اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-02-24

اماں جی
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
 فروری ,2011,12 کی صبح شاید طلوع ہی مجھ سے میرا سائبان چھیننے کے لئے ہوئی تھی۔صبحیں تو نویدِ مسرت لے کر آتی ہیں  یہ   کیسی صبح تھی جو مجھ سے میری ماں چھین لے گئی۔ٹھیک ہے اس سفر پر جانے والوں کی کوئی راہ نہیں روک سکا، میں بھی انہیں نہ روک سکتا لیکن ماں جی کی بے رخی پر افسوس رہے گا۔ وہ اتنی تو بے دید کبھی بھی نہ تھیں جتنی رختِ سفر باندھنے سے قبل بن گئیں ،نہ سینے سے لگایا ،نہ منہ چوما، نہ الوداعی کلمات کہے۔ شاید وہ  یہ   سوچ کر مجھ سے آخری بار مل کر نہیںگئیں کہ الوادعی باتوںسے روتا ہی نہ رہے، جیسے والدین چھوٹے بچوں کو چقمہ دے کر گھر سے باہر نکل جایاکرتے ہیں لیکن انہیںکیا معلوم کہ اُن کی میت پر تو میرے ساتھ آسمان بھی روتا رہا اور بڑی دیر تک روتا رہا۔ تب تک روتا رہا جب تک آپ کو لحد میں نہیں اتار دیا گیا۔ماں جی بڑے دِنوں سے چقمہ دینے کے چکر میں تھیں لیکن میں نے کبھی انہیں دامن چھڑانے نہیں دیا۔دو دفعہ عارضہ قلب میں مبتلا ہوئیں،مجھے روتابلکتا دیکھ کر واپس لوٹ آئیں۔میں تو ان کا دِل لگانے کا سامان تلاش کر رہا تھا ۔میں ان کی خوشی کے سامان ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ ان کے دل کی شادابی کی ترکیبیں ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ  یہ   مجھے یوں جانے نہ دے گا تو وہ برین ہیمبرج میں مبتلا ہو کر چل دیں۔اےسے تو نہیں کرتے ناں۔ایسی بھی کیا جلدی تھی۔ مجھے آسمان والے سے تھوڑی سی مہلت مانگنے کا موقع بھی نہ دیا۔سمجھ نہیں آتی خود کو سنبھالوں یاماں جی کے ان بیٹے بیٹیوں کو سنبھالوں جو نہ جانے کہاں کہاں سے چلے آتے ہیں۔نہ جانے انہوں نے اپنی محبت کے سائبان کہاں کہاں تان رکھے تھے۔جنہوں نے مجھے دِلاسے دینا تھے انہیں میں دِلاسے دیتا پھر رہا ہوں۔جنہوں نے مجھے آنسو پونچھنے کے لئے رومال پیش کرنا تھا میں انہیں رومال پیش کر رہا ہوں۔ایک دوسرے کو دیکھتے ہی بن کہے بن سنے ،آنکھیں موسلا دھار برسنے لگتی ہیں۔اُن کے جانے کے بعد احساس ہوا ہے کہ ماں جی تو محبت کا ایک سیلِ رواں تھیں۔وہ سب کی سانجھی تھیں۔ ہر ایک اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ جتنی وہ میری ہیں کسی اور کی نہیں۔ماں جی دریا دل خاتون تھیں۔انہیں عطا کرنے کا شوق تھا۔ انہیں بانٹنے کا چسکا تھا۔ماں جی کواپنے ہاتھ سے کھلانے کا بہت شوق تھا۔وہ اپنے ارد گرد جھرمٹ لگائے رکھنے کی شوقین تھیں۔بارہا ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے اپنی دواﺅں کے پیسے کسی ضرورت مند کو دے دئےے۔ماں جی بہت قابلِ اعتماد خاتون تھیںاس وجہ سے لوگ انہیں اپنا ہمراز بنایا کرتے تھے۔ان کے جانے کے بعد کئی خواتین نے مجھے بھیگی آنکھوں سے کہا کہ اب ہم اپنے دُکھ کسے سنانے جائیں گی۔وہ دوسروں کے دُکھ سنتی ضرور تھیں لیکن اپنی دُکھ کبھی کسی کے سامنے نہیں سنائے۔یوں محسوس ہوتا جیسے انہیں کوئی دُکھ ہی نہ ہو۔رات بھر بھی اگر تکلیف سے تڑپتے رہتے تو صبح اگر پوچھا جاتا رات کیسے گزری ہے تو کہتیں میں را ت بھر سوئی رہی ہوں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔کسی کو اپنا دُکھ سنا کر معمولی سی تکلیف دینا بھی انہیں گوارا نہ تھا۔عارضہ قلب کی وجہ سے دوائیں استعمال کرتے رہتے تھے۔ جب بھی دوائیں ختم ہوتےں اور نئی دوائیں لاتے تو  یہ  ی کہتیں،لعنت ہو اِس مرض پر جو میرے بیٹوں کے پیسے ضائع کروا رہی ہے۔انہوں نے خود سے کبھی نہیں کہا کہ میری دوائیں ختم ہو گئیں ہیں۔خود ہی ہمیں  یہ   ٹوہ رکھنا پڑتی تھی کہ دوائیں ختم ہونے والی ہیں۔اُن کا دِل بھرا رہتا تھا۔انہوں نے کبھی شکوہ شکایت نہیں کی۔اف کیا کروں،یادیں ہیں کہ پرے باندھے چلی آتی ہیں۔بھولی بسری یادوں کی اُڑتی دُھول میں مجھے اپنا دھندلا دھندلا سا روتا ہوا چہرا دکھائی دے رہا ہے کہ جب مجھ پاﺅں پر موچ آئی تھی اور میں رویا تھا توانہوں نے مجھے سینے سے چمٹا کر والہانہ محبت کی تھی۔سمجھ نہیں آتی کہ اب مجھے موچ آئے گی تو کون سینے سے چمٹائے گا۔ کون والہانہ محبت عطا کرے گا۔ایک تشنگی سی ہر سو پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بہاروں کے رنگ ہی پھیکے پڑتے جا رہے ہیں۔ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے پھولوں نے ماتمی لبا س پہن لئے ہوں۔وہ پپیہے جو مجھے بہار کی آمد کے نغمے سنایا کرتے تھے اب تعزیت کرتے پھر رہے ہیں۔اماں جی کے جانے کا دِل کو یقین ہی نہیں آرہا۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی کہیں سے آ جائیں گی اور سینے سے لگا کر چومنے لگیں گی۔آج والدہ کو مجھ سے جدا ہوئے بارہ دن گزر گئے ہیں لیکن ان بارہ دنوں میں اُن کی یاد کو بھلانے کا ہر حربہ ناکام ہو چکا ہے ۔اگر آپ کے پاس کچھ ایسے الفاظ موجود ہیں جو مجھے ماں کی یاد بھلانے میں کارگر ثابت ہوں تو ضرور کہےے گا۔مجھ سے سنبھلا نہیں جا رہا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved