ےہ ہے کہ جس شخص کے جو فرائض ہےں وہ انہےں اےماندری سے انجام دے۔ احساسِ فرض ،اےثار ، قربانی اور محبت پر کردار کی بنےاد ہے کوئی معاملہ خواہ چھوٹا ہو ےا بڑا ہمےں اپنی اےمانداری پر قائم رہنا چاہےے۔ بعض آدمےوں کو اپنی نےکی اور فرض شناسی کے باعث دنےا کی تکلےفوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور وہ چےخ اٹھتے ہےں کہ نےک ہونا بڑی مصےبت ہے لےکن اےسے آدمی ےقےن سچائی اور اےمان داری مےں کمزورہوتے ہےں۔ ہمےں اپنی تمام قوتوں کو آخری دم تک ادائے فرض مےں صرف کرنا چاہےے۔اسٹوارٹ مل کا قول ہے کہ انسان کی عظمت کا راز ےہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذمہ دار اور با اخےتار تصور کرے ورنہ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا اےک بے معنی بات ہو جائے گی۔ خواہش اور ترغےب انسان کی کمزوری ہے لےکن ان پر غالب آنے کے لئے خدا نے اسے عقل اور تمےز کی دولت بخشی ہے ، مبارک ہےں وہ لوگ جو بھلائی اور برائی مےں تمےز کر کرے نےکی کا راستہ اخےتار کر ےں اور کمزورےوں پر غالب آنے کی کوشش جاری رکھےں۔اپنے پےدا کرنے والے سے منحرف ہو کر انسان خواہشات، جذبات اور خود غرضی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ضمےر کی آواز دب کر رہ جاتی ہے۔ اےک کے بعد دوسری بری خواہش پےدا ہوتی ہے اور ان کے مقابلے کی قوت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہر بدی اےک اور بدی کو جنم دےتی ہے ےہاں تک کہ برائی آدمی کی طبےعت مےں جڑ پکڑ جاتی ہے ۔تاہم اس گئی گزری حالت مےں بھی ضمےر مردہ نہےں ہوتا۔وہ بار بار آدمی کو ٹوکتا اور برے افعال پر ملامت کرتا ہے۔ وہ اسے بری خواہشوں اور ناجائز ترغےبوں سے بچانے کی ترغےب دےتا ہے اور نفس پر قابو رکھنے کی نصےحت کرتا ہے۔ اگر آدمی اس نصےحت کو قبول کر لے تو ےہ اس کی بڑی فتح ہے جس شخص نے نفس پر فتح پائی وہ اپنا فرض انجام دےنے کے قابل ہے۔ اےسا آدمی جذبات و خواہشات سے بالا تر ہوتا ہے۔ وہ اپنے فرض کا احساس رکھتا ہے اور محنت جانفشانی اور جفا کشی مےں لذت محسوس کرتا ہے۔ اگر ضمےر پوری طرح بےدار ہو تو ےہ انسان کو برائی سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے نےکی خوشی اور مسرت کی راہ دکھلاتا ہے ےہی وہ مقدس روشنی ہے جو اسے سکون ، اطمےنان اور راحت سے ہم آغوش کرتی ہے۔ ضمےر سے غافل ہو جانے کے بعد انسان جسمانی لذتوں اور ذلےل ترےن خواہشوں مےں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ دنےاوی قانون سے ڈرتا ضرور ہے لےکن روح کے تقاضوں سے غافل ہو جاتا ہے اور اسے قربانی ےا ضبطِ نفس سے کوئی واسطہ باقی نہےںرہتا۔ ےہ برائی جب ساری قوم مےں پھےل جاتی ہے تو ملک کا ملک ذلےل جذبات ، بری خواہشوں اور ذاتی فائدوں کا غلام بن جاتا ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved