اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-03-04

میلاد کا منفرد انداز
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
یہ واقعہ عید میلادالنبی کے دن کا ہے۔عصر کا وقت تھا۔والدہ کے اُس دن کُل تھے۔والدہ کے افسوس کے لئے لوگ بیٹھے تھے۔ایک بزرگ جن کے ساتھ پانچ مرید بھی تھے، تشریف لائے۔ بزرگ میرے لئے نئے تھے ۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھائی کے جاننے والے تھے۔دعا کے بعد کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص نے اُن بزرگوں سے عید مبار ک کہا۔وہ خیر مبارک کہہ کر پھر خاموش ہو گئے۔اُس شخص نے دوبارہ خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق اس مبارک موقع پر غریبوں کا بھی خیال رکھیں۔انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں۔بزرگوں نے کہا یہی کچھ تو ہم کر رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔محفل میں سے کسی نے کہا یہی کچھ تو ہم نہیں کر رہے ہم خود ہی پکاتے ہیں اور خود ہی کھا جاتے ہیں۔خود ہی کھا کر اپنے پاس ثواب کا ذخیرہ کر لیتے ہیں۔دراصل وہ غرباءکا حق ہوتا ہے جسے کھا کر ہم اپنے آپ کو ثواب کا حق دار بنا لیتے ہیں۔بزرگوں نے کہا کہ جب لنگر تقسیم کیا جاتا ہے تو وہاں سے کھاتے پیتے لوگوں کو کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔اِس طرح تو مشکل ہو جاتا ہے۔وہاں تو ہر حیثیت کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔اُس شخص نے کہا کہ ہم پکا کر اصل حق داروں کو پہنچانے کے لئے مخلص ہی نہیں ہوتے اگر ہم مخلص ہوں توانتظام خود بخود ہو جائے۔محفل میں خاصی گرما گرمی پیدا ہو گئی۔ایک شخص جو کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے یوں گویا ہوئے کہ سب کو خاموش کرا دیا۔انہوںکہا کہ میلاد اس طرح منانا چاہےے کہ حضور کی روح بھی مسکرا اٹھے۔آپ ﷺ خوش ہو جائیں۔ عیسائی دوکاندار کرسمس پر منافع نہیں لیتے۔وہ اُس دن جس ریٹ پر چیز یںخریدتے ہیں اُسی پر فروخت کرتے ہیں۔ہمارے دوکانداروں کو بھی اُس دن منافع نہیں لینا چاہےے۔ڈاکٹر اُس دن فیس نہ لیں۔مفت مریض دیکھیں۔مذہبی انجمنیں ہسپتالوں میں پورا مہینہ مفت ڈیوٹیاں سر انجا م دیں۔انجمنیں اور تنظیمیں بیماروں اور تیمارداروں کو کھانے فراہم کرنے کا انتظام کریں۔میلاد کی خوشی میں بلڈ بنک میں خون کا عطیہ دیا جائے۔ہر محلہ ہر گلی ہر گاﺅں کے لوگ اُس دن خود گھروں سے نکل کر ارد گرد کی صفائی کریں۔ملوں کے مالک دس بیس بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کا اعلان کریں۔اہلِ ثروت لوگ غریبوں کے بچوں کو اپنی کفالت میں
لینے کا عہد کریں۔اہلِ ثروت کو ترغیب دی جائے کہ وہ اُس دن غریبوں کے گھروں میں جاکر انہیں خود کھانا کھلائیں۔اس انداز سے عید میلاد النبی منانے کے لئے خطیبوں کو ترغیب دینا چاہےے۔لوگو ں میں تحریک پیدا کرنا چاہےے کہ جو شخص عید میلاد النبی کے دن دس یا بیس بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُن کو ان ان انعامات سے نوازے گا۔جو لوگ اپنی گلے یا محلے کی صفائی کرے یا کروائے گا اُسے یہ یہ انعامات دئےے جائیں گے۔سب لوگ بزرگوں کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔بزرگ تو نیچے منہ کئے کسی گہری سوچ میں ڈوبے رہے لیکن ایک نوجوان اٹھا اور اُس نے کہا کہ میں گاﺅں میں پیسے اکٹھے کرنے جا رہا ہوں۔میں اہلِ حیثیت کے پاس جاﺅں گا اور اُس سے پیسے اکٹھے کر کے غریبوں میں تقسیم کروں گے۔بزرگوں نے سر اٹھایا جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار روپے کا نوٹ نوجوان کو تھماتے ہوئے کہا میں ابتدا کرتا ہوں۔وہیں سے اُس نوجوان نے دس ہزار اکھٹے کر لئے۔پھر وہ پورے گاﺅں میں گھومتا رہا۔ شام کو جب وہ نوجوان واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پچاس ہزار روپے تھے۔پیسوں کو درمیان میں رکھ کر نوجوانوں نے نعتیں پڑھیں، پھر ان پیسوں پر ختم دیا ۔بیس اےسے گھرانوں کا انتخاب کیا گیا جو مستحق تھے ،اور رقم اُن میں غیر مساوی طریقے سے یعنی ضرورت کے مطابق تقسیم کی گئی۔جب نوجوان یہ رقم تقسیم کر رہے تھے تو انہیں معلوم ہوا کہ اےسے نوجوان کی والدہ انتہائی بیمار تھی جو سب کی فوتگیوں پر مفت خدمات فراہم کرتا تھا۔ وہ تکلیف سے تڑپ رہی تھیں لیکن اُس وقت اُس کے پاس والدہ کے علاج کے لئے پیسے نہ تھے۔ وہ طبعی جھجھک کی وجہ سے کسی سے امداد طلب نہیں کر رہا تھا۔ جونہی اُسے رقم دی گئی وہ دعائیں دیتا ہو فوراَ والدہ کو لے کر شہر چلا گیا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved