اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-03-02

بنیاد
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا ذہن بالکل کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے۔ بچے کے والدین، بہن بھائی، عزیزو اقارب اور ارد گرد کے لوگ اس کورے کاغذ پر تصویریں بناتے ، اور تحریریں لکھتے ہیں۔ یہ تحریریں اور تصویریں بہت پختہ ہوتی ہیں اور مٹائے نہیں مٹتی۔ان تحریروں اور تصویروں سے کمپیوٹر کی زبان میں بچے کی پرگرامنگ ہوتی ہے۔ بچے کے ذہن میں گویا

Window

 انسٹال ہوتی ہے۔ذہن ایک انجن ہوتا ہے اور یہ تحریریں اور تصویریں اس انجن کے پرزے ہوتے ہیں۔بچے کی کتابِ زندگی اِنہیں تصویروں اور تحریروں سے ترتیب پاتی ہے۔جب بچے کا والد بہن ےا بھائی بچے کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھتے ہیں توماں بچے کو آگاہ کرتی ہے ، یہ ابو ہیں، یہ بھائی ہیں، یہ بہن ہے۔وہ بار باریہ نام دہراتی ہے کہ ©’یہ ابو ہیں‘ حتیٰ کہ بچے کے ذہن میں تصویر اور الفاظ نقش ہو نے لگتے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد بچہ اپنے ابو کے سامنے آتے ہی خود بخود پکارنے لگتا ہے ابو۔بھائی کے سامنے آتے ہی پکارنے لگتا ہے بھائی۔ جب یہ نام بچہ توتلی زبان میں پکارتا ہے تو یہ لفظ پھول بن جاتا ہے غزل اور نظم بن جاتی ہے، بچہ یہ نام پکارتے ہوئے بہت پیارا لگتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ ارد گرد کی چیزوں کے نام جب ماں بچے کو سکھاتی ہے تو بچہ تصویروں کو الفاظ کے ساتھ ذہن میں بٹھاتا جاتا ہے اور اُس کے ذہن میں اےک ڈکشنری بنتی جاتی ہے۔ جوںجوں بچہ جوان ہوتا جاتا ہے اس کے ذہن میں ناموں اور تصویروں کی ایک فلم تیار ہوتی جاتی ہے۔ اسی فلم کو بچے کا حافظہ کہتے ہیں۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اس کے ذہن کی ویڈیو فلم ےا حافظہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ یہ فلم بنانے والے ےعنی بچے کے ارد گرد کے لوگوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ بچے کے ذہن میں اچھی فلم بناتے ہیں ےا خراب، اچھا ڈیٹا فراہم کر تے ہیں ےا ناقص ڈیٹا فیڈ کرتے ہیں۔اگر اچھا ڈیٹا فیڈ کریں تو وہ بڑا ہو کر صاف ستھری زندگی گزارتا ہے اگر گندا ڈیٹا ذہن میں فیڈ کر یںتو وہ غلط راستوں پر چل نکلتا ہے۔ڈیٹا کی فیڈنگ کے بارے میں ایک اور مثال لیتے ہیں ماں جب بچے کے سامنے کھانا رکھتی ہے تووہ کہتی ہے بیٹا یہ گوشت ہے یہ مزے دار ہے اس میں طاقت ہے وہ ان الفاظ سے اور ماں کے چہرے کے تااثرات سے یہ نتیجہ ذہن میں قائم کرتا ہے یہ کھانا خوشی پیدا کرتا ہے۔ اگر ماں گوشت کی برائیاں کرے کھاتے ہوئے ناگواری کا اظہار کرے تو بچہ بڑا ہو کر گوشت سے پرہیز کرے گا اور گوشت کھاتے ہوئے ہرگز خوشی محسوس نہ کرے گا۔ اس طرح زنا اور ذائقہ کے بارے میں جن لوگوں کے بچپن میں یہ بات ذہن نشین ہو جاتی ہے کہ یہی سب سے بڑی عیاشی ہے وہ ساری زندگی دنیا بھر کی راحتوں اور عیاشیوں کو اس عیاشی کے ہیچ ہی سمجھتے رہتے ہیں۔ بہت سے ڈاکو اور رہزن اپنی ان دو خواہشوں کی تکمیل کے لئے ڈاکے ڈالتے ہیں۔آپ تحقیق کر کے دیکھ لیں ڈاکو لوٹی ہوئی رقم سے شراب اور شباب ہی لے آئےں گے۔دراصل اےسے لوگوں کے ذہن میں فیڈ کیا ہوا ڈیٹا ہی اُن کے لئے محرک کا کام کرتا ہے۔اگر اےسے لوگوں کوپاکیزہ تفریح کی لذتوں سے آشنا کر دیا جائے اوروہ ذہنی طور پر اس بات کے قائل بھی ہو جائےں کہ یہ بہت عمدہ تفریح ہے تو وہ زندگی کی راہوں کو بدل ڈالیں،وہ غلیظ تفریح کے لئے کی جانے والے جدو جہد کو ترک کر دیں۔ تفریح کو چند چیزوں سے جوڑ دینے سے باقی سب چیزوں چاہے وہ بھر پور لذت اور لطف والی ہوں اےسے لوگوں کو خای خولی لگتی ہیں ےا ان میں ان سے لطف لینے کی اہلیت ہی نہیں ہوتی۔ اےک زانی انسان کو اےک محفل مشاعرہ تخیل، لطافت، نزاکت اور اےک نئے احساس کی لذات سے اس لئے آشنا نہیں کر سکتا کہ وہ ان لذات کا خوگر ہی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ، بچپن میں خوشی کو شاعری سے جوڑا ہی نہیں گیا ہوتا ہے یہ غلط تربیت ہی کا اثر ہوتا ہے کہ لذت اور خوشی کو غلط چیزوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مثبت اور صاف ستھری تفرےح کی تربیت بچپن ہی میں کی جاتی ہے جو بڑے ہونے پر پختہ ہوتی جاتی ہے۔بچپن کی تربیت کی بہت اہمیت ہے۔ہم ڈاکو ےا رہزن بنانے کے لئے بچپن میں مواد فراہم کر دےتے ہیں بنیاد باندھ دیتے ہیں جس پر آگے چل کر لوگ رہزن ، چور اچکے ےا زانی بنتے ہیں۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں کہنے لگا ہوں والدین اور اساتذہ اچھی تربیت کیا کریں ،لیکن میں تو سوچ رہا ہوں، کہ والدین اور اساتذہ کی تربیت کون کرے۔ میرے خیال میں پہلے والدین اور اساتذہ کی تربیت ہونی چاہےے۔ کنوئیں کے اندر موتی ہوں گے تو وہ ڈول سے بار نکلیں گے اگر کنوئےں میں موتی ہی نہ ہوں گے تو وہ باہر کیسے نکلیں گے۔ اس کام کے لئے ماہرِ نفسیات کی ورکشاپس کی ضرورت ہے۔ماہرِ نفسیات کی ورکشاپس ہو رہی ہیں لےکن ان کی ٹکٹ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔ان ورکشاپس کا انعقاد سکولوں کے اندر اور عام اجتماعات کی صورت میں کرانے کی بھی ضرورت ہے، تاکہ زیادہ سے زیاادہ افراد ان سے مستفید ہو سکیں۔ ان ورکشاپس کی ویڈیو تیار کروا کے عام آدمی کی رسائی تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ان موضوعات پر زیادہ سے زیادہ ڈرامے اور فلمیں ہونی چاہیےں۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو ہم وہ خیالی معاشرہ حقیقی معاشرہ بنا سکتے ہیں جس کے ہم سب خوہشمند ہیں۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved