اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-03-31

مچھر میاں
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

آجکل مچھرمیاں خاصے سرگرم نظر آ رہے ہیں اور ہر طرف اےک دہشت سی پھےلائے پھرتے ہیں۔لگتا ہے مشترکہ مفادات کی تنظےموں کی دےکھا دےکھی مچھروں اور بجلی کے درمےان بھی کوئی باہمی مفاد کا معاہدہ طے پا گےا ہے۔ان دونوں نے باہم اس قدر اوقاتِ کار سےٹ کئے ہوئے ہیں کہ اےک کے جاتے ہی دوسرا وارد ہو جاتا ہے۔دن بھر ڈاکٹر (مچھر)گندگی کے ڈھےروں پردےان گےان مےں رہتے ہیں،فلسفے کی گتھےاں سلجھاتے رہتے ہیں، نقشوں کو سامنے رکھ کررات بھر کے اٹےک کے روٹ تشکےل دےتے رہتے ہیں اور نرسےں (مکھےاں)دن مےں رات بھر کے زخمےوں کی مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔شام ڈھلے ہی ےہ تخرےب کار ڈاکٹرمختلف گروپوں مےں بٹ کر کانفرنسےں شروع کر دےتے ہیں۔ کانفرنسوں کے اختتام پر اپنے اپنے ڈائی سےکشن باکس لئے گلے مےں سٹائتھوسکوپ اور گٹار ڈالے گنگناتے ہوئے اپرےشن پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جونہی ےہ ڈاکٹر صاحبان اپنے مرےضوں کے سرہانے کھڑے ہوتے ہیں بجلی اپنا کام دکھا جاتی ہے۔ مانا کہ موسےقی روح کی غذا ہے۔ خوبصورت تانےں دماغ سے اُداسےوں کو اُتار پھےنکتی ہیں لےکن ےہ عجےب ڈھےٹ پن ہے کہ چاہے کوئی موسےقی کا رسےا ہو نہ ہو،چاہے کوئی سننا چاہے ےا نہ سننا چاہے ےہ اپنی اپنی غزلےں اور نظمےں پےش کر کے رہیں گے۔اب ان سے کوئی پوچھے کہمیاں تمہیں اگر کوئی مےوزک پروگرام کرنا ہی ہے تو کسی پارک ےا سٹےڈےم مےں کرو ۔ اگر رےاض کرنا مقصود ہے تو درےا کے کنارے کھلی ہوا مےں کرو ۔ےہ گھروں کے درمےان سوتوں کو ستانا کونسی شرافت ہے۔مےں نے انگرےزی کی ضرب المثل پڑھی تھی کہ بھونکنے والے کُتے کاٹتے نہیں ، اسی لئے سوچا مچھر بھی شور مچانے والی مخلوق ہے اس لئے کاٹے گی نہیں لےکن ےہ بے رحم پتھر کے دل والے ہر انجکشن کے بعد ےوں قہقہہ لگا کر اُڑ جاتے ہیں گوےا اپنی فتح کا جشن مناتے جا رہے ہوں۔ دےکھےں ناں ہر قوم مےں نےک اور رحم دل ہوتے ہیں، ہم نے سوچا مچھر بھی اس سے مثتثنیٰ نہیں ہونگے لےکن ندےدی اس نسل مےں احساس نام کی تو کوئی چےز سرے سے موجود ہی نہیں۔مشرقی موسےقی سن کر وجد مےں آنا ےااُٹھ کر رقص کرنے لگ جانا اپنے اپنے ظرف پر منحصر ہے۔اگر آپ کسی محفلِ سماع مےں اپنا وقار قائم رکھنے کی خاطر اُٹھ کر رقص کرنے نہیں لگ جاتے تو کوئی آپ کو رقص کرنے پر مجبور تو نہیں کرسکتا۔لےکن عجب ڈھٹائی سے ےہ محفلِ سماع منعقد کرتے ہیں کہ پاب مےوزک کی طرح اس موسےقی کو ناچے بغےر سنا ہی نہیں جاسکتا۔اطمےنان سے لےٹے لےٹے سن کر تو دکھائےں کہ پوری جماعت ہی اےک ساتھ اپنے اپنے انجکشن آپ کے جسم مےں پےوست نہ کر دے تو نام بدل دےنا۔ سچی بات ہے خوف کے مارے حالت ےہ ہو گئی ہے کہ پہلے مصرعے پر ہی سر دھننے لگتا ہوں،قمر لچکانے لگتا ہوں،ٹانگےں بغےر ردم کے ہی سہی ہلانے تو لگتا ہوںکہ مباد سمجھےں ہماری تعرےف و تحسےن کی خاطرےہ سب کچھ کر رہا ہے۔شاےد ہمارے اس حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کرخون پےنے سے باز رہیں لےکن وہ راگ رنگ مےںکہہ جاتے ہیں گلوکاری ہمارا شوق ہے اور انجکشن لگانا ہمارا قومی فرےضہ ہے سو ہم اپنے ذاتی شوق کی خاطر قومی فرض کی قربانی ہرگزہرگز نہیں دے سکتے۔ لوگ اس کی جسامت دےکھ کر کہہ دےتے ہیں کےا پدی اور کےا پدی کا شوربہ، دشمنی بھی کرےں تو کس سے لےکن ےہ شہہ پا کر پاٹے خاں بنا پھرتا ہے۔دشمن ہوتا کوئی چھ سات فٹ جوان لڑتے بھی تو مزا آتا۔کبھی وہ ہمےں پچھاڑتا اور کبھی ہم اسے پچھاڑتے۔اکھاڑے کے باہر چند دوسرے آدمی بھی دےکھنے والے ہوتے۔جےت جاتے تو آگے آگے ہم ہوتے پےچھے پےچھے ڈھول والا ڈھول بجاتا ہوا آتا۔ڈھول والے کے ساتھ ساتھ ہمارے سجن بےلے اپنی پگڑےاں خوشی سے اچھالتے جاتے۔دشمنی مےںلڑتے لڑتے دشمن کو مار دےتے تو اےک زمانہ عبرت پکڑتا۔ہم اس کا کلےجہ چباتے تو سےنے کو ٹھنڈ پڑجاتی۔دشمن بھی ملا ہے تو اےسا کہ زور سے تھپڑ مارےں تو کچھ دےر کے بعد اپنا ہی گال سہلانا پڑتا ہے۔ےہ اُلو کا پٹھا ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔جسامت دےکھو اور آواز دےکھو۔سمجھ نہیںآتی ےہ آواز آ کہاں سے رہی ہے۔آوازنکالتے ہوئے اس کا سارا جسم کانپتا ہے، اتنا زور لگاتا ہے جےسے کوئی پاپ سنگر گا رہا ہو۔نہ سُر نہ تان اور دعویٰ ےہ کہ ہم تان سےن کی اولاد سے ہیں۔ہمےں کےا کوئی تان سےن کی اولاد سے ہونے کا دعویٰ کرے ےا مان سنگھ کی اولاد سے ہونا کا۔وےسے بھی سُر ،سوز اور ساز تو اب گئے وقتوں کی باتےں ہوتی جارہی ہیں اب چاہے جو بھی اٹھ کر گلوکاروں کے خاندان سے ہونے کا دعویٰ کرنے لگے۔اب تو وےسے بھی بے سرے گلوکاروں سے ملک خود کفےل ہوتا جا رہا ہے اےسے مےں اگر مچھرمیاں بھی اپنے گلے مےں امےر گھرانوں کے بگڑے ہوئے لڑکوں کی طرح گٹار ڈال لے تو ہم اس کا کےا بگاڑ سکتے ہیں۔اعتراض ہے تو اس بات پر کہ خون چوسنے سے پہلے گٹار بجاتے ہوئے آتے ہیں اور خون چوسنے کے بعد گٹار بجاتے ہوئے جاتے ہیں، دشمنی کا ےہ انداز انتہائی متکبرانہ ہے ،کوئی پوچھے،بے دےدو خون چوسنا ہے تو چوسو اور چلتے بنوں۔خون چوس کر بے سرے نغمے سنا کر مظلوموں کو مزےد ستانا کہاں کی شرافت ہے۔پتہ نہیں کس ملک کے بے رحم تخرےب کار ہیں کہ خون بھی چوسنا ہے اور ڈسکومےوزک پر نچوانا بھی ہے،ےہ دہشت گردی نہیں تو اور کےا ہے۔پہلی بات تو ےہ کہ کسی کے گھر مےں دبے پاﺅں داخل ہونا اور اس پر ستم ےہ کہ اودھم مچانا اور بھنگڑے ڈالنا،ےہ بالکل غےر شائےستہ حرکتےں ہیں اور کسی ملک کا قانون اےسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دےتا۔اگر آئےن و قانون کو توڑنا ہی ہے تو چوروں کی طرح آﺅ اور دبے پاﺅں چوروں کی طرح نکل جاﺅ۔ےہ بارات لے کر باجے بجاتے آنا اور زبردستی ڈرنکس لے کر باجے بجاتے جانا کھلی بدمعاشی ہے اور ہم اس کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور بےن الاقوامی فورم پر اس کی آواز اٹھاتے ہیں۔کل ہی رات کی بات ہے مےں بہت تھکا ہو ا گھرآےا۔بستر پر لےٹتے ہی بجلی غائب ہو گئی۔اپنی طرف سے رضائی کے تمام سوراخ بند کر کے نےند کی وادی مےں جانے کی تےاری کر ہی رہا تھا کہ دو چار بے سُرے ڈاکٹروں نے مےرے کان کے بالکل قرےب سُر لگائی۔پھر اےسے ہی ہوا جےسے آپ سوچ رہے ہیں۔مےں آپے سے باہر ہو گےا۔مےں نے اخلاق کے تمام بند ھن توڑ دئےے واہی تباہی بکتے بکتے آپ سے کےا چھپانا مےں گالےوں پر اُتر آےا۔جب مےں جی بھر کر اپنے دل کا غبار نکال چکا تو اےک اطمےنان سا ہو گےا کہ اب اگر ان کو ذرہ بھر بھی عزت کا خےال ہو ا تو ےوں دبے پاﺅں کسی کی تنہائےوں مےں دخل اندازی نہ کرےں گے۔بے عزتی پروف اور ڈھےٹ کہیں کے دوسرے ہی لمحے اےک بے سرا ڈاکٹر جسم لچکاتے ہوئے گنگنانے لگا۔ ہم تم سے جدا ہو کر مر جائےں گے رو رو کر۔اُس کا گنگنانا تھا کہ اُس کے گرد بے حجامتے بے سرے مچھروں کے ٹھٹ لگ گئے اور دےکھتے ہی دےکھتے مےری رضائی مےوزک ہال بن گئی۔ مےوزک کے دوران ہی انہوں نے مےرے جسم پرےوںدانت پےوست کئے جےسے مےں نے دعوتِ ولےمہ پر بلاےاہو۔جو خون پی کر سوج جاتا وہ خلال کرتے ہوئے اُڑ جاتااور دوسرے کے لئے جگہ خالی کر دےتا۔ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔رضائی کو اےک طرف پھےنکا اور برسرِ پےکار ہو گےا۔جونہی اےک مچھر نے گال پر کاٹا مےں نے زور کا تھپڑ رسےد کےا۔مچھر توبھوں بھوں کرتا اُڑ گےا اور مےںدےر تک اپنا ہی گال سہلاتا رہا۔اب کی بار چوکنا ہو کرکان کا نشانہ لےا۔جونہی مچھر نے پہلی بھوں کی مےں نے تھپڑ جڑ دےا۔غصے مےں تھپڑ کچھ زےادہ زور سے لگ گےا۔مچھر تو عےن اُسی وقت دوسرے کان کے گرد راگ الاپنے لگا لےکن دےر مےرا کان سائےں سائےں کرتا رہا۔اےسے خبےث بھےدی اور شاطر کہ ارادہ ہی بھانپ کرروپوش ہو جاتے۔پھر مےں نے دونوں ہتھےلےوں کے درمےان مےدان ِکارزار گرم کرنے کا فےصلہ کےا ےہ زرا محفوظ طرےقہ لگا کہ کم از کم اپنے جسم تو اپنی ہی ضربوں سے بچ سکتا ہے۔اتنے تےز کہ لاری اڈہ کے جےپ کترے بھی شرما جائےں۔مےں دےر تک ادھر اُدھر تالےاں بجاتا رہا۔تھوڑی دےر بعد بےوی اُٹھ کر آ گئی، کہنے لگی قوالی کی رےاض کا شوق ہے تو کھلی جگہ چلے جائےں ہماری تو نےند خراب نہ کرےں۔آخر کارپاﺅں پربےٹھے اےک فربہ مچھر کو نشانہ لےا اور مارنے مےں کامےاب رہا۔اُ س کے بے گورو کفن لاشے کو ہتھےلی پر لٹاکر اپنے پئے گئے خون کا اندازہ کرنے لگا۔سوچا اگر اِسی شرح سے سب نے خون پےا ہے تو ہفتہ بھر کی خوراک سے بننے والا خون تو ےہ سب آج کی شب ہی پی گئے ہوں گے۔ ےہ سوچتے ہی سامانِ حرب کے بغےر ہی مےدانِ کارزار گرم کر لےا۔ہماری ےہ جنگ بجلی کے آنے تک جاری رہی کبھی انہوں نے مجھے کاٹا اور کبھی مےں نے انہیںمارا۔صبح صبح اتنے لاشے اکٹھے ہو گئے کہ مےونسپل کارپورےشن والوں کو بلانا پڑا لےکن اُن کے ٹرک خراب تھے اِسی لئے اپنی مدد آپ کے تحت ےہ سب تخرےب کارلاشے بغےر کفن دفنانا پڑے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved