اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-04-01

چینی کھانا ایک عیاشی
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو
وفاقی وزیرِ خوراک کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم عیاشیوں پر لگ گئی ہے۔وہ چیزیں بھی کھانے لگی ہے جو ضرورت نہیں بلکہ محض عیاشی ہیں۔اُنہوں نے پاکستانی قوم کی عیاشیوں کی تفصیلی لسٹ ابھی تک اپنی مصروفیت کی وجہ سے جاری نہیں، چلو ہمیں بھی اتنی جلدی نہیں ،جاری کریں گے تو دیکھ لیں گے۔ ابھی صرف انہوں نے چینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی کھانا عیاشی ہے۔ہو سکتا ہے کہ وہ کل کلاں کچھ کھانے پینے کی اور چیزوں کو بھی عیاشی کے دائرہ میں شامل کر لیں فالحال انہوں نے چینی پر ہی اکتفا کیا ہے۔لگتا ہے ےہ بیان انہوں نے بہت گہرے غوروفکر کے بعد جاری کیا ہے اگر وہ گہرا غوروفکر نہ کرتے تو کہہ سکتے تھے،کروڑ کروڑ کی سرکاری گاڑیاں لئے پھرتے ہیں،لاکھوں کی کاسمیٹکس کی باہر سے شاپنگ کر لاتے ہیں یا کہہ دیتے لاکھوں اپنے جلو میں لے کر پھرنے والی گاڑیوں پر ضائع کر دیتے ہیں،انہوں نے کہا ہے کہ عوام چینی جیسے عیاشی کرنے لگتے ہیں۔ اب دیکیں ناں ہر دوسرا پاکستانی شوگر کا مریض بنتا چلا جا رہا ہے۔اگر کسی سے پوچھا جائے کیا حال ہیں اور وہ کہہ دے شکر ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کہہ رہاہو شوگر ہے۔ےہ اُن کی انسان دوست اور احساس کہ ہے انہوں نے متوقع خطرے سے پہلے ہی عوام کو اچھے طریقے سے آگاہ کر دیا ہے۔ اب دیکھیں ناں ،پاکستانی قوم بہت زیادہ بد پرہیزی بھی کرنے لگی ہے۔دوسرے دن یا تیسرے دن جب بھی اِنہیں کھانے کو کچھ ملتا ہے تو اِتنا پیٹ میں ٹھونس لیتے ہیں کہ پھر دو دو تین تین دن کھٹے ڈکار لیتے پھرتے ہیں ۔وہ جس طرح عوام کی صحت کی فکر کرنے لگتے ہیں،ہوسکتا ہے وہ اپنے دوسری ہدایت میں کھانے کی مقدار اور اس کے طریقہ کار کے بارے میں بھی روشنی ڈالیں۔اِدھر حال ےہ ہے کہ مانگیںجنرل سٹور والے سے چینی تو منہ پھیر کر دوسرے گاہک سے باتیں کرتے ہوئے مچھر مار ٹکیاں پکڑادیتا ہے۔اگر دوکاندار کی غلط فہمی سمجھتے ہوئے، دوبارہ چینی کے لئے اسرار کیا جائے تو جواب ہوتا ہے،اچھا تو جناب چینی کھائیں گے۔ اُن کا لہجہ
پولیس کے اُس تفتیشی افسر جیسا ہوتا ہے جو چو ر کی پٹائی کر رہا ہو اور چور کہہ دے میں نے دودھ پینا ہے تو تفتیشی افسر کہے اچھا تو جناب دودھ پئیں گے۔اگر اُن کے لیجے کی تلخی کو بد اخلاقی سمجھتے ہوئے کہا جائے کہ ےہ کیا فرما رہے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ اچھا پھر چینی کا تازہ ریٹ سن لیجئے۔وہ تروڑ مروڑ کر چینی کی قیمت ایک سو پچیس یوں بتاتا ہے جیسے کہہ رہا ہو ےہ منہ اور مسور کی دال۔اکثر کمزور دِل والے دیوار کا سہارا لے کا پانی کا گلاس مانگتے ہیں اور دوکاندار چینی کی قیمت سنانے سے پہلے حفظِ ماتقدم کے طور پر پانی کا گلاس گاہک کے سامنے رکھ چکے ہوتے ہیں۔وقت وقت کی بات ہے کبھی جنرل سٹور سے برتن دھونے والا صابن لینے جاتے تو دوکاندارمسکرا مسکرا کر دوچار کلو چینی بھی تھما دیتا تھا کہ صاحب ےہ بھی لیتے جاﺅ
کبھی بچوں کو حلوہ بھی کھلا دیا کرو۔ مسلہ ےہ ہے کہ اگر ملکی مفادار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ،چینی سے توبہ تائب ہو بھی جائےں توان بچوں کا کیا کریں جو چینی کے بغیر دہی کھانا یا دودھ پینااپنے اوپرہونے والا ظلم سمجھ بیٹھتے ہیں۔اگر جنرل سٹور والے کی توجہ بچوں کی طرف مبذول کروائی جائی تو کہتا ہے، بھائی، بچے تو کھیلنے کے لئے چاند مانگ لیں گے وہ بھی آپ لا کر دیں گے۔زمانہ بھی کیسے کیسے پیرہن بدلتا جا رہا ہے۔ کبھی ناممکن کے لئے ےہ محاورہ تھا کہ ےہ تو جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔اب جوئے شیر یعنی شوگر ملوں والے مائع کی صورت میں وہ شیرہ جس کی ٹافیاں بنا کر عوام کو کھلاتے تھے اب براہِ راست مائع چینی یعنی شیرہ کھلا رہے ہیں۔کبھی گڑ غریبوں کی مشکل گھڑی کا ساتھی ہوتا تھا۔جب بھی چینی کی قیمتیں آنکھیں دِکھانے لگتیں گڑ ڈھارس بندھاتا کہ نہ گھبراﺅ میں جو ہوں۔اب تو گڑ بھی چوہدری بنتا جا رہا ہے اور آنکھوں دکھلانے لگا ہے کہ میں بھلا کسی سے کم ہوں۔ گڑ کی قیمتوں نے سو کا ہندسہ چینی سے پہلے ہی چھو لیا تھا۔ دیہات کی زندگی سے اگر گڑ،شکر، لسی اور حقہ نکال دیا جائے تو ان کے پاس باقی صرف جمائیاں رہ جاتی ہیں۔گڑ کو دیہاتی بطور سویٹ ڈش استعمال کرتے ہیں، ہاضمے کے افعا ل درست رکھنے کے لئے گڑ استعمال کرتے ہیں اورسالن دستیاب نہ ہو تو سالن کی جگہ گڑ کو استعمال کرتے ہیں۔ قیمتوں کے سنہرے جال میں ےہ سادہ لوح دیہاتی بھی پھنس گئے ہیں اور گڑ کا ساتھ بھی اِن سے چھوٹ گیا ہے۔ان پانچ سو روپوں میں مہینے بھر کا خرچ چلانے والوں کے بھی اب ہزاروں سے بھی ضرورتوں کے سوراخ نہیں بھرتے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved