اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-

Email:-m.qammariqbal@yahoo.com

کالم نگارمنظور قاد ر کالرو کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔2011-04-01

اِ ک عمر اور
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور قاد ر کالرو

آج کا مسلمان کسی عمر کی راہ یوں تک رہا ہے جیسے حبس کے دوران دور افق پر نگاہ کسی سیاہ بادل کو تلاش کرتی ہے،اگرچہ آسمان پر کوئی پھیکی بدلی دلاسہ دینے کے لئے بھی موجود نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اُس کے دل میں امید کی لو ٹمٹماتی رہتی ہے اور اُس کی نگاہ بار بار آسمان کا طواف
کرتی رہتی ہے۔
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو۔ ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لئے
آج کا مسلمان اللہ سے اُسی طرح عمر مانگ رہا ہے جس طرح نبی آخرالزماں نے دین کی نصرت کے لئے عمر مانگا تھا۔ہاں بالکل اُسی طرح کا عمر جس کے کھردرے لباس میں پیوند لگے ہوں لیکن قیمتی پوشاکوں والے اُس سے دہل جائیں۔ جو جھونپڑے میں رہے لیکن جس کے رعب وجلال سے جواہرات سے مرصع تخت و تاج والے دہل جائےں۔جو سفر کے دوران کبھی خود اونٹنی پر سوا ر ہوتا ہو اور کبھی غلام کو سوار کر لے، لیکن بادشاہ کے دربار کے قریب غلام کو اس لئے اونٹنی پر سوار ہونے کا حکم دے کہ اُس کی باری ہے اور بادشاہ اسی بات سے دہل کر اطاعت قبول کر لے۔
گزر اوقات کر لیتا ہے ےہ کوہ و بیاباں میں۔ کہ شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
جو سرارسر احساس ہو۔جسے سوکھی روٹی کا نوالہ اٹھاتے ہوئے بھی ےہ خیال مضطرب کر دیتا ہو کہ آج اُس کی رعایا کا کوئی فرد بھوکا نہ رہ گیا ہو۔جو مسلح پہریداروں کے بغیر گھر سے نکلے اور اپنی ننگی پیٹھ پر آٹے کی بوریاں لاد کر رات کی تاریکی میں ضرورت مندوں اور بھوکوں کے گھر پہنچا آئے۔جو شہر سے باہر کسی جھاڑی کی چھاﺅں میں سو سکے۔
بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی۔کیا ہے اس نے فقیروں کو وارثِ پرویز
جس کا دل غنی ہو۔جس نے اپنی خواہشاتِ نفس کو لگام ڈال رکھی ہو۔جس نے اپنی رہائش گاہ کو عوام کی خون پسینے کی کمائی سے موتیوں اور جواہرات سے مرصع نہ کر رکھا ہو۔جس کے پاس کوئی شیش محل اور کوئی شاہی قلعہ نہ ہو۔جسے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے جاسوسوں کی ضرورت نہ ہو اور جسے دیکھ کر غریب سے غریب آدمی بھی پکار اٹھے کہ ےہ ہم میں سے ہے۔
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں۔ خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے۔
جو وہ دیواریں ہی گرا دے جو راعی اور رعایا کے درمیان صدیوں سے کھڑی ہیں اور جو مجبور و مقہور انسانوں کو اللہ کے خواف کے سوا ہر خوف سے نجات دلا دے۔جس کے گھر کی کنڈی ہر مظلوم ہر وقت کھٹکھٹا سکے اور جس کا گھر ہر بے بس ومجبور کو پناہ دے سکے۔
فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سلطانی۔ بہا میری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی
جس پر مجمع میں سے کوئی کھڑے ہو کر ےہ تنقید کر سکے کہ ےہ تم نے قمیض کیسے بنوایا ہے اوروہ جواب دیتے ہوئے اطمینان محسوس کرے کہ میرے بیٹے نے مجھے اپنا حصہ دے دیا ہے اس لئے میں نے ےہ قمیض مالِ غنیمت میں سے ملنے والے اپنے حصے کے پکڑے ہی سے بنوایا ہے ۔ جو اُس سلطنت کا فرمانروا ہو جس کی بنیاداخوت اور بھائی چارے پر ہو۔
ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستی شوق۔ نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں
جو جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر تک پہنچا ہوا ہو۔ جو اسکندریہ سے بلخ تک فتح کئے گئے علاقے کا ہیرو ہولیکن اس مردِ خود آگاہ کو اپنی ذات پر بھی فتح حاصل ہو۔ جو اس غرو ر کو شکست دے چکا ہو جو طاقت کے احساس کے ساتھ جنم لیتا ہے۔جسے فتوحات اور کامرانیاں متاثر ہی نہ کر سکیں جو بندوں کو خدائی کا دعویدار بنا دیتی ہیں۔
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولاں بھی۔ نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتا ہیں تہ و بالا
وہ ایک ایسا نظام لائے جو جبری تعاون کی بجائے رضاکارانہ تعاون کی بنیاد پر قائم ہو۔جس نظام کی بنیاد اپنی انفرادیت کو اللہ کے دین کی وحدانیت میں گم کرنا ہو۔
نہ ایراںمیں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی۔ وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصرو کسریٰ
جس کا پیٹ بھرا ہوا ہو اور جو فقط عطا کرنے والا ہی نہ ہو بلکہ زخمی روحوں پر مرحم لگانے والا بھی ہو۔جو ہوس کی آندھی میں اِدھر اُدھر بھٹکتی روحوں کے لئے اطمینانِ قلب کا سامان لے کر آئے۔
لبالب شیشہ تہذیب ِ حاضر ہے مے لا سے۔ مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ اِلا
آج کی مسلم ریاستوں کے فرمانرواﺅں سے اقبال مطمئن نہیں۔وہ خوبیاں جو ایک مسلمان فرمانروا میں ہونی چاہےےں، وہ نہ پاکر اقبال مایوس ہو کر یوں کہتے ہیں۔
اے لااِلہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں۔ گفتارِ دلبرانہ، کردارِقاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے۔ کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ
قحط الامام کی وجہ سے کافر مسلمان کی مسلمانی پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔آج پھر ایک خدا مست و خدا آگاہ مردِ مومن کو آنکھیں تلاش کر رہی۔ہاں کسی ایسے ہی اہلِ نظر کی آنکھیں منتظر ہیں جومردہ دلوں کوزندہ دلی عطا کرے، جو اداسیوں کو تازگیوں میں بدل سکے جو نااُمیدیوں کو اُمید میں بدل ڈالے۔
لا پھر اِک بار وہی بادہ و جام اے ساقی۔ ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی
تو میری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ۔تیرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved